سر سید اور ان کے مشن سے دوری لمحہ فکریہ سرسید کو جائز مقام نہ دیاجانا بڑی احسان فراموشی

ڈاکٹر جسیم محمد
سر سید ایک ایسے مصلح قوم تھے جنہوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں نہ صرف ہمیں روشنی دکھائی بلکہ اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں،ایمانیات سے لے کر عملی اقدام تک کہیں بھی وہ پیچھے نہیں دکھائی دیئے ہر جگہ صف اول میں نظر آئے،،سر سید نے جب مدرسۃالعلوم قائم کیا تو انہوں نے ہر سطح پر قوم کی کامیابی کے لیے کوششیں کیں۔ایک طرف جہاں وہ ملک کے سر بر آوردہ لوگوں سے مل کر دست تعاون دراز کر نے کے لئے اپیل کر رہے تھے وہیں دوسری جانب گلیوں گلیوں گھوم کر چندہ جمع کر رہے تھے۔اس عوامی چندے کا ایک مقصد رقم کا حصول تھا تو دوسرامقصد امیر و غریب سب کو تعلیم کی اہمیت کو سمجھانا بھی تھا تاکہ وہ اس ادارے سے اپنا جڑاؤبھی محسوس کریں۔سر سید احمد خاں کی راہ آسان نہیں تھی مگر وہ دھن کے پکے شخص تھے ،ان میں جذبہ قومی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اس لئے انہوں نے کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہ کی بلکہ وہ ایک ایک قدم آگے بڑھتے گئے اور آج ان کا لگایا ہوا پودا چھتنار درخت کی شکل میں قوم کو سایہ دے رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس کے بدلے میں ہم نے ان کو کیا دیاتھا ،جس قوم و ملت اور ملک کے لئے انہوںنے اپنا آرام تج دیا ،جس کے لئے انہوں نے اپنی سا ری آسائشیں چھوڑ دیں اس نے ان کو کیا دیا ،کبھی ٹھنڈے دماغ سے ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر غور کریں گے اور اپنا احتساب کریں گے تو ہمارے حصہ میں صفر کے سوا کچھ نہیں آئے گا،اس کے اسباب و عوام پر اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں صرف ایک ہی بات نظر آئیگی کہ ہم احسان فراموش ہیں،ذاتی منفعت کیلئے ان کے نام کا استعمال تو ضرور کیا مگر کچھ ایسا نہیں کیا جس سے ان کوسچا خراج عقیدت پیش کیا جا سکے۔
طویل عرصے سے ہم اہم مواقع پر مثلاً یوم پیدائش اور یوم انتقال پرسرسید کا ذکر کرکے ان کے نام کا خطبہ پڑ ھ کر ، ان کی یاد میں عشائیہ کھا کر اور دو ایک چھوٹے بڑے مباحثے یا مجالس کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے سرسید کے تئیں اپنے فرض کو پوراکردیا۔مگر کیا سرسید کی ذات صرف اسی کی مستحق ہے؟ کیا سرسید کی قومی خدمات اور قربانیوں کا بدل صرف اتناہی ہے ؟ کیا سرسید کی قومی خدمات اور شخصیت سے نئی نسل خصوصاً نوجوانوں کو واقف نہیں ہونا چاہئے؟ جن لوگوں نے ہمارے ملک کے لئے چھوٹی چھوٹی خدمات انجام دیں انہیں عوام نے سر آنکھوں پر بٹھا کر تاریخ میں زندہ جاوید کردیا مگر یہ ہماری قوم اور ملک کی بدنصیبی ہے کہ سرسید جیسی عظیم ہستی کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سرسید یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتازمورخ ڈاکٹر رام چند رگوہا نے کہاتھا کہ ہندوستان میں سرسید اپنے دور کے سب سے بڑے جدیدیت کے حامی تھے اور جدید تعلیم و ترویج و اشاعت اور سماجی اصلاح کے لئے انہیں سخت محنت کرنی پڑی۔ صاحبِ علم و فن ڈاکٹر گوہا سے متفق ہوں گے کیونکہ انہوں نے اس ایک جملے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سرسید کی دشواریوں اور قربانیوں پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔
ایسا نہیں ہے کہ سرسید کی خدمات سے متاثر ہوکر ان کے لئے کوئی بڑا کام کرنے کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ماضی میں سرسید کے لئے کئی بڑے پروگرام وضع کئے گئے، ان پر عمل کا سلسلہ بھی شروع ہوا مگر نتیجہ صفر ہی نکلا۔ وجہ نہ کسی نے دریافت کرنے کی کوشش کی ا ور نہ کسی نے اس کی ضرورت ہی سمجھی۔ علی گڑھ کے عوام شاہد ہیں کہ سابق وائس چانسلر نسیم احمد صاحب کے دور میں سرسید اسٹڈیز سینٹر کے قیام کا کام شروع ہواجس کے لئے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔ سرسید سے عقیدت رکھنے والوں کو سکون کا احساس ہوا کہ اب کوئی و قت جاتا ہے کہ اے ایم یو میں سرسید اسڈیز سینٹر قائم ہوجائے گا جو سرسید شناسی کی سمت میں ایک بڑا قدم ہوگا۔ اس تعلق سے کئی میٹنگیں منعقد ہوئیں۔ مختلف قسم کی تجاویز سرسید شناسی کے تعلق سے پیش کی گئیں کہ سرسید چیئر کا بھی قیام عمل میں لایا جائے، سرسید کے تعلق سے بڑی سطح پر مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد کیا جائے، یونیورسٹی سے ملحق اسکولوں میں سرسید کے تعلق سے ایک مضمون کو لازمی طور پر رکھا جائے، یونیورسٹی سطح پر بھی سرسیداور سرسید کی علی گڑھ تحریک کو نصاب کا حصہ بنایا جائے وغیرہ۔ مگر پھر نہ جانے کیا ہوا کہ سارے کے سارے پروگرام فائلوں میں بند ہوکر الماریوں کی زینت بن گئے اور کسی نے یہ یاد رکھنے کی بھی زحمت نہیں کی سرسید کے تعلق سے کیا کیا سوچا گیا تھا۔
یہ طرفہ تماشا نہیں تو اور کیا ہے سر سید احمد خاں کی دوسوسالہ یوم پیدائش پر ہونے والی شاندار تقریب کو ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کی اہمیت ختم کردی گئی تھی،یونیورسٹی میں تو ہمیشہ سے پروگرام،مباحثے مذاکرے اور سیمنار ہوتے رہے ہیں ،یونیورسٹی انتظامیہ نے بس کیا اتنا کہ ان پروگراموں کو دو صد سالہ تقریب سے جوڑ دیا الگ سے کوئی پروگرام ترتیب نہیں دیا،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے بڑے بڑے اور قدیم قدیم شعبے جو پروگرام کرتے ہیں ان کی تشہیر اور انتظام و انصرام کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اسٹیج پر بیٹھنے والوں سے کم تعداد سامعین کی ہوتی ہے،یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سر سید احمد خاں کی دو صد سالہ یوم پیدائش سے وابستہ پروگرام ہو اور اس میں شرکت کرنے والوں کی تعداد کو انگلیوں پر شمار کیا جا سکے یا پھر انگلیاں بچ جائیں اور شرکاء کی تعداد ختم ہو جائے،یہ میں کوئی سنی سنائی یا ہوا ہوائی بات نہیں کر رہاہوں بلکہ ایسے پروگراموں میں خود میں نے شرکت کی ہے اور جو ان آنکھوں سے دیکھا ہے اس کو بیان کر دیا ہے۔ایک بات اور سر سید کی یوم پید ائش اور برسی پر اگر سر کولر جاری ہو کر لوگوں تک نہ پہنچے تو قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی بھی مشکل ہوجائے کیونکہ اس دن جتنے لوگ وہاں موجود ہوتے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے ،اب اگرکسی ادارے کے بانی کے ساتھ اس ادارے کے اندر اس طرح کا برتاؤ کیا جائے تو یقینا وہاں کے پڑھنے اور پڑھانے والے،اور منتظمین سب کے سب احسان فراموش قرار پائیں گے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یونیورسٹی کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک ساتھ سر سید کی دو سو سالہ تقریب یوم پیدائش منائی جاتی اور اس موقع پر آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاتا مگر افسوس کہ اس موقع کو ضائع کر دیا گیا ،اور اتناہی نہیں آج ہم سر سید کے مشن سے بھی دور ہو چکے ہیںان کی تعلیمی پالیسیوں کو ہم نے نظر انداز کر دیا ہے ،تعلیم کے میدان میں سر سید کے منصوبے کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے ،دو صد سالہ پروگرام ہمیں اپنے خطوط پر واپس لے جانے میںمعاون و مددگار ہوتے۔اس طرح ہم نے اپنے محسن کو فراموش کر دیا جبکہ اس کے بر عکس مسلم دشمن اور شر پسند عناصر نے اپنی سرگرمیاں تیز تر کردیں۔ بھگوا جماعتوں سے وابستہ قلم کاروں نے سرسید کو ملک دشمن قرار دینے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہی بلویر پنج نے سرسید کو ملک کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دے دیا حالانکہ سرسید1898میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے اور ملک ان کی وفات کے49سال بعد تقسیم سے دوچار ہوا۔ ہمارے کسی دانشور نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ اپنی وفات کے49سال بعد سرسید نے کس طرح ہندوستان کو تقسیم کرادیا۔ دیگر قلم کارسرسید پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں کہ انہوں نے صرف مسلمانوں کے تعلیمی مفاد کے لئے اس ادارہ کو قائم کیا جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کہلاتا ہے اور سرسید مسلم فرقہ پرست تھے جبکہ حقیقت اس کے ایک دم برعکس ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ اس ادارہ کا پہلا گریجویٹ ایک غیر مسلم طالب علم ایشوری پرشاد تھا، سرسید نے اپنے نبیرہ کی رسمِ بسم اللہ ایک غیر مسلم کی گود میں ادا کرائی تھی، سرسید وہ پہلے ہندوستانی تھے جنہوں نے ہندو اور مسلمانوں کو مادرِ ہند کی دو خوبصورت آنکھوں سے تعبیر کرکے قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔ سرسید کی حب الوطنی، ہندو مسلم اتحاد کی سمت میں ان کی کاوشیں، ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کی ان کی کوششیں یکسر فراموش کی جارہی ہیں اور ہم سب خاموش ہیں۔ ہماری کوششوں کا سارا دار و مدار صرف یونیورسٹی کے ا قلیتی کردار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جس پر ہم تالی بجا بجا کر خوش ہو رہے ہیں اور یہ جتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہم سرسید کے پیرو اور عقیدت مندہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم سرسید کو بھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ہمیں اتنا تو سوچنا چاہئے کہ شر پسند عناصر کی بے بنیاد تشہیر آنے والی نسلوں کے سامنے سرسید کی کیا تصویر پیش کر رہی ہے اور مستقبل میں سرسید کی کیا حیثیت ہوگی؟ اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس قلم کا نشتر ہے اور ہمارے یہاں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے مگر ہمارے پاس سچائی کی طاقت تو ہے لیکن سچ لکھنے، بولنے اور کہنے کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم سرسید کے تعلق سے پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کو دور ہی نہیں کرپارہے ہیں اور نہ ہی ان روسیاہ قلم کاروں کو منھ توڑ جواب دے پارہے ہیں۔ کاش ان کو آئینہ بھی دکھا یا جاسکتا ؟
علیگ برادری دنیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے۔ اگر علیگ برادری سرسید کے تئیں سنجیدہ ہوجائے تو سرسید پر عالمی سطح پر بھی کام ہوسکتا ہے۔ مگر یہ امر افسوسناک ہے کہ وہ رہنما جنہوں نے انگریزوں کے سامنے سپر ڈال دی اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر نصاب کے ذریعہ پرموٹ کئے جارہے ہیں، ان کو سچاحب الوطن بتایا جا رہا ہے اور سرسید جنہوں نے اپنی ساری زندگی ملک کی ترقی اور ہندوستان میں جدید تعلیم کی ترویج و اشاعت کے لئے فنا کردی اس کے ساتھ سوتیلا سلوک اور اس پر مزید افسوسناک امر یہ کہ ہم سب خاموش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرسید کے تعلق سے ہر زبان میں عالمی سطح پر تخلیقی کام کیاجائے،سرسید کے نام پر ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں سرسید چیئر قائم کرائی جائیں، اے ایم یو میں سرسید اسٹڈیز سینٹر کے کام کو پھر سے شروع کیا جائے اور اس کو حتمی اور عملی شکل دی جائے، وہ تمام فائلیں ایک بار پھر سے نکالی جائیں جن میں سرسید اسٹڈیز سینٹر کے تعلق سے تمام تفصیلات اور پروگرام موجود ہیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی سطح پر سرسید اور علی گڑھ تحریک کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یومِ سرسید پر منعقد ہونے والے قومی سطح کے سرسید مضمون نویسی مقابلہ کی شکل تبدیل کی جائے ا ور یہ مقابلہ آن لائن منعقد کرانے کی جگہ اے ایم یو میں امیدواران کو بلاکر منعقد کرایا جائے تاکہ انٹر نیٹ کے اس دور میں کٹ پیسٹ کی جگہ بچے سرسید کو حقیقی طور پر پڑھ کر آئیں۔ آج ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہمیں حکومتِ ہند کے سامنے سرسید کی قربانیاں پیش کرکے اسے مجبور کرنا ہوگا کہ وہ سرسید کو بھارت رتن کے ایوارڈ سے سرفراز کرکے ان کی حب الوطنی اور جدید ہندوستان کی تعمیر میں ان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ ہمیں حکومت پر دباؤ بنانا ہوگا کہ سرسیدکو اسی طرح نصاب کا حصہ بنایا جائے جس طرح دیگر رہنماؤں کو بنایا گیا ہے،ہمیں خود آگے بڑھ کر سرسید شناسی کے لئے راہیں ہموار کرنا ہوں گی۔علیگ برادری نہ صرف دنیا بھر میں سرسید کے نام پر تعلیمی ادارے قائم کرسکتی ہے، سرسید پر مضمون نویسی کے مقابلہ منعقد کرا سکتی ہے بلکہ سرسید پر عوامی سطح کے پروگرام منعقد کراکے لوگوں کے سامنے سرسید کی عظمت کو آشکار کر سکتی ہے، سرسید پر ڈاکیومنٹری فلمیں تیار کرسکتے ہیں، ریڈیو اور ٹیلی ویڑن پر سرسید کے تعلق سے چھوٹے بڑے مقابلہ منعقد کرسکتے ہیں۔ قلمکار سرسید کی حیات و خدمات کے مختلف گوشوں پرمختلف انداز و اسالیب میںکتابیں لکھ سکتے ہیں۔ یہ وہ تمام کام ہیں جو کسی طور مشکل نہیں کہے جاسکتے اور سرسید کی شخصیت اس امر کی متقاضی ہے کہ ان کے لئے یہ سب ہونا چاہئے۔ جب دوسری اقوام اپنے بزرگوں کے لئے ہر جائز ناجائز طریقہ اختیار کرسکتی ہیں تو ہم خاموش کیوں ہیں؟ ہم سرسید کے لئے سچائی اور حقیقت سے بھی کام لینے سے کیوں گریزاں ہیں۔ کیا ہماری رگوں میں بہنے والے خون میں غیرت،حمیت اور احسان مندی کے سارے اجزا ختم ہوگئے ہیں؟ کیا ہمیں دوسروں کو دیکھ کر رشک پیدا نہیں ہوتا اور ہمارا دل نہیں چاہتا کہ ہمارے بزرگوں کے نام پر بھی قومی اور عالمی سطح پر کوئی بڑا کام ہو؟ کیا ہم محض نام کے ہی علیگ رہ گئے ہیں اور سرسید سے ہماری عقیدت محض ایک دکھاوا بن کر رہ گئی ہے؟ کیا ہم سرسید کا احسان ادا کرنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں؟ یہ وہ سارے سوالات ہیں جن پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ میں نے ابتدا میں ہی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوںپر احتساب کی بات کہی تھی اور جب تک ہم اپنا دونوں سطحوں پر احتساب نہیں کرتے ہیں اس وقت تک نہ حقائق سے واقف ہو سکتے ہیں اور نہ ہی سر سید احمد خاں جیسے محسن قوم و ملت کواس کی شایان شان خراج عقیدت پیش کرکے اپنے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں۔اس لئے ہمیں سب سے پہلے سوچنا ہوگا،پھر لائحہ عمل مرتب کر کے اس کو عملی جامہ پہنانا ہوگا ورنہ ہمیں احسان فراموشوں اور اپنے پیر پر خود کلہاڑی مارنے والوں کی فہرست میں رکھا جائے گا،جن کا ماضی بھی داغدر ہو گا اور مستقبل بھی تاریک،تو آیئے حال کو سنوار کر مستقبل کو رنگوں اور روشنیوں سے بھرتی ہیں اور سر سید احمد خاں کو ان کا جائز مقام دے کر اپنی احسان مندی کو ثبوت پیش کرتے ہیں۔