مشرقی خواتین مغرب کے نرغے میں

شہباز رشید بہورو

ہماری نوجوان نسل اصلاحی و تعمیری اعمال انجام دینے کے بجائے تخریبی و اخلاق سوز سرگرمیوں میں ملوث ہے۔نشہ آور چیزوں کے استعمال کی لت ،ڈیجیٹل جام کی دھت ،،ناجائز جنسی تعلقات ،بدنگاہی اور بدزبانی  ان کی نوجوان شخصیت کے بنیادی خدوخال بن چکے ہیں ۔دین ومذہب سے بیزاری ،عبادت وریاضت سے سبکدوشی ،اور عزت واحترام سے عاری ہونا ان کے مستقبل کے لئے جہاں تاریک بنا رہا ہے وہیں پورے معاشرے کے لئے ان کا وجود آئے دن  ضرررساں ثابت ہو رہاہے ۔نوجوان نسل چند لمحات کی لذت کے لئے اپنا سب کچھ یعنی ذاتی شرافت ،خاندانی وقار ،کردار کی معصومیت ،ذہانت کا نازک آبِ حیات ،صحت و تندرستی کا متوازن نظام قربان کررہا ہے ۔جدید نسل کے لئے دین ومذہب ،اخلاق وآداب اور علوم وفنون محض ایک شغل عارضی بن چکا ہے جن کا اہتمام زندگی کے مختصر حصے میں کرنا ضروری ہے  لیکن پوری زندگی میں اپنانا فضول ہے ۔نوجوان نسل کی اس اصطلاح کے دامن میں صرف مرد ہی نہیں آتے جو اکثر ہر برائی کا ہدف بنتے ہیں ۔بلکہ اس جدید تباہی کی دلدل میں  خواتین بھی برابر کی شریک ہیں  جو اپنی عصمت کو فیشن کی خبیث نمائش کی قیمت پر تار تارکرنے پر تلی ہوئی ہیں ۔فیشن کے ذریعہ سے جس عریانیت کا مظاہرہ خواتین کر ہی ہیں اس سے معاشرے میں حیا کا تقدس پامال ہورہا ہے۔فیشن کی اس وبا سے آئے روز جنسی زیادتیاں ،اغوا ، قتل اور گمشدگی جیسے  سنگین جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
خواتین سے مغرب کی تقلیدی آزادی نے تحفظ چھین لیا ہے،فطری نسوانیت میں تغیر برپا کیا ہے  اور عورت کو محض دل لبھانے والی شئے بنا ڈالا ہے ۔مغرب کی بے حیا تہذیب نے ہماری خواتین کو اپنی چمک دمک سے اس قدر متاثر کیا کہ آج ہماری خواتین اپنے جسم سے پردہ ہٹانے کو اپنا حق سمجھ رہی ہیں  اور مرد کی عقل پر پردہ ڈالنے کو اپنا ہنر متصور کرتی ہیں۔مغرب نے عورت کو ہر اسٹیج  پر نصب کرکےشہوت کی  لذت کو اجاگر کرکے مشرقی دنیا سے بے شمار دولت سمیٹ لی ہے  جس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے ۔اب عورت اپنی فطرت کی حفاظت میں بری طرح ناکام ہورہی ہے جس سے اس کا مستقبل نہایت خطرے میں نطر آرہا ہے ۔جدید عورت اپنی نسوانیت کی محافظ بننے کے برعکس اپنی تباہی کی سفیر بن چکی ہے ۔مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا  پسند کرکے اس نے اپنی تباہی کا انتخاب کیا ہے ۔اس یکساں معاشرتی تعامل کی وجہ سے عورت بآسانی مرد کی حوس کا شکار بن رہی ہے ۔
مغرب کے مفکرین نے آزادی نسواں کا نعرہ بلند کرکے عورت کو مرد کے برابر لانے کا جو کام کیا ہے اس سے دنیا کا خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ چکا ہے  اور عورت جنسی ضرورت پورا کرنے کا ذریعہ بننے کے ساتھ ساتھ ظلم وزیادتی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے ۔جس کی واضح مثالیں آج معاشرےمیں  مبرہن ہو کر سامنے آرہی ہیں ۔مغرب کی اس پھیکی آزادی   نے مشرقی خواتین کو  بظاہر جدید لیکن بباطن فرسودہ ،ضمیر کش  اور حیا سوزطریقہ حیات سے متعارف کیا ہے ۔ جس سے یہاں پر خواتین سے منسلک جرائم میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ مشرقی معاشرہ چونکہ قدامت پسند Conservativeمعاشرہ تھا ،یہاں عورت پر بری نظر ڈالنا ،ان پر رماکس پاس کرنا اور ان کے ساتھ آزادنہ اختلاط کومعیوب سمجھا جاتا تھا  لیکن اب جدید مغرب کی آزادی نسواں کی تحریک کے پھیلنے کی وجہ سے صدیوں کی قدامت پسندی اور غیر مشروط آزادی کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی ۔جس کے نتیجے میں عورت ظلم کی ایسی چکی میں پسی جارہی ہے جہاں پر اس کا اصلی زیور یعنی نسوانیت بالکل ختم ہوکر رہ گیا ہے ۔مغرب کے افکار اور معاشرے کے احوال نے شہوت کا دروازہ تو ایک طرف کھول دیا تو   دوسری طرف قدامت پسندی کا ماحول آزادنہ جنسی تسکین کی تعمیل میں آڑے آنے لگا جس کے نتیجے میں مغرب کی بھڑکائی ہوئی  شہوانی آگ زبردستی اپنا ایندھن تلاش کرنے لگی جس سے یہاں خواتین پر آئے دن  جنسی زیادتی ،اغوا ،زنا بالجبر اور  قتل  جیسے واقعات میں  اضافہ ہو رہا ہے ۔اسی سلسلے میں یہ خبر جب اخبارات کی سرخی بنی کہ ہمارے ملک بھارت میں تین  سالوں میں تیرہ لاکھ خواتین بغیر کسی سراغ کے غائب ہیں  تو میرے پاوں  تلے زمین کھسک گئی ۔کیوں صنفِ نازک اتنی غیر محفوظ ہے جس مرد کو اس کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا گیا تھا وہی مرد آج اس کے لئےخطرہ بنا بیٹھا ہے ۔بھارتی وزارتِ داخلہ کی طرف سے جب اس تشویش ناک صورت حال کا انکشاف ہوا تو ملک کا حساس طبقہ یہ سوال پوچھنے لگا کہ یہ خواتیں کہاں گئیں کیا انہیں زمین کھا گئی یا آسمان اچک گیا !
آخر کیا وجہ ہے کیوں ہمارے معاشرے کی نگاہ شرانگیز اور حوس کی پیاسی بن چکی ہے ؟کیوں عورت کو صرف فیشن میں اپنی کامیابی نظر آتی ہے؟کیوں عورت کو عریاں ہونے میں اور مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں لذت محسوس ہوتی ہے ؟ان سوالات کے جواب میں صرف ایک جملہ کافی ہے وہ یہ ہے کہ یہ مرد کی بے حسی اور اس کی شہوانی غلامی ہے جس کی وجہ سے عورت اس قدر اآزاد ہوتی چلی جارہی ہے کہ اب مرد کی نگاہ میں ماں ،بہن اور بیٹی کےتقدس  کااحساس مردہ ہوچکا ہے اور عورت کی نگاہ میں باپ ،بھائی اور بیٹے کا احترام بے راہ روی کی نذر ہوچکا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے یعنی مشرق نے مغرب سے ہر چیز لینے میں احتیاط کا پہلو مدنظر نہیں رکھا کہ جس کی وجہ سے ہمارا معاشرتی و سماجی نظام بالکل تباہی کا شکارہے ۔ہماری سیاست کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو انگریز ہمیں سکھا کے چلا گیا اور ہماری معاشرت تو انگریز کی نجی معاشرت سے میل کھانے کی دوڑ میں مسابقت اختیار کر چکی ہے ۔قرآن نے عورت کو جو مقام دیا ہے اس مقام کو ہم بحال کرنے میں بری طرح سے ناکام ہے ہے ۔نام نہاد مسلم ممالک میں فلم انڈسٹری یعنی بدکاری کی انڈسٹری اس قدر معروف ہے کہ اس میں کام کرنے والے  لوگ معاشرے کے ہیرو بن چکے ہیں ۔ان کی گفتگو کو اس طرح سے نشر کیا جاتا ہے جیسے کوئی مسیحا ہیں  جو معاشرے سے برائیوں کو ختم کرنے والے نمودار ہوا ہیں ۔یہ کیا آفت ہے آخروہی لوگ جو بےحیائی کی تعلیم دے کر نوجوان نسل کی حیا کو پامال کر رہے ہیں  وہی اس بے راہ روی کو روکنے کے مشورے پیش کر رہے ہیں ۔کائنات میں اس زمین کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں ہے لیکن اس میں بسنے والا انسان کائنات کے خالق کی نافرمانی میں جس قدر آگے بڑھ رہا ہے عنقریب ایک واقعہ ہوگا  :اذا وقعت الواقعۃ،لیس لوقعتھا کاذبۃ ،خافظۃ رافعۃۃ ،اذا رجت الارض رجا ،وبست الجبال بسا جو اس کےغرور و گھمنڈ کو ریت کے ذروں کی طرح ہوا میں تحویل کرے گا اور پھر اس واحدالقہار کی عدالت میں بول پڑے گا  :کاش میں مٹی ہوتا !کاش میں نے اپنی آخرت کے لئے کچھ کیا ہوتا !اے کاش مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا!اے کاش  میں نے رسول ؐ کا راستہ اپنایا ہوتا !اے کاش کوئی ایسی صورت ہوتی کہ ہم دوبارہ دنیا میں واپس جاتے !لیکن یہ تمام آرزوئیں موت کے بعدحاصل ہونا ناممکن  ہیں ۔اس لئے جوبھی اچھا کام کرنا وہ اسی دنیا میں کر لینا چاہئے ۔