عارضی ملازمین کا مستقبل

ٰٓایک جانب ہم نے پوری دنیا کے ساتھ یوم مئی منایا ،یعنی ہم نے مزدوروںکے حقوق کا دن منایا ،اس موقعہ پر سرکاری و غیر سرکاری تقاریب میںہم نے مزدوروںکے حقوق پر روشنی ڈالتے ہو ئے ان کی زندگی خوشیوںسے بھرنے کا عہد کیا ۔اس روز امریکہ کے شکاگو کے شہیدوںکو خراج عقیدت پیش کر تے ہو ئے مزدور کو ان کے حقوق کا تحفظ اور ان کے اہل خانہ کی خوشیوںکو دوبالا کرنے کا عہد کیا ۔مقررین نے مزدوروںکے حال پر روشنی ڈالتے ہو ئے ان کے ساتھ ہو رہے سلوک پر خفگی کا اظہار کر تے ہو ئے ان کے لئے کچھ کر گذرنے کا یقین بھی دلایا ۔مگر زمینی حقیقت پر اگر نظر دوڑائی جا ئے تو یوم مئی کے گذر جانے کے ساتھ ہی ہماری تقاریریںجملہ ثابت ہو رہی ہیں۔ہمارے جموںوکشمیر کے مزدور کی زندگی میںجو اندھیرا کسی بھی وجہ سے ہے ،اس تاریکی کو دور کرنے کی کسی نے کوشش تک نہ کی بلکہ ان کو استعمال کرنے کیلئے ان کے مفادات کے ساتھ اظہار یکجہتی کر کے اپنا مفاد حاصل کرنے کے بعد ان کو در در بھٹکنے پر مجبور کر دیا ۔جس کی وجہ سے 28سالوں سے جموںوکشمیر یوٹی میںایک اندازے کے مطابق 60ہزار عارضی مزدور بے یارو مدد گار پڑے ہو ئے ہیں،ان کے گھروںمیںروشنی کا دیا جلانے کے لئے کسی بھی سیاسی لیڈر سیاسی پارٹی نے خلوص دل سے کوشش تک نہ کی ۔جس کی وجہ سے یہ مزدور بندھوا مزدور بن کر رہ گئے ہیں،ان سے کام تو مستقل ملازم کی طرح لیا جا تا ہے مگر حقوق کی ادائیگی کے وقت سارے راستے بند کر دئے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ بھکمری کا شکار ہیں،یہ بندھوامزدور اپنے نونہالوںکو تعلیم دینے سے محروم ہیں،یہ اپنے اہل و عیال کو معمولی خوشی تک دینے کی سکت نہیںرکھتے ۔ان کا حال یہ ہے کہ یہ بزرگ والدین کو دوائی تک دینے سے محروم ہیں،دیش بھر میںدیوالی ہو یا عید یا کرسمس ان کے گھروںپر کبھی کوئی تہوار بنایا نہیںجا تا ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کئی دہائیوںسے ان کے مطالبات کو ہر کسی نے جائز مان کر ان کو پورا کرنے کا یقین دلایا مگر سبھی نے ان کے ساتھ چھل کپٹ کر کے ان کے زندگی اجیرن بنا دی ہے ،یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کو بھروسہ دلانے والوںنے ان کو لاٹھی و ڈنڈے ہی دئے جبکہ یہ بھی اسی سرزمین کے باشندے ہیں،ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ کیوںاختیار کیا جا رہا ہے جبکہ بات بات پر رٹ لگائی جا تی ہے کہ سب ممکن ہے ۔جبکہ حقیقت میںان کے لئے کچھ بھی ممکن ابھی تک دکھائی نہ دے رہا ہے ۔ان بندھوا مزدوروںبارے کوئی پالیسی بنائی جانی چاہئے ،ان کو ان کے حقوق ادا کرنے میںکوئی عیاری اختیار نہ کرنی چاہئے ۔کیونکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے ،یہ ہمارے سماج سے جڑا معاملہ ہے ،یہ لوگ انصاف مانگ رہے ہیں،ان کو انصاف دئے جانے سے تین لاکھ افراد کی زندگی سنور سکتی ہے ۔ان کی زندگی میںروشنی آسکتی ہے ۔کیا امید کی جائے کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدے وفا ہوںگے یا ان کو یوںہی تڑپا تڑپا کر تاریکی کے دلدل میںدھکیلا جاتا رہے گا ۔