منڈی،لورن،ساوجیاں چراغ تلے اندھیرا!

الطاف حسین جنجوعہ

جموں وکشمیر یوٹی کی بارڈر ڈسٹرکٹ پونچھ ایک مکمل ریاست ہوا کرتاتھی،1947کی تقسیم کے بعدیہ سکڑ کر1,674مربع کلومیٹر تک رہ گئی جوکہ موجودہ نظام میں ضلع تین اسمبلی حلقوں، دوسب ڈویژن ،چھ تحصیلوں،گیارہ بلاکوں پر مشتمل ہے۔چودہ ضلع ترقیاتی کونسل حلقے ہیں۔ اِس وقت سرپنچوں، پنچوں کے علاوہ گیارہ چیئرمین بلاک ڈولپمنٹ کونسل اورچودہ ضلع ترقیاتی کونسل ممبرا ن بطور عوامی نمائندہ کام کر رہے ہیں۔
مشرق میں اِس ضلع کی سرحدی وادی کشمیر کے خوبصورت اضلاع شوپیان، بڈگام اور کولگام سے ملتی ہیں۔ جنوب میں راجوری ،بارہمولہ اضلاع اور PAJKکا ضلع حویلی ہے جبکہ شمال اور مغرب میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا پونچھ کا علاقہ ہے۔
قدرتی حسن سے مالا مال اس کرئہ ارض پرکئی ایسے علاقہ جات ہیں، جہاں جاکر آپ دُنیا کے ہر غم کو بھول جاتے ہیں۔پونچھ ضلع میں ہیری ٹیج، ایڈونچرٹورازم، مذہبی سیاحت، قدرتی خوبصورتی، بارڈر ٹورازم ہر ایک کے وسیع امکانات موجود ہیں۔حویلی پونچھ، مینڈھر اور سرنکوٹ تینوں اسمبلی حلقوں میں موجود سیاحتی مقامات کی اپنی منفرد اہمیت وحیثیت ہے جن پر طویل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اِس کالم میں صرف اسمبلی حلقہ حویلی کے علاقہ ”منڈی۔ لورن اور ساوجیاں“کی بات کریں گے۔
لورن۔ ساوجیاں، ساتھرہ، گگڑیاں علاقے تحصیل منڈی کا ہی حصہ ہیں جہاںکئی خوبصورت مقامات ہیں۔پرسکون فضاء، صاف وشفاف ماحول، قدرتی چشمے اور جھرنے جابجا آپ کا استقبال کرتے ہیں۔
صدر مقام منڈی پر تاریخی بڈھا امرناتھ مندر ہے جہاں ہندوستان بھر سے زائرین درشن کے لئے آتے ہیں۔قصبہ پونچھ سے 20کلومیٹر دور لورن خوبصورت علاقہ ہے جہاں بٹل کوٹ میں زیارت سائیں الہیٰ بخش بھی ہے ۔ خوبصورت آبشار نندی چھول لورن سے 12کلومیٹر اور سلطان پتھری سے 6کلومیٹر دور ہے جہاں 150فٹ بلندی سے پانی گرتا ہے۔موسم سرما میں یہ جم جاتا ہے جوکہ انتہائی خوبصورت منظرپیش کرتا ہے۔ تحصیل منڈی میں ہی تھان پیر ایک خوبصورت جگہ ہے۔ جہاں سے آپ وادی سرنکوٹ، منڈی، پونچھ اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کی ٹولی چوٹی تک کا نظارہ کر سکتے ہیں۔سیکولر ازم کی بہترین مثال پیش کرتے تھان میر میںایک زیارت ہے، ساتھ ہی ایک مندر اور گردواراہ بھی تعمیر ہے۔اِس جگہ کا انتظام وانصرام فوج کے پاس ہے جنہوں نے یہاں اس قدر صفائی رکھی ہے کہ آپ کو سرسبز میدان میں دور دورتک ایک تنکا بھی پڑا نہیں ملے گا۔ سیاحوں کو خاص تاکید رہتی ہے کہ وہ کوڑکرکٹ وغیرہ وہاں نصب کوڑا دان میں ہی ڈالی۔گلی میدان، سلطان پتھری، نورپور گلی اس خطہ کے دیگر کچھ قابل ذکر انتہائی خوبصورت مقامات ہیں۔
منڈی سے براستہ کشمیر ٹریکنگ کا روٹ بھی ہے۔ پونچھ سے گلمرگ کشمیر براستہ جمیہ گلی آپ پیدل سفر کرسکتے ہیں جوکہ پونچھ۔ گگڑیاں، ساوجیاں، بشری نالہ، برنارہ مرگ، جامیہ مرگ، جامعیہ گلی سے ہوتے ہوئے گلمرگ (ٹنگمرگ)تک جاتا ہے۔ اس میں جامیہ گلی 15000فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔پونچھ سے نندی چھول براستہ لون (سلطان پتھری) سفرکیاجاستا ہے۔پونچھ سے یوزمرگ (کشمیر)براستہ نور پور گلی اور کھارہ گلی بھی ایک ٹریک ہے جس پرآپ اگر پونچھ سے سفر شروع کریں تو راستے میں لورن۔ سلطان پتھری۔ نورپور گلی، توش میدان، کند، دودھ گنگا پل کو عبور کرتے کرتے آپ یوزمرگ پہنچتے ہیں۔علاوہ ازیں پونچھ تاگلمرگ براستہ چور گلی جس میں پونچھ سے سفر شروع کرتے وقت راستہ میں ساوجیاں، گلی میدان، منگیانہ، سری، چورگلی آتے ہیں اور پھر گلمرگ آتاہے۔
اس خطہ کوبراہ راست وادی کشمیر سے جوڑنے کے لئے لورن تا ٹنگمرگ 44کلومیٹر سڑک بھی زیر تعمیر ہے جس میںساوجیاں تانیڑیاں27کلومیٹر سڑک مکمل ہے ، بقیہ 17کلومیٹر حصہ پر تعمیر مختلف مراحل میں ہے۔ آنگن پتھری ۔گلمرگ اس سڑک منصوبے کاتعمیر ی کام2014میں شروع ہوا تھا لیکن حائل کئی رکاوٹوں اور سیاسی عدم توجہی کی وجہ سے اِس کی تکمیل میں غیر ضروری تاخیر ہورہی ہے۔
مندرجہ بالا چند سطور سے آپ اِس خطہ کی سیاحتی اہمیت کا انداز ہ لگاسکتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ اس خطہ کی جامع ترقی پر سیاسی قیادت نے کبھی مخلصانہ کوششیں نہ کیں۔ منڈی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ 1947سے لیکر آج تک اسمبلی حلقہ حویلی کا سیاسی اقتدار اِسی کے پاس رہا مگر جو ترقی ہونی چاہئے تھی وہ نہ ہوسکی۔ چنڈک سے جوں جوں آپ منڈی کی طرف آپ آگے بڑھتے جائیں گے تو سڑک کی خستہ حالت دیکھ کر آپ کو خود اندازہ ہوتا جائے گا کہ یہاں کی سیاسی قیادت کتنی دور اندیش ہے اور خطہ کی ترقی کے لئے کتنا وسیع وِژن رکھتی ہے۔ سات دہائیوں کے زائد عرصہ تک اقتدار کا تاج منڈی کے سرپر رہا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ یہاں سیاحت کے لئے تمام مطلوبہ ڈھانچہ دستیاب ہوتا، پنج تارہ سہولیات سیاحوں کے لئے ہوتی مگر ایسا کچھ نہیں۔سفر کرتے کرتے جب آپ منڈی صدر مقام پر پہنچیں تو وہاں پر اگر چند منٹ ٹھہر کر مشاہدہ کریں تو آپ کو سیاسی قیادت کی نااہلی اور لوگوں کی بے بسی واضح نظر آئے گی۔منڈی بازار کے بیچوں بیچ گذرنے والی سڑک کی حالت اس قدر خستہ ہے کہ دھول اورکیچڑ سے دکانداروں، راہگیروں کو حال بے حال ہے۔ بازار کے جتنے بھی دکاندار ہیں، اُنہیں دن میں کم سے کم چھ سات بالٹیاں پانی اپنی دکان کے باہر چھڑکنا پڑتا ہے تاکہ دھول نہ اُٹھے ۔ ایک ملازم تو دن پر سامان سے دھول صاف کرنے میں لگا رہتا ہے۔ نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں۔
اسمبلی حلقہ حویلی (پونچھ)سے جن8شخصیات کو 1947سے لیکر 2018تک جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میںنمائندگی کا موقع ملا ہے اور اِن سبھی کا تعلق تحصیل منڈی کے بالائی علاقوں سے ہے۔ ان میں 1962تک دو مرتبہ ایم ایل اے رہنے والے ماسٹر غلام محمد خان(ساوجیاں) ،غلام محمد میر پونچھی، غلام احمد گنائی(ڈاکٹر شہناز گنائی کے والد)، چوہدری بشیر احمد ناز، غلام محمد جان، اعجاز احمد جان، جہانگیر حسین میر اور شاہ محمد تانترے شامل ہیں۔ محمد دین بانڈے پہاڑی مشاورتی بورڈ وائس چیئرمین رہے۔ اس کے علاوہ غلا م احمد گنائی اور اُن کی دختر ڈاکٹر شہناز گنائی ایم ایل سی بھی رہیں۔ چوہدری بشیر ناز گجر مشاورتی بورڈ وائس چیئرمین رہے جبکہ تحصیل حویلی اور شہر ِ خاص پونچھ سے آج تک صرف یشپال شرما اور پردیپ شرما ایم ایل سی رہے ہیں۔
موجودہ ضلع ترقیاتی کونسل پونچھ چیئرپرسن تعظیم اختر کا بھی تعلق تحصیل منڈی سے ہی ہے۔ وہ ساتھرہ حلقہ سے ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ لورن سے ریاض چوہدری اور منڈی سے عتیقہ بیگم ڈی ڈی سی ممبر ہیں۔ساتھرہ سے بی ڈی سی چیئرمین فریدہ بی، منڈی سے شمیم احمد گنائی (پی ڈی پی ضلع صدر پونچھ)اور لورن سے شمیم اختر ہیںدیگر موجودہ وقت میںعوامی نمائندے ہیں۔اتنی قد آور سیاسی شخصیات کو ایوان قانون سازیہ تک بھیجنے کے باوجود منڈی ۔ لورن اور ساوجیاں پونچھ ضلع کے پسماندہ ترین علاقے ہیں جہاں بیشتر دیہات میں آج بھی ضروری بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔منڈی میں ڈگری کالج کی منظوری کو پانچ سال سے زائد کا عرصہ گذرچکا ہے ابھی تک اِس کی عمارت نہ بن سکی۔ساتھرہ۔منڈی۔لورن۔ گگڑیاں۔ساوجیاں میں سیاحت کے اس قدر امکانات موجود ہیں کہ اِگر یہاں پر ٹورازم کا بنیادی ڈھانچہ قائم کیاجائے تو یہ سوئٹزرلینڈسے کسی بھی طرح کم نہیں۔
بہتر سڑک اور طام وقیام کی اچھی سہولیات کسی بھی خطہ میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے بنیادی چیزیں ہیں اور اِن تینوں کا فقدان منڈی میں ہے۔ پونچھ ٹورازم ڈولپمنٹ اتھارٹی اس خطہ کو یوٹی اور ملکی سیاحتی نقشہ پر لانے کے لئے کوئی قابل ذکر کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر چند رسمی پروگرام ہی ہوتے ہیں۔سیاحتی مقامات کی پرموشن کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہ اُٹھائے گئے ہیں۔اس خطہ کے عام لوگ اس س سوچ میں ڈوبے ہیں کہ وہ کیا کریں جس سے اُن کی تقدیر بدلے، اِس خطہ کی ترقی اور اُن کامعیار ِ حیات بہتر ہوسکے۔ سترسالوں سے عوامی نمائندوں کو تو وہ منتخب کر کے قانون ساز، منصوبہ سازاور فیصلہ ساز اداروں میں تو بھیج ہی رہے ہیں اُس سے تو کوئی تبدیلی نظر آتی نہیں۔سیاستدان عوامی نمائندگی کا حق ادا نہ کرسکے اور سبھی لوگوں کے اس حوالے سے مقروض ہیں۔اِس خوبصورت خطہ کے لوگوں نے آج تک کئی سیاستدانوں تو پیدا کئے لیکن ایک اسٹیٹس مین(Statesman)کی تلاش ابھی بھی جاری ہے جولوگوں کو صرف ووٹ بینک کے لئے استعمال نہ کرئے بلکہ سیاحتی شعبہ کو ترقی دلاکر اُنہیں اپنے پاو ¿ں پر کھڑا ہونے کے قابل بنادے….!
٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ: کالم نویس صحافی اور ہائی کورٹ وکیل ہیں۔
وہاٹس ایپ:7006541602
ای میل:altafhussainjanjua120@gmail.com