کشمیر: ناساز گار موسمی صورتحال سے سیب پیداوار میں 50 فیصد کمی واقع

 

اُڑان نیوز نیٹ ورک
سری نگر// وادی کشمیر میں امسال گرچہ سیبوں کی مانگ عروج ہے تاہم نا ساز گار موسمی صورتحال کی وجہ سے پیدا وار میں کم سے کم 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔وسطی ضلع بڈگام کے تاریخی قصبہ چرار شریف سے تعلق رکھنے والے عبدالقیوم ڈار نامی ایک باغ مالک کا کہنا ہے کہ ماہ جولائی میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں بیماری لگنے سے فصل تباہ ہوئی۔انہوں نے بتایا: ‘درختوں پر شگوفے برجستہ پھوٹے تھے کہ بیماری لگنے سے مرجھا کر گر آئے’۔ان کا کہنا تھا: ‘ہم نے متعلقہ محکمے کی ہدایات پر باغوں کی وقت وقت پر دوا پاشی بھی کی لیکن شگوفے درختوں سے گرتے رہے جس کے نتیجے میں پیدا وار میں کم سے کم 50 فیصد کمی واقع ہوئی’۔تاہم موصوف نے امسال مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور اچھے بھاﺅ سے اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو اچھا فائدہ ہونے کی توقع ظاہر کی۔انہوں نے کہا: ‘امسال مارکیٹ میں کافی ڈیمانڈ ہے پیشگی آرڈر مل رہے ہیں اور فصل اتارنے سے پہلے ہی مختلف ریاستوں کے بیو پاری آ رہے ہیں’۔ان کا کہنا تھا: ‘اس سال بابوگوشہ ناشپاتی کے ایک ڈبے کو 8 سے 11 سو روپیے میں فروخت کیا گیا جس کو سال گذشتہ زیادہ سے زیادہ 5 سو روپیے میں بیچا گیا تھا اس قسم کی ناشپاتی کو دلی کی منڈی میں سپلائی کیا جاتا ہے’۔عبدالقیوم نے کہا کہ چرار شریف کی منڈی میں ممبئی، بنگلور، دہلی اور دیگر ریاستوں کے بیوپاری آ رہے ہیں جو ان کو امریکہ، بنگلہ دیش، نیپال وغیرہ جیسے ملکوں کو بر آمد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان ممالک کے بیوپاری بھی مال خریدنے کے لئے یہاں آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا: ‘سال گذشتہ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کو بے تحاشا نقصان اٹھانا پڑا لیکن امسال ہمیں پوری امید کہ ایسا نہیں ہوگا اور حکام مال کو ملک کی دوسری ریاستوں تک پہنچانے میں قومی شاہراہ پر میوہ سے لدی گاڑیوں کی ہموار نقل وحمل کو یقینی بنانے کے لئے تمام تر انتظامات کرے گی’۔انہوں نے کہا کہ اس سال پیداوار میں کمی سے ریٹ اچھی رہے گی۔موصوف نے کہا کہ سال گذشتہ اس سیزن کے دوران بابو گوشہ ناشپاتی کے 10 سے 15 ٹرک روزانہ دلی جاتے تھے لیکن امسال صرف 2 یا 3 ٹرک ہی جاتے ہیں۔جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والے محمد امین نامی باغ مالک کا کہنا ہے کہ پیدا وار میں کمی کی وجہ ناساز موسمی صورتحال ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی علاقوں میں ڑالہ باری ہونے سے بھی میوہ کو نقصان پہنچا۔انہوں نے کہا: ‘تاہم شوپیاں کے زیریں علاقوں میں پیداوار تسلی بخش ہے۔ان کا الزام تھا کہ غیر معیاری ادویات بھی پیداوار میں کمی واقع ہونے کی ایک وجہ ہے۔محمد امین نے کہا کہ ہائی ڈنسٹی گالا سیب کی ریٹ کافی اچھی ہے اور اس کی مانگ میں بھی اضافہ درج ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے سیب نیپال، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے بازاروں کے علاوہ امسال سعودی عرب کے بازاروں میں بھی پہنچنے کے امکانات ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا سیب شکل وصورت اور ذائقے میں امریکہ کے سیب سے مقابلہ کرے گا۔ایران کے سیبوں کے مارکیٹ میں آنے سے کشمیر کے سیب متاثر ہوئے۔موصوف باغ مالک کا کہنا ہے کہ اس پر کسٹم ڈیوٹی لگا کر کشمیری سیب کو بچانے کی ضرورت ہے۔ ہاٹی کلچر محکمہ کے ایک سینئر عہدیدار نے یو این آئی کو بتایا کہ ماہ اپریل میں سردی ہونے اور جولائی کی مسلسل بارشوں سے درختوں کو بیماری لگ گئی جس کی وجہ سے اس سال پیدا وار میں کمی واقع ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ‘سکیب’ ایک فنگل بیماری ہے جو بڑھتی ہوئی نمی سے درختوں کو لگ جاتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی معمول کی دوا پاشی اپنا اثر نہیں کرتی ہے جس کے بعد مزید دوا پاشی کرنی پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ باغ مالکان اکثر صبح یا شام کے وقت باغوں کی دوا پاشی کرتے ہیں اور پھر موسم خراب ہونے سے اس کا کم اثر ہوجاتا ہے۔موصوف افسر نے کہا کہ محکمہ باغ مالکان کو دوا پاشی کرنے اور دوسرے امور انجام دینے کے لئے مسلسل ہدایات دیتا رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمے کی ایک علاحدہ ونگ ہے جو باغ مالکوں کی بھر پور رہنمائی کرتی ہے۔