موجودہ دور میں سرسیّد ثانی کی ضرورت

بلقیس مقبول
ایم۔اے (سال دوم)
شعبۂ اُردو،
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
جاندار قوم کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے دَور کے ہر صورتحال سے آگاہ ہوتی ہے اور اپنے مسائل کے انکشاف کے لیے اپنی بقا کی راہیں خود تعمیر کرتی ہے۔ جب کبھی کوئی قوم جہالت و ظلمت کی تیرگی میں غرق ہوجاتی ہے تب وہی قوم کسی ارفع صفات والے انسان کوجنم دیتی ہے جو نہ صرف اپنے زمانے کے لوگوں کے لیے ایک نمونہ بن جاتاہے بلکہ وہ مستقبل کے لیے بھی مثال بن کر رہ جاتاہے۔ انیسویں صدی کاہندوستان جس کی تہذیب تاریکی کے سمندر میں ڈوب رہی تھی اس ڈوبتی ہوئی تہذیب کوبچانے والی شخصیت کانام سرسیّداحمدخاں تھا۔
تہذیب ،تمدن،مذہب،سیاست ومعشیت ، علم وادب، زبان اور تعلیم غرض ایساکوئی پہلونہیں تھاجواصلاح کاخواہاں نہ تھا۔ انہوں نے قوم کے مسائل کے حل نکالنے کے لیے ایک ساتھ کئی شعبوں میں کام کئے۔ تعلیم، اَدب،باہمی اِمداداور قوم کی اصلاح کابیڑہ اُٹھایا۔ بہت سی اذیتوںاور پریشانیوں کاسامناکیا۔ کانٹوں بھری راہوں کاسفر بڑی دلیری سے کرتے ہوئے اپنے منزل مقصودکی جانب چل پڑے۔
دُنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رُخ موڑ دیا ہو
سرسیّداحمدخاں صرف مسلمانوں کے ہی طرف دار نہیں تھے بلکہ وہ پورے ہندوستان کے سماج کے لیے فکر مندرہے۔ وہ اپنی پوری زندگی میں ہندومسلم کے اتحادکے لیے کوشاں رہے۔ ایک لکچر میں انہوں نے کہا :
’’ہندوستان ہم دونوں کاوطن ہے۔ ہندوستان ہی کی ہوا سے ہم دونوں جیتے ہیں۔ مقدّس گنگا جمناکاپانی ہم دونوں پیتے ہیں۔ ہندوستان کی زمین کی پیداوار ہم دونوں کھاتے ہیں۔ مرنے اور جینے میں دونوںکاساتھ ہے۔ مسلمانوں نے ہندؤں کی سینکڑوں عادتیں لے لیں۔ہندؤںنے مسلمانوں کی سینکڑوں عادتیں لے لیں۔ پس اگر ہم اس حصہ سے جوہم دونوں میں خداکاحصّہ ہے، قطع نظر کریں تو درحقیقت ہندوستان میں ہم دونوں بااعتبار اہل وطن ہونے کے ایک قوم ہیں، اور ہم دونوں اتفاق اور باہمی ہمدردی اورآپس میں محبت سے ملک کی ہم دونوں کی ترقی وبہبودممکن ہے‘‘۔ ۱؎
اس سے نمایاں ہوتاہے کہ ان کاکام اور فکر کارشتہ سبھی ذات،مذہب اور فرقے سے جڑاہواتھا۔ اس طرح اپنی محنت ومشقّت کے سبب ہندوستانی قوم کومتحدکرنے میں کامیاب رہے۔
سرسیدکی یہی باتیں دماغ میں گونجتی ہیں اور یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش ان جیساکوئی سماجی اصلاح کار نمودار ہوجائے جومعاشرے کی ہر خرابی کاخاتمہ کرے۔
سرسیّد احمدخاں نے صرف ایک ناصح مشفق کارول اَدا نہیں کیابلکہ ایک مصلح کی حیثیت سے انہوں نے عملی اقدامات کے اور قوم کی ناداری وتنگ دستی کودور کرنے کے لیے اسباب فراہم کئے۔ ان وسائل میں سب سے اہم وسیلہ تعلیم کوضروری قرار دیا۔ انہوں نے تعلیم کی ترویج واشاعت کے لیے محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیادڈالی جو بعدمیں آل انڈیامسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔ آج بھی ہندوستان میں 374 اضلاع ایسے ہیں جوتعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں اگر تعلیمِ نسواں کاجائزہ لیاجائے تومردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ خواتین کاتعلیمی فیصد53.7 ہے جبکہ مردوں کاتعلیمی فیصد75.3 ہے۔ ۱۲ویں صدی کایہ ہندوستان اور پیچھے رہنے والے اضلاع آج اسی کانفرنس اور MAO کالج کے لیے ترس رہے ہیں۔
آج تعلیم نے تجارتی پوشاک اوڑھ لی ہے ۔ تعلیمی ادارے کاروباری ماکیٹ بن گئے ہیں۔ تعلیم صرف صاحب ِ ثروت تک محدودہوتی جارہی ہے۔ ادب میں جمودپیداہوگیاہے۔شاعری صرف واہ واہ تک رہ گئی ہے۔آج کل ہونے والے شاعر کسی Business سے کم نہیں۔ مشاعروںمیں مضمون کی ندرت سے زیادہ شاعر کی سُریلی آواز پر توجہ دی جاتی ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ سیاسی مسائل کواُجاگر کرناہی ہمارے مشاعروں کاکام رہ گیاہے۔موجودہ دور کے ادیبوںاور شاعروںکی تحریروں سے صاف طمع جھلکتاہے کیونکہ یہ تخلیقات ذریعۂ معاش کی خاطر لکھی جاتی ہیں نہ کہ اصلاحِ معاشرت کے مقصدسے۔
غالبؔ اور اقبالؔ جیسے شاعر اب ناپیدہوگئے ہیں۔ اس لیے خیالات میں بھی جمودپیداہوگیاہے۔
سرسیّداحمدخاں کے دَور میں جوتاریکی تھی اگر اس کا اور موجودہ حالات کاجائزہ لیاجائے توبہت سی باتیں ایک جیسی معلوم ہوں گی۔ اس لیے آج ملک میں پھر سرسیّد ثانی کی ضرورت ہے جومسلم اورہندوستانی قوم کوتعلیم کی اہمیت سے واقف کرائے، قوّتِ قلم سے روشناس کرائے زندگی میں کام آنے والے صلاحیتوںکوپیداکرنے کاہُنر سکھائے۔
غفلت کے خواب میں سوئے ہوئے قوم کوایک مرتبہ پھر انہیں اخبارات اور میڈ یاکے وسیلے سے اچھی باتیں پہنچانے کی ضرورت ہے کہ جس طرح سرسیّد نے اپنے مضامین ، کتابیں اور بعدمیں تہذیب الاخلاق کے ذریعہ خفتہ قوم کوبیدار کیا۔ آج مسلم قوم میںبے کاری، بے عملی،جہالت، سماجی اور تہذیبی بیماریاں عام ہیں۔2014 کے سروے کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں مسلمان 14 فیصدہیں لیکن اس قدر کثیر آبادی کے حاصل ہونے کے باوجوداعلیٰ تعلیمی اداروں میں صرف4.4 فیصدمسلم طلبہ ہیں۔ اس کیفیت میں کسی مصلح قوم کی ضرورت ہے جوانہیں سرسیّدکی طرح کتابوںیامضامین کی شکل میں زندگی کاپیغام دے۔ جوایک نباض کی طرح اپنے عہدکاجائزہ لے کر لوگوں کومسائل کے حل سے آشنا کرائے۔
سرسیّد احمدخاں کے افکار پرعمل کرنے کی ضرورت آج بھی اتنی ہے جتنی ان کے دورمیں تھی۔ آج نئی دُنیا ، نئے زمانے ،نئے تقاضے ایک بار پھر سرسیّدکواپنارہنمااپنانے کااشارہ دے رہے ہیں۔
دَور حاضر میں سُنہرا گر مقدر چاہیئے
پھر ہمیں سیّد کے جیسا آج رہبر چاہیئے
سرسیّد کی دوسو ایک سالگرہ بامسرّت موقع ہے لیکن اس موقع پر یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیاہندوستانی مسلمان صحیح معنوںمیں سرسیّد کی جدید فکر سے پوری طرح مستفیدہوں گے۔ ہمارے ایک چھوٹے سے طبقے نے انگریزی تعلیم کاراستہ تواپنالیالیکن عام مسلمانوں میں آج بھی سائنسی مزاج کافقدان ہے اورآج بھی شریعت کے نام پر ایسے رسم و رواج قائم ہیں جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس زوال کے شکار سے بچنے کاراستہ آج بھی سرسیدتحریک ہی ہے۔ اس لیے ایک عظیم المرتبت شخصیت کے دوسو ایک سالگرہ پر ایک بار پھر سرسیّدکی تحریک کوزندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سرسیّد کے اندر ایسی صفات تھیں جوان کودوسروں کی نظروںمیں محبوب بنادیتی تھیں۔ ان میں وضع داری تھی خوش اخلاقی تھی اور لوگوں کواپنابنانے اور وحشیوں کورام کرنے کاسلیقہ تھاجس سے ان کی شخصیت پُر کشش ہوجاتی تھی ان کے بہت سے مخالفین جب ان کے قریب آئے توان کے گہرے دوست بن گئے۔ حالیؔ نے ایک موقع پر کہاتھا :
’’میرادِل تو نوجوانوں کے حُسن تک بھاگتاہے لیکن اس بوڑھے نے توایک نظر میں مجھے موہ لیا۔ ہندوستانیوں کے علاوہ یورپین بھی ان کی جادوبھری شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔‘‘ ۲؎
تاریخ میں کم لوگ ایسے ہیں جن میں سرسیّد جیسا ایثار اور بے غرضی پائی جاتی ہے۔وہ دوسروں کے لئے زندہ رہے اور انہوں نے اپنا تَن دَھن سب کچھ دوسروں کے لیے وقف کردیاتھا۔
پروفیسر آرنلڈ نے ان کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا :
’’ان کی زندگی شرافت کاایک نمونہ تھی خود غرضی سے بالاتر اور سچائی سے ہم آہنگ اوردوسروں کی خدمت کے لیے وقف ۔ یہ تھی ان کی زندگی ۔ اب ہمیں ان جیسا دوسراشخص کہاں مل سکتاہے؟‘‘ ۳؎
یوں تولاکھوں آئیں گے اس نجد میں اور جائیں گے
سیّد احمدسا جنوں ساماں مگر آئے گا کون