شائید ہم کسی بڑے عذاب کے منتظر!

Altaf Hussain Janjua
Altaf Hussain Janjua Advocate

مادیت پسندی نے ہمیں اندھا کر دیا
الطاف حسین جنجوعہ
”کورونا وبائی قہر نے شہرو¿ں وقصبہ جات میں رہنے والے لوگوں کے لئے زندگی کو جیل خانہ سا بنا دیا ، اِس صورتحال میں بہت سے لوگوں نے شہروں سے دیہات کی طرف رُخ کیاتھاکہ وہاں وہ پرسکون صاف وشفاف میں زندگی کے چند لمحات سکون سے گذار سکیں، ہم بھی تلاش ِ معاش کے سلسلہ میں اہل خانہ کے ساتھ عرصہ دراز سے شہر میں رہائش پذیر ہیں، یہاں چونکہ کاروبار متاثر ہے، ہم نے بھی آبائی گاو¿ں جانا مناسب سمجھا تاکہ ذہنی تناو¿ کو کم کیاجاسکے، کچھ سکون کے پل گذاریں،لیکن گاو¿ں میں پہنچ کر احساس ہوا کہ یہاں توصورتحال ہی یکسر مختلف ہے۔حسد، تعصب، بغض ، کینہ، رسہ کشی، ایکدوسرے کی بُرائی، چھوٹے چھوٹے معاملات پر لڑائی جھگڑے، کورٹ کچریاں تو عام سی بات ہے۔پھر تو لگاکہ اِس سے تو بہتر شہر میں ہی واپس جاکر رہاجائے “۔ یہ باتیں میرے ایک دوست نے قریب دو ماہ گاو¿ں میں گذارنے کے بعد واپسی پر ایک ملاقات کے دوران کیں، جب اُن سے گاو¿ں کی زندگی کے بارے میں استفسار کیاگیا۔دوست موصوف اِن باتوں میں مجھے اتنا وزن محسوس نہ ہوا اور اِس پر کوئی سنجیدہ ردعمل ظاہر نہ کیا، البتہ جب راقم نے دو ہفتوں کے دوران از خود مشاہدہ کیاتو صدفیصد دوست کی باتوں کی تصدیق ہوئی ۔
عالمگیر کورونا وباءجس نے دو برس سے پوری عالم ِ انسانیت کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، کی رواںدوسری لہر جوکہ انتہائی مہلک ثابت ہوئی ۔کوئی شہر، قصبہ، گاو¿ں نہیں بچا جہاں اِس کے سبب اموات نہ ہوئی ہوں۔کئی اہم سیاسی، سماجی، ادبی، دینی شخصیات کو یہ وباءنگل گئی۔ایسی ایسی شخصیات جوہمارے لئے عظیم سرمایہ تھیں اور جن کی خدمات سے انسانیت کو بہت فائیدہ پہنچ رہا تھا، ہمارے بیچ نہ رہیں اور یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ ایسی وباءجس نے امیر وغریب ، ذات، علاقہ، مذہب کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا ہے اور یہ موت کی طرح ہر ایک پر غالب ہے۔ یہ ایک عذاب الہیٰ ہے ، جس سے نجات کے لئے ہمیں بارگاہ ِرب العزت میں بدست بدعا ہونے کی ضرورت ہے لیکن ابھی بھی ہم شائید کسی بڑے عذاب کے منتظر ہیں، خوف، ترس، ہمدردی، انصاف پسندی، حق گوئی سے ہم آج بھی دور ہیں۔ گاو¿ں دیہات میں مادیت پسندی نے لوگوں کو اتنا اندھا کر دیا ہے کہ خوف ِ خدا کا نام تک نہیں۔ معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑا، ایکدوسرے کی ٹانگیں کھینچنا،حسد، بغض، کینہ عام ہے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو آپ کو خوش نظر آئیں گے، ہر ایک کو ایکدوسرے سے شکوئے شکایات ہیں،آپ جس کی بھی سُنیں، آپ کو ایسا لگتا ہے، وہی سچ اور پوری دنیا جھوٹی ہے۔ حقیقت گوئی، حق پرستی، انصاف پسندی سے کام لینا تو جیسے غائب ہی ہوگیا۔ سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ حقیقی رشتہ داروں وپڑوسیوں میں اختلافات، نفرت، کدورت، دوریاں زیادہ ہیں۔خوشی ہویا غمی کا موقع زیادہ تر ایکدوسرے کی بُرائیاں، شکوے شکایت ہی سُننے کو ملتے ہیں۔قانون کی بالادستی اور خوف ِ خُدا نام کی چیز نہیں۔ طاقت اورگالی گلوچ کے بل بوتے پر دوسروں کے حق پر ڈاکہ زنی اور زمین چھیننے کا رواج زیادہ ہے۔شائستہ زبان کا استعمال، نرم لہجہ میں بات کرنے والے کو کمزور تصور کیاجاتاہے۔گاو¿ں میں 95فیصد سے زائد لڑائی جھگڑے، تناو¿، اختلافات کی وجہ صرف زمین وجائیداد ہے اور چھوٹے چھوٹے معاملات ہیں جوکہ تاحیات نفرت، لڑائی کے سبب بنے ہوئے ہیں۔جن کو افہام وتفہیم سے حل کیاجاسکتا ہے مگر اکثر وبیشتر یہ دیکھاگیا ہے بات چیت یا قانون کے مطابق معاملات کو حل کرنے کی بجائے زیادہ تر طاقت کے بل بوتے پر فیصلے اپنے حق میں کرانے کو ترجیحی دی جاتی ہے۔ استغفر اللہ چھوٹے چھوٹے معاملات پر قرآن کریم اُٹھاکر قسم کھانا معمول سا بن گیا ہے۔ وہ عظیم کتاب ِ مقدس جس کی شان کے آگے پوری کائنات کچھ بھی نہیں، وہ قرآن مقدس جو اگر کسی بڑے پہاڑ پر اُترتا تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ وہ عظیم کتاب جو پیغمبر آخر الزماں اور سرور ِ کائنات حضرت محمد ﷺپر وحی کی صورت میں اُتارا گیا، کو پڑھنے، سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی بجائے صرف قسمیں کھانے تک محدود کر دیاگیا۔ اللہ پاک ہمیں ہدایت دے۔
مادیت پسندی اوراِس چند لمحوں کی عارضی دُنیا جس کو ہمیں ہرحال میں دیر سویر چھوڑ کر دار البقاءکی طرف جانا ہے، کو مستقل جگہ سمجھنے کے گمان نے ہماری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ ہم حقیقت کو جان کر بھی جٹلانا چاہتے ہیں۔ گاو¿ں دیہات جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اتنا مہربان ہے کہ پرسکون ماحول، صاف وشفاف فضائ، سرسبز میدان، چشمے، دریا، کوہسار، وادیاں ہیں، جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خدائی کی عظیم جھلک ملتی ہے، کو ہم محسوس کرنے، اُس سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اپنے ذہنوں میں نفرتوں، دشمنی، انا، بغض، کینہ، عداوت کی آلودگی اورامراض کو جنم دیا ہے، ہمیں یہ سب دیکھ بھی سکون وچین حاصل نہیں۔ خوش اخلاقی سے ایکدوسرے سے ملنا، پڑوسیوں کے ہاں آنا جانا، اُن سے بیٹھ کر باتیں کرنا، ہنسی مذاق، ایکدوسرے کے اچھے کام کی ستائش کرنا، اُس کی حوصلہ افزائی کرنا، خندہ پیشانی سے ملنا جلنا اب تو نایاب سی چیزیں ہوکر رہ گئی ہیں، اِن کے لئے دِل ترستا ہے۔ کسی کی ترقی ہمارے لئے کبھی بھی نقصان دہ نہیں ہوسکتی، بلکہ کہیں نہ کہیں ہم اُس سے مستفید ہی ہوسکتے ہیں، کسی کا امیر، شہرت یا عزت یافتہ ہونا ہمارے لئے کسی بھی طور مضر نہیں ہوسکتا۔ ہمیں دوسروں کی خوشیوں میں شامل ہوکر اپنے لئے خوشی کا ساماں پیدا کرنا چاہئے ۔
اِس دنیا پر آج تک نہ جانے کتنی شخصیات، طاقتور، بہادر آئے جنہوں نے عظیم کارنامے انجام دیئے لیکن آج اُن میں سے بیشتر کانام ونشان تک نہیں، قبروں کے نشان تک نہیں، تو پھر ہم کیوں چند ایام کی زندگی کو خود اپنے لئے اتنا مشکل بناتے ہیں، اپنے جسم اور اپنے خیالات کو تکلیف دہ بناتے ہیں۔کسی دوسرے کی بات نہ سُننا اور ہمیشہ خود کو ہی صحیح قرار دینادرست نہیں ہوسکتا۔نرمی، عاجزی ، انکساری، تحمل مزاجی، صبر وشکر، بردداشت جیسی خوبیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے ۔ علماءکرام ، ائمہ مساجد اور مفتیان ِ کرام کا بڑا رول سماج کی اس برائی کو دور کرنے پر ہوسکتا ہے، اُنہیں چاہئے کہ وہ جمعہ کے روز کم سے کم اپنی تقاریر میں موروثی حقوق، وراثتی جائیداد کی تقسیم کے طریقہ کارپرقرآن وحدیث کے حوالے سے روشنی ڈالی اور لوگوں کی صحیح ترجمانی کریں، بار بار اِن سماجی برائیوں کی طرف توجہ دلائیں۔ہم اپنے سے بڑوں، بزرگوں کی بات نہ سُن کر، اُن کی تذلیل کر، اُن کو رسو ا کر یا اُن سے بدتمیزی سے بات کر کے کبھی بھی خود کو عزت دار، بااخلاق، باکردار ثابت نہیں کرسکتے۔ہمیں اپنی اِس سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی، جس کے لئے ذی شعور افراد، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ تسلسل سے اِن حساس سماجی امور کو موضوع ِ بحث بنائیں، اِن کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوششیں کریں اور ضرورت پڑنے پر عملی مظاہرہ بھی کریں۔
٭٭٭٭٭
ای میل:[email protected]
نوٹ:راقم پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں