گجربکروال اورپہاڑی قبائل

الطاف حسین جنجوعہ
جموںوکشمیر میں متعدد طبقہ جات کے لوگ آباد ہیں جوکہ یہاں صدیوں سے آپسی بھائی چارہ، ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ ان میں چار طبقات کشمیری، ڈوگرہ، پہاڑی، گجر بکروال کی نمایاںہیں۔جہاں تک گجر اور پہاڑی طبقات کا تعلق ہے تو اِن کی زیادہ آبادی اگھٹی ہے۔ یہ ایکدوسرے کے دُکھ سکھ میں ساتھی ہیں، پڑوسی ہیں، کسی کی زمین کی حد تو کسی کی مکان کی دیوار یا راستہ ملتا ہے۔ خوشی غمی میں یہ ایکدوسرے کا سہار ا ہیں۔ اِن دونوں طبقہ جات میں امیر، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی ہیں اور غریب وناخواندہ کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کہیں پہاڑی طبقہ کے لوگ بطور مزدور گجرصاحب ِ ثروت افراد کے گھر کام کرتے ہیں تو کہیں گجر بطور مزدور پہاڑی کے ہاں کام کرتا ہے۔ کہیں پہاڑی طبقہ کے کسانوں نے زمیندارگجر کی اراضی کاشت کے لئے حصہ پر لی ہے تو کہیں گجرکسان نے۔ راجوری پونچھ اضلاع میں آپ کو درجنوں ایسی مثالیں ملیں گی جہاں پہاڑی طبقہ کی بھیڑبکریوں کو چھ ماہی ڈھوکوں میں گجر طبقہ کے لوگ لے جاتے ہیں اور کہیں گجر طبقہ کی بھیڑ بکریوں کو پہاڑی بھائی لے جاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ کہ گجر اور پہاڑی اُن دو بھائیوں کا نام ہے جوایکدوسرے کے بھروسہ مند ساتھی ہیں جنہیں ایکدوسرے مکمل اعتماد ہے کہ چاہئے کچھ بھی ہوجائے وہ دشمن نہیں ہوسکتے، دھوکہ نہیں دے سکتے ۔
بعض اوقات گجر اپنی ذات کے بھائی سے زیادہ پہاڑی بھائی پر بھروسہ کرتا ہے ہے۔ اسی طرح پہاڑی بھائی کو بھی اپنے گجر بھائی پر اعتماد ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں یہ ایکدوسرے کے بہترین دوست ہیں۔ سول وپولیس انتظامیہ میں دونوں طبقات سے اعلیٰ عہدوں پر افسران تعینات ہیں اور ایک پہاڑی شخص گجر بھائی کے پاس اپنا کام اِس اُمید کے ساتھ لے کر جاتا ہے کہ یہ ہرحال میں حل ہوجائے اور وہ دعوے سے حل بھی کراتا ہے ۔اسی طرح پہاڑی طبقہ کے لوگوں کے کئی اہم کام گجر طبقہ کے افسرماتھے پرزرا بھر شکن لائے بغیرترجیحی بنیاد پر کرتے ہیں۔کئی اہم مواقعوں پر ایک دوسرے کا دفاع کرتے ہیںاور اُس کے ساتھ ہورہی زیادتی پر آواز بھی بلند کرتے ہیں۔ اسپتال میں اگر کسی مریض کو خون یا دیگر امداد کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ فوری ایکدوسرے کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ختم ، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات ایکدوسرے کی مدد کے بغیر کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ دونوںدودھ، دہی، بھیڑبکریاں ودیگرروزمرہ امور کے لئے ایکدوسرے پر منحصر ہیں۔
جموں وکشمیر کے پسماندہ اور سرحدی علاقہ جات میں اِنہی دونوں طبقات کی زیادہ آبادی ہے جوسرحدوں کے محافظ بھی ہیں اور وطن عزیز کی خاطر کئی قربانیاں بھی پیش کی ہیں۔ پسماندگی، ناخواندگی دونوں کے نصیب میں برابر کی ہے۔ آج بھی اگر جموں وکشمیر کے دور دراز علاقہ جات جن میں سب سے کم ترقی ہوئی یا وہاں بنیادی سہولیات دستیاب نہیں تو وہ پہاڑی گجر طبقات کی رہائشی بستیاں ہیں، آپ کو ملیں گیں۔
دونوں طبقات نے الگ الگ دیگر اقوام کے شانہ بشانہ ترقی کے لئے آئین ِ ہند کے تحت حقوق کی حصولی کے لئے جدوجہد شروع کی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1991میں گجر بکروال قبائل کو حکومت ِ ہند نے درج فہرست قبائل(ST)زمرہ میں شامل کرلیا جس کے بعد اس طبقہ نے کافی حد تک ترقی کی۔ پسماندگی اور ناخواندگی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔گجر پہاڑی بھائی جن کی 1991سے قبل تعلیمی ومعاشی حالت لگ بھگ یکساں تھی، میں سے پہاڑی پچھڑ گیا ۔ حکومتی سطح کئی گئی نا انصافی کی وجہ سے رفتہ رفتہ اِن دو بھائیوں میں دوریاں بڑھنی شروع ہوئیں ۔ تیسرے شخص نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دونوں کے درمیان نفرت کو بڑھانے کی ہرسطح پر کوشش کی۔ سیاسی قیادت نے بھی اس کا بھرپور فائیدہ اُٹھاکر اپنی اپنی سیاسی روٹیاں خوب سینکیں۔
خاص طور سے 1991کے بعد اضلاع راجوری اور پونچھ میں ’گجرپہاڑی‘الیکشن کے دوران ہار جیت میں اہم سیاسی فیکٹر بن گیا۔ سیاسی لیڈروں نے دونوں کے درمیان خود نفرت کے بیچ بھی بونا شروع کئے اور ازم کو ایک طرف ادارہ جاتی شکل بھی دے دی گئی۔’ایس ٹی بچاو ¿ ‘اور ’ایس ٹی لو‘کے نعرو ¿ں کو اس طرح خوفناک کر کے پیش کیاجاتا رہا کہ الیکشن کے وقت لوگ تعمیر وترقی اور اپنے دیگر تمام تر مسائل ومشکلات کو بھول کر صرف اسی مدعے پر ووٹ دینے پر مجبورہوجاتے رہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اِن دوبھائیوں کو آپس میں لڑانے، نظریاتی طور ایکدوسرے کا دشمن بنانے کی حتی المکان کوشش کی گئی، اگر چہ زمینی سطح پر اِس کا کوئی خاص اثر باہمی تعلقات پر زیادہ نہیں پڑا، مگر ترقی کے لحاظ سے خطہ پیر پنجال ہو، کرناہ کپواڑہ ہو، اوڑی ہو وغیرہ پچھڑتے گئے۔
5اگست2019کے فیصلوں سے جموں وکشمیر میں تاریخی بدلاو ¿ ہوا اور نئے سیاسی، معاشی حالات نے جنم لیا۔ اِن حالات میں پہاڑی طبقہ نے اپنے مطالبہ کو حکومت ِہند کے سامنے پروجیکٹ کیا۔اس ضمن میں25دسمبر2019کو وزیر داخلہ امت شاہ سے نمائندہ وفد کی ملاقات اہم پیش رفت ثابت ہوئی جس کے بعد پہاڑی طبقہ کو یوٹی کے اندر چارفیصدریزرویشن دی گئی۔24اکتوبر2021کو وزیر داخلہ امت شاہ کے پہلی جموں دورہ کے دوران پہاڑیوں سے متعلق اعلانات ۔ پھر2022میں راجوری اور بارہمولہ میں دوبارہ جائزہ مطالبہ کو پورا کرنے کی یقین دہانیوں نے ایک نئی اُمید کی کرن پیدا ہوئی اور اس دیرینہ مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے بھاجپا قیادت نے مخلصانہ وسنجیدگی کوششیں کرتے ہوئے قانونی طریقہ سے تمام حائل رکاوٹوں کو دورکرنے کے ساتھ ساتھ اہم مراحل طے کئے اور آئینی ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش ہوا۔وزیر داخلہ امت شاہ مرد آہن اور وعدہ کے پابند شخص ہیں۔ انہوں نے جہاں پہاڑی طبقہ سے انصاف کرنے کی بات کی وہی بار بار یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ گجر بکروال قبائل جوپہلے سے ایس ٹی زمرہ میں شامل ہیں، کے حقوق سے چھیڑچھاڑ نہیں ہوگی اور اُنہیں رتی بھر نقصان نہیں ہوگا اور ہمیں اس پر اطمینان ہونا چاہئے کہ وہ وعدہ وفا کریں گے۔ ریزرویشن کے اند ر ریزرویشن کوٹہ دیاجاسکتا ہے۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت کے فیصلے پر عدالت عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ بھی ہے جس نے آندھرا پردیش کے سابقہ فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو صحیح قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ اِس بل کے تحت پہاڑی طبقہ کو ایس ٹی فہرست میں شامل کیاگیاہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے بل کو منظوری اورصدرِ جمہوریہ ہند کی مہر ثبت ہونے کے بعد جموں وکشمیر حکومت کے حد اختیار میں ہے کہ وہ رولز بنائے کہ پہاڑی ایتھنک گروپ میں کون کون ذاتیں/لوگ اور علاقہ جات آتے ہیں، اِن کی آبادی کتنی اور کہاں کہاں ہے۔کتنافیصدریزرویشن کوٹہ اِنہیں دیاجائے وغیرہ وغیرہ۔ اگر چہ اس اس ضمن میں چیزیں پہلے ہی واضح ہیں جس میں کمی وبیشی کی گنجائش رہے گی۔ اس حوالے سے جموں وکشمیر ریزرویشن ایکٹ2004کی سیکشن23/24کے تحت رولزبنائے جائیں گے نوٹیفکیشن جاری ہوگا۔یہ ریزرویشن 49فیصد سے زائد کسی صورت میں نہ ہوگی۔ او بی سی کوکوٹہ ملے گا، پی ایس پی کوٹہ کٹے گا، اے ایل سی/آئی بی کوٹہ اور آربی اے کوٹہ میں تبدیلی ہوگی۔یعنی کہ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ حکومت کبھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں لیتی جس سے ایک طبقہ کے حقوق پر دوسرے کو ترجیحی دی جائے۔ قانون وآئین کا بھی تقاضا یہی ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ اِس ترمیمی بل کو پارلیمنٹ تک لانے سے قبل ہر سطح پر سیر حاصل بحث وتمحیص ہوچکی ہے ، سبھی کے مفادات کا تحفظ یقینی بناتے ہوئے حتمی فیصلہ لیاگیا۔
تاریخ نے گجر اور پہاڑی طبقات کو ایک سنہری موقع فراہم کیا ہے کہ وہ تین دہائیوں سے جاری اپنی سیاسی رسہ کشی، چپقلش اور مخالفت پرتوانائی صرف کرنے کی بجائے متحدہوکر اپنے بہتر مستقبل کے روشن امکانات کو تلاش کریں۔یہ موقع ملا ہے کہ ہم ازم پرستی سے باہر نکل کر اپنی قبائلی شناخت برقرار رکھتے ہوئے مشترکہ طور تعلیم وتحقیق اور زندگی کے دیگر شعبہ جات میں آگے بڑھنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔ایس ٹی کی تعمیر وترقی کے لئے حکومت ِ ہند کے خزانے میں زرا بھر کمی نہیں۔ ایس ٹی زمرہ میں جتنی زیادہ آبادی شامل ہوگی۔ اُتنی زیادہ مراعات ، فنڈز ملیں گے اور اِس سے خطہ کی مزید ترقی ہوگی۔ راجوری اور پونچھ اور دیگر علاقہ جات میں جہاں پہلے اگر 100روپے آتے تھے اب وہاں180آئیں گے ۔ اس سے خطہ کی ترقی ہوگی۔ لوگوں کا معیار ِ حیات بہتر ہوگا۔ اب آپ کو یہ موقع ملا ہے جوبہترقائدانہ صلاحیتوں کا مالک ہے جوتعمیر وترقی کا وژن رکھتا ہے، آپ اُس کا انتخاب کریں وہ چاہئے گجر ہویا بھائی ۔ اب زات برادری نہیں بلکہ میرٹ کوالیفکیشن ہوگا۔
گجر پہاڑی سیاسی قیادت کو سیاسی سطح پر بھی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔ دونوں طبقات مل کر اتفاق رائے سے انتخابات میں حصہ لیں تو کم سے کم22اسمبلی نشستوں پر یہ جیت درج کر کے حکومت سازی میں اہم حصہ دار بن سکتے ہیں۔سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ مخالفت اور احتجاجی راستہ اختیار کر نے سے نفرتیں ہی جنم لیتی ہیں اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پہاڑی طبقہ کو شیڈیول ٹرائب ملنے سے دونوں طبقات کی مشترکہ فوائد کی فہرست طویل ہے جبکہ نقصان بہت کم۔اس اہم مرحلہ پر دونوں طبقات کی سیاسی قیادت، بزرگ شخصیات ، سول سوسائٹی ممبران اور اپنے اپنے طبقہ جات کے اندر اثر رسوخ رکھنے والوں کو اتفاق واتحاد سے اپنے آنے والے کل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر توانائی صرف کرنی چاہئے تاکہ منفی سوچ رکھنے والے عناصر غلط فائیدہ نہ اُٹھاسکیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کالم نویس صحافی اور جموں وکشمیر ہائی کورٹ وکیل ہیں