پرویز مانوس کا شعری مجموعہ ’’فصیل شہر سے‘‘

صارم اقبال
’’فصیل شہر سے’‘‘پرویز مانوس کا تازہ شعری مجموعہ نظر سے گزرا۔ شعری مجموعہ کل 114 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس شعری مجموعہ پر جن مشاہیر شعرا اور ناقدین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے ان میں محمد یوسف ٹینگ صاحب،فاروق نازکی صاحب،ڈاکٹر شبیب رضوی صاحب شامل ہیں۔ فصیل شہر پرویز مانوس کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔اس مجموعہ میں پرویز مانوس نے خالص غزلیات شامل کی ہیں۔ حسب روایت شعری مجموعہ میں مانوس نے پہلے خالق کائنات سے دعا کی ہے ۔
شب ظلمات کو اک نور سحر دے مولا
پھر اسیروں کو رہائی کی خبر دے مولا
پرویزمانوس جہان ظلمات سے باہر نکلنے کی دعا کرتا ہے جس سے مراد ہر قسم کی تاریکیاں ہیں۔عقائد و تصورات کی تاریکیاں، رسوم و مناسک کی تاریکیاں، تمدن و معاشرت کی تاریکیاں، سیاست و معیشت کی تاریکیاں۔ ایک طرح سے وہ زندگی کے ہر گوشے کی تاریکی سے نجات مانگتا ہے۔ دنیا کی تاریکی کی قید سے رہا ہونے کی دعا کرتا ہے اور اپنے خالق و مالک سے اس روشنی کا منتظر ہے جو روشنی حق و باطل میں فرق کر سکے،وہ روشنی جو خضر کے ہمراہ آب حیات کو پا کر بحر ظلمات سے نکل کر حاصل ہوتی ہے۔
پرویز مانوس کو غزل گوئی میں کافی مہارت حاصل ہے ۔ آپ کے ہر اشعار میں کمال کی فصاحت و بلاغت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ مانوس کے اس پورے مجموعے میں کہیںزندگی خوشحال نظر آتی ہیں تو کہیں شادمانی کی ذکر بھی،تو کہیں بنی نوع انسان کے معصومیت بھرے بچپن کی یادیں،تو کہیں انسانی زندگیوں میں غموںا ور ہماری روزمرہ غلطیوں کی عکاسی نظر آتی ہیں۔مانوس نے معاشرے اور سیاسی دنیا میں اقتدار طبقے سے اظہار برات کیا ہے ۔۔آپ نے اپنے اشعار میں بے تکلف لہجہ اختیار کیا ہے جو اسے منفرد انداز کے صفوں میں جگہ دلاتا ہے۔مانوس کے شعروں میں گفتگو کے آہنگ کو شعر کا لباس پہنایا گیا ہے۔
پھر سے وارد ہو چکا ہے شہر میں ابن زیاد
لگ رہا ہے خون سے تر ہر گلی ہو جائیگی
موضوعات کی اس رنگا رنگی اور طرز ادا کے اس نشیب و فراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پر عشق و محبت ہی رہا مگر مانوس کی غزلوں میں ہمیں تمام رنگ کہیں گہرے اور کہیں مدھم نظر آتے ہیں۔
مانوس اگرچہ شاعر کے ساتھ ہی ساتھ ایک کامیاب افسانہ نگار بھی ہے لیکن غز ل گوئی میں بھی آپ منفرد مقام رکھتے ہیںجس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی عظمت کا اعتراف ہماری وادی سے تعلق رکھنے والے کئی بڑے شاعروں نے کیا ہے۔مانوس کا ایک شعر جب نظروں سے گزرا تو اندازہ ہوتا ہے کہ مانوس عکس بندی کر کے لفظوں میں بیان کرنے کے فن میں ،کمال مہارت رکھتے ہیں۔
کھڑے ہوہو کے پنجوں پر تمنا چاند چھونے کی
بنا دے گی تجھے اک روز پاگل’ دیکھتے رہنا
پرویز مانوس کے کلام میں بلا کی رنگینی اور دل کشی پائی جاتی ہے اس کی وجہ غالب یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی بیان کر تے ہیں اس کا سیدھا تعلق ان کے احساس و تجربات سے ہوتا ہے۔ ان کے زیادہ تر اشعار ان کے دل پر بیتے ہوئے واقعات کا اظہار کرتے ہیں۔
آشنائے درد ہو جاؤ گے خود مانوس تم
جب گرو گے بن کے کنکر’جھیل کی آغوش میں
مانوس نے ’’فصیل شہر ‘‘کے مجموعے میں حکمت و دانائی کو بڑے احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔سماج میں ایسے لوگوں سے مخاطب ہو کر مانوس لکھتے ہیں جو لوگ دوسروں کے بل بوتے پر کام انجام دیتے ہیں جو احساس کمتری کے شکار لوگ ہیں۔
اس پہ تکیہ کر کے تو بے خوف ہے سویا ہوا
ہے مگر گونگا وہ پہرے دار تیرے شہر کا
مانوس خیالات کو صبرو تحمل کے ساتھ الفاظ کا لباس پہنے میں ماہر دیکھا جا سکتا ہے۔مانوس کی تخلیقات سادہ سلیس اور روانی کا عالم یہ ہے کہ قاری معنی کی تہہ تک بہت جلد پہنچتا ہے۔ مانوس کی ایک اور بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے بہت کم شعر کو بنانے میں کانٹ چھانٹ کی ہے جو کہ شعر کے وزن کے لئے ایک شاعر کو کرنی پڑتی ہیں بلکہ مانوس نے آسان لفظوں میں واقعی  اپنے فن کا کمال مظاہرہ کیا ہے جو ایک شاعر کا خاصا ہوتا ہے۔مانوس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ مجموعہ نہ صرف محدود خیالات تک مبنی ہے بلکہ مانوس کو جب آنے والی نسلیں پڑھیں گے تو ہمارے اس وقت کے حالات و واقعات کو گویا وہ اپنے آنکھوں سے مشاہدہ کریں گے۔اس ضمن میں شمس الرحمن فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ امیر خسرو لکھتے ہیں کہ فن شعر میں استاد بننے یا استاد کہلانے کے لئے کئی شرطوں کا پورا ہونا ضروری ہے ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ شاعر کا ادبی معاشرہ اس کو استاد مانے۔بظاہر یہ بات معمولی سی ہے ۔دیکھا جائے توبات میں گہرائی نظر آتی ہے۔ادبی معاشرہ اس شاعر کو استاد قرار دیتے ہیں جو زمانے کے مزاج،تہذیب کی آواز،طرز شعر گوئی،غرض ہر چیز کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی ایسی کمی پورا کرتا ہو جس سے اس کے معاصرین پوری نہ کر سکے ہو۔مانوس صاحب کے فصیل شہر سے مانوس واقعی اپنے ارد گرد حالات و اقعات کا جائزہ لیتا ہوا نظر آتا ہے اور اسی کی تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے۔
درندے جھانکتے ہیں جب کبھی غربت کی وادی میں
وہ چھپر میں جواں بیٹی چھپانا بھول جاتا ہے
چونکہ مانوس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ قاری کے مزاج تک رسائی حاصل کر چکا ہے اور اسے اپنی حفاظت کے لئے منادی کر رہا ہے۔
بلکتے دیکھ کر بچی کو اپنے بھوک سے اکثر
بھکاری چند سکوں میں دعائیں بیچ دیتا ہے
مانوس کا ایک شعر نظروں سے گزرا ایسا لگا کہ جہاں آپ آج قیام کر رہیے ہیں وہ اس بستی میں یہاں کامستقل باشندہ نہیں ہے۔۔مانوس کے اس شعر میں محسوس ہوا کہ کسی دور دراز علاقے سے آنے والا شاعر بڑے کسی شہر میں آیا اور مشقتوں اور صعوبتوں کے بعد محسوس کرتا ہے کہ میری جڑیں،زندگی کے سر چشمے مجھ سے دور ہو گئے جہاں میں کچھ دوسرا ہی شخص بن گیا ہوں ۔
جو اپنے گائوں کا منظر سہانا بھول جاتا ہے
نئی بستی میں آکر وہ ٹھکانہ بھول جاتا ہے
اگرچہ غز ل کا ہر شعر معنی مقاصد تک قاری کہو پہنچا دیتا ہے لیکن مانوس کی فنکارا نہ ذہنیت کا عالم یہ ہے کہ کبھی کبھار وہ ایک مصرع میں ہی ایک بڑی بات بیان کر دیتے ہیں۔چونکہ غزل میں کلام مربوط کی شرط بہت بڑی شرط ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بات ایک ہی مصرعے میں مکمل ہو جاتی ہے جو کہ دوسرا مصرع اس سے مربوط ہو کر نہیں دیتا ہے یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خیال وسیع ہو مگر مصرعوں کا دامن تنگ پڑ جاتا ہے لہٰذا بات پوری نہیں ہو جاتی یا ایک ہی مصرع میں مکمل ہو جاتی ہیں لیکن مانوس کی یہ بھی خوبی ہے کہ ہر ایک مصرع اپنی جگہ مکمل بات کہتا ہوا نظر آتا ہے اور دوسرے مصرع میں اگر تنگ دامنی ہو تو مانوس منفرد فن کا مظاہرہ کر کے نیا مضمون یا الگ سے کوئی بات ڈال کر مصرع کو مکمل کرتا ہے، گویا ایک لکیر سے کوئی اور لکیر پھوٹ کر ایک نئی شکل بنائی گئی ہو۔مانوس نے امیر شہر کے بچے اور مفلس کی بے بسی کو احسن طریقے سے سانچے میں ڈال کر دونوں کی عکاسی کی ہیں،لکھتے ہیں۔
امیر شہر کے بچے کھلونے توڑ دیتے ہیں
اگر مفلس کی قسمت میں زر ہوتاتوکیا ہوتا 
پرویزمانوس کو پڑھ کر لگتا ہے کہ آپ نے اکثر بیشتر جگہوں پر شکستگی،گزرے ہوئے وقت اور دور تر ہوتے ہوئے فاصلوں کے غموں سے عبارت ہے۔کبھی کبھی ایسا نظر آتا ہے کہ مانوس اپنے معاشرے میں انسان ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے جوہمدردی،انسان دوستی کے جذبے سے سرشار ہو۔
کیسے میں کروں پار یہ حالات کا صحرا
بکھرا ہے بہت میرے خیالات کا صحرا
9797114595