قوس قزح

وحشی سعید
اب بھی رنگوں میں قوس قزح کی لکیر اپنی تمام رعنائیوں سے اُبھرتی ہے۔ وہ ، وہ قوس قزح ہے جو اُبھر جاتی ہے، کھوجاتی ہے اور میں چپکے سے اس کے کان میں کہہ دیتا ہوں ۔ ۔ ۔
’’تم قوس قزح ہو! ‘‘
وہ اپنی بڑی بڑی ، موٹی موٹی آنکھوں سے خاموش رہنے کا حکم دیتی، وہی آنکھیں جن میں درد اور کرب کی پرچھائیاں نظر آتی تھیں۔ لیکن ان آنکھوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ۔ ۔ اب ۔ ۔ اب میں اپنے آپ کو اضطراب، بے چینی، بے بسی کے عالم میں تڑپتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔
وہ کتابی چہرہ اب بھی نظر کے سامنے ہے جس پر دو موٹی موٹی آنکھیں سنجیدگی اور خاموشی کی پرچھائیاں معلوم ہوتی تھیں۔ اس کی کمر پر بالوں کی لمبی چوٹی، اس کی صحت مند پیٹھ اور اس کے کانوں میں چمکتی اور جھولتی ہوئی بڑی بڑی بالیاں!
دو سال ہوگئے ۔ ۔ دو سال پہلے سبیل کے نام شادی کا لیبل لگا کر پتھروں کی دنیا میں آگئی۔ اس دنیا کا عجیب اور بے ہودہ سا نام بھی تھا۔ پتھروں میں پتھر کی زندگی تھی۔ پتھر کے پھول تھے۔ بے حسن ۔ ۔ ۔ خوشبو سے عاری اور نزاکتوں سے بے بہرہ۔ وہاں زندگی کا پھول بھی سوکھ سوکھ کر کانٹا بن جاتا ہے۔
اور یہی قوس قزح کی دنیا تھی!
وہ اپنی خوشبو کھو رہی تھی ۔ ۔ وہ جانتی تھی اور یہی احساس جان لیوا تھا۔ کاش احساس بھی مردہ ہوجاتا۔
ترتیب رکھنے والا سبیل ترتیب کو زندگی کے لئے ضروری سمجھتا تھا۔ کالج کی جوان فضا نے ہماری دوستی پر مضبوط مہر لگائی۔ مگر سبیل میری بے ترتیب زندگی سے ہم آہنگی پیدا نہ کرسکا۔ وہ مکانوں میں رہتا تھا۔ انجینئر بن گیا۔ وہ میری فاقہ مست زندگی کو کوستا تھا، اور میں اپنی قسمت پر ناز کرتا تھا۔ وہ بلوپرنٹ کی لکیروں میں کھوگیا۔ لکیروں کی دنیا لکیروں تک ہی محدود ہوجاتی ہے۔ سبیل کو ان لکیروں کی نوک پلک درست کرنے سے غرض تھی۔ مکان گرجاتے تھے ، بن جاتے تھے۔ یہ تو زندگی کا کاروبار تھا۔ وہ مکانوں کو کھڑا کرنے والا انجینئر تھا۔ اُن کی اونچائی اور لمبائی سے واسطہ رکھتا تھا۔
قوس قزح لکیر نہیں تھی ۔ ۔ مکان نہیں تھی ۔ ۔ ! وہ کھوگئی ۔ ۔ اُلجھ گئی !!
انسان انسان ہوتے ہیں۔ وہ مکان نہیں ہوتے۔ ان میں حرارت اور جذبات ہوتے ہیں۔ دل اور خواہشیں ہوتی ہیں۔ ان کے مزاج اینٹ اور پتھر نہیں ہوتے۔ سبیل کی دنیا میں پتھر توڑے جاتے۔ گارے سے سجائے جاتے۔ اپنی دنیا میں اکیلی اکیلی قوس قزح ۔ ۔ اکیلی تھی، سبیل کی زندگی منتشرتھی۔
اپنی فاقہ مست زندگی نے مجھے خیالوں میں لے لیا۔ میں ادیب بن گیا، جو رنگوں کی دنیا میں رہتا۔ رنگوں سے پیار کرتا، رنگوں سے لفظوں کے پیکر تراشتا، اور وقت ۔ ۔ وقت انوکھا ہوتا ہے ۔ ۔ وقت نے مجھے کیا سے کیا بنادیا۔ سونا بنادیا ۔ ۔ سونے سے تولا۔ ادب سے اچھے پیسے وصول ہوئے۔ مگر اپنی الجھی دنیا میں پیچ وخم رہے۔
سلجھانے والا جو نہ ملا۔ مگر میں کب اس الجھی ہوئی دنیا سے خوف زدہ ہوا ۔ ۔ گھبرایا ، یا ڈر گیا ۔ ۔ مجھے اپنی وحشت سے پیار تھا، لگائو تھا۔
پھر ایک دن اچانک میرے ہاتھ ایک خط لگ گیا۔یہ اینٹوں اور پتھروں کی دنیا سے آیا تھا۔ سبیل نے مجھے اُس دنیا میں چند دنوں کے لئے آنے کی دعوت دی۔ میں جانتا تھا وہاں رنگ تھے ۔ ۔ اچھے بھی، بُرے بھی! خوبصورت اور ۔ ۔ بھدے ! ۔ ۔ ۔ رنگو ں کی اس ترتیب میں نیلوفر، زاہدہ اور فریدہ تھیں۔ اور سبیل کو ان رنگوں کو بکھیرنے کے لئے برش چاہیے۔ میں رنگو ں سے تصویروں کو ترتیب دیتا۔ پھر ایسے رنگ جو چھوئے نہیں گئے، پرکھے نہیں گئے۔ جن کی نزاکتوں اور دلفریبیوں میں کوئی اُلجھ نہیں گیا تھا۔ سبیل کی ان تین بہنوں میں مجھے کسی ایک کا دامن تھام لینا تھا ۔ ۔ مگر قوس قزح ۔ ۔ وہ قوس تھی ۔ ۔ قزح تھی۔ اس تک پہنچنے کے لئے لاکھوں میل کا سفر طے کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ قوس قزح کے سامنے ان کی نزاکتیں اور ادائیں ماند پڑ جاتیں۔ اس لئے قوس قزح دل وجگر میں اُتر گئی۔ میں نے چپکے سے اس کے کان میں کہا ۔ ۔ ۔
’’تم قو س قزح ہو ۔ ۔ !‘‘
وہ خاموش رہی۔ خاموشی اس کا ہتھیار تھا۔ خاموشی ہی اس کا حربہ تھی۔ مگر زندگی خاموش نہیں تھی ۔ ۔ ہلچل تھی ۔ ۔ بھاگ دوڑ تھی، جدوجہد تھی، مگر وہ کورا کاغذ تھی ۔ ۔ میں نے چاہا ۔ ۔ بہت چاہا ۔ ۔ وہاں لکیریں کھینچ دوں ۔ ۔ اتنی ساری لکیریں کہ وہ گنتے گنتے تھک جائے اور میںلکھتے لکھتے رُک جائوں۔
مگر اس کا کورا جواب سرحد کی یاد دہانی کرتا تھا ۔ ۔ ’’تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ۔ !‘‘
وہ پتھروں کی دنیا میں رہتی، جہاں سمجھ بھی مردہ ہوجاتی ہے۔ اس دنیا میں پتھر لڑتے ہیں، پتھر توڑے جاتے ہیں ۔ ۔ مگر دل ۔ ۔ دل ، گوشت کا لوتھڑا ہے ۔ ۔ کوئی پتھر کا ٹکڑا نہیں۔
میں اس سے کہتا رہا اور سمجھاتا رہا کہ ماضی کی یاد میں یا مستقبل کے خوابوں میں کھوئے رہنے سے کہیں اچھا ہے اپنے حال کو تعمیر کرو ۔ ۔ مگر پتھروں سے سرتوڑے جاتے ہیں۔ جنون نے کب سنگ دیکھا۔
فرصت کی بات تھی۔ ورنہ فرصت کہاں ۔ ۔ پتھروں کو ترتیب دیتے ہوئے خود بھی سبیل پتھر بن گیا تھا۔ اور جب بھی فرصت پاتا ، تو اپنی باتوں کا آغاز اس جملے سے ضرور کردیتا ۔ ۔ ۔
’’تمہاری بھابی تمہاری بہت تعریف کرتی ہے ۔ ۔ !‘‘
میں صرف ایک رسمی جواب دیتا ، الفاظ کی ترتیب نہ بدلتی ۔
’’میری خوش قسمتی ہے ۔ ۔ !‘‘
وہ مسکراکے کہہ دیتا ۔ ۔
’’پتھروں کی دنیا پسند آئی ۔ ۔ ؟‘‘
میں کھوجاتا تھا، اُلجھ جاتا تھا۔ زندگی کی رفتار بھول جاتا تھا۔ میں کہہ جاتا ۔ ۔ ۔
’’یہاں سب پتھر ہیں !‘‘
وہ زور کا قہقہہ لگاتا ۔ ۔ قوس قزح ان قہقہوں کے بادلوں میں چھپ جایا کرتی ۔ ۔ ۔ قوس قزح پتھر کا مجسمہ تھی۔ اس کی روح کو آزاد کرنا ، اس میں حرارت بھرنا، جوانی کا احساس دلانا، وہاں روح میںجسم کی تپش کی ضرورت تھی ۔ ۔
ان کے ڈرائنگ روم میں کس پیر منش کے یہ جملے باربار میری نظروں کے سامنے آتے تھے۔
’’اُن لوگوں کو پاکیزہ نہیں کہا جاسکتا جو اپنے جسم کو دھوکر پاک وصاف کرلیتے ہیں ۔ ۔ حقیقت میں پاک وہ ہیں جن کے دل میں خدا کا خوف ہے‘‘
زاہدہ، نیلوفر اور فریدہ کے رنگ پھیکے پڑتے رہے۔ زاہدہ شاعرہ تھی۔ اس لحاظ سے اس کے اور میرے درمیان تعلق قائم ہوا۔ وہ مجھ سے اپنے اشعار کی اصلاح کراتی ۔ ۔ ۔ مگر میں اصلاح کی سرحد کو عبور کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، حالانکہ قوس قزح اکثر کہتی ۔ ۔ ۔
’’ایک ادیب کی بیوی کو شاعرہ ہی ہونا چاہیے ۔ ۔ !‘‘
اس کو کچھ دیرخاموش خاموش نگاہوں سے تکنے کے بعد میں اپنے رد عمل پر قابو پاتا جیسے کوئی بہت دور کا سفر طے کرکے دم لیتا ہے۔ میں صاف اور واضح الفاظ میں اپنا مقصد بیان کر دیتا ۔ ۔
’’یہ قول مجھے پسند نہیں ہے ۔ ۔ !‘‘
وہ بھولے پن کو اپنالیتی ، انجان بن جاتی اور کہہ دیتی ۔ ۔
’’تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں ۔ ۔ !‘‘
میں اس کو اپنا احساس دلانا چاہتا تھا، اپنی راہ بتانا چاہتا تھا۔
’’کبھی کبھی میں بھاگ جانا چاہتی ہوں مگر کھلے ہاتھ یاد آجاتے ہیں ۔ ۔ دامن چھڑانے کی کوشش میں اس کی زبان پر سچائی آجاتی ۔ ۔ ۔
’’ان پتھروں میں تمہارا کوئی کام نہیں‘‘
کورے کاغذ پر شکن پڑجاتی۔
پھر ایک ایسی شام بھی آئی، جو سنسان تھی۔ اس شام میں تاروں سے بھرے ہوئے آسمان کی درخشندہ فضا اور سیاروں کی مسلسل گردش میں فطرت سے دور اپنی نئی کہانی میں کھوگیا۔ اس کہانی نے مجھے اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنادیا۔ مگر اس تصور کی دنیا میں زیادہ دیر نہیں بھٹک سکا۔
کسی نے دستک دی ۔ ۔ وہ قوس قزح تھی!
میں نے دبی دبی آواز میں کہا ۔ ۔ ۔
’’تم ہو قوس !‘‘
’’ہاں میں ہوں ۔ ۔ !‘‘ اُس نے کہا۔
وہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھی۔ اس کے آنے سے میرے ذہن میں تاریکی بڑھ گئی۔ جب تک وہ پردہ نہ اُٹھاتی ، روشنی نہیں ہوتی تھی ۔ ۔ میں نے مجبوراً کہا ۔ ۔
’’کیا بات ہے؟‘‘
اس کے چہرے پر تھکن تھی جیسے وہ لاکھوں میل طے کرکے آئی ہو۔ مگر اس کے چہرے پر اضطراب کی کوئی جھلک نہ تھی۔ اس نے پُر درد آواز میں کہا ۔ ۔
’’پتھروں کی دنیا نے مجھے پتھر بنادیا ہے‘‘
میں تھوڑی دیر کے لئے اپنی حیرت پر قابو نہ پاسکا۔ اک جنون کی آگ میرے رگ وپے میں لہراتے ہوئے ذہن پر اثر کرگئی۔ میں نے کہا ۔ ۔ ۔
’’تمہیں احساس ہوا ؟‘‘
وہ خاموش رہی۔ خاموشی بڑی کربناک تھی۔ وہ کھڑی ہوئی ۔ ۔ کمرے میں ٹہلتی رہی ۔ ۔ دائیں ہاتھ سے وہ اپنی زلفوں کو سنوارتی ۔ ۔ کبھی وہ اپنے ماتھے کے پسینے کے قطرے رومال سے خشک کرتی ۔ ۔ اچانک وہ وحشت زدہ آواز میں بول اُٹھی ۔ ۔ ۔
’’چلے جائو ۔ ۔ پتھروں کی اس دنیا سے چلے جائو ۔ ۔ میں پتھر رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ صرف پتھر رہنا چاہتی ہوں ۔ ۔ ‘‘
کتنے ہی بت ٹوٹے۔ کتنے تصورات پاش پاش ہوئے ۔ ۔ میں دوڑا ۔ ۔ میں بھاگا ۔ ۔ پتھروں کی دنیا سے واپس ضرور آیا ، لیکن پتھر نہ بن سکا ۔ ۔
دل کا درد روگ بن گیا ۔ ۔ !!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔