گھاٹے پر چلنے والی الیکٹرانک بسیں

جس انداز سے جموںوکشمیر میںسرکار نے عوام کی سہولیات کے لئے نئی الیکٹرانک بسیںچلائی جا رہی ہیںاس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ موجودہ سرکار نے ماضی سے سبق حاصل نہ کرتے ہو ئے اسی ٖڈگر پر موجودہ الیکٹرانک بسوںکا چلانے کا من بنایا ہوا ہے ۔اس سے صاف لگ رہا ہے کہ ان بسوںکا حشر بھی ماضی کی مانند بسوںجیسا ہو کر رہے گا ،یاد رہے کہ آج تک جموںوکشمیر میںوزارت ٹرانسپورٹ کبھی منافع بخش صنعت ثابت نہ ہو ئی جبکہ جموںوکشمیر میںہر سال لاکھوںکی تعداد میںسیاح وارد کشمیر ہو تے رہے ہیںلیکن محکمہ کے اعلی افسران و منیجمنٹ کی غلط پالیسیوںکی وجہ سے ہمیشہ ٹرانسپورٹ کا محکمہ خسارے کا شکار رہا ۔کیونکہ جدید ترین و آرا م دہ بسوںکے باوجود یہ منافع بخش ثابت نہ ہو ئی ،کیونکہ ان بسوںکو چلانے والے ،ان کے رکھ رکھائو و بالا افسران کی منفی سوچ کی وجہ سے یہ بسیںکچھ سالوںکے بعد کباڑ بن گئیں،اس کے لئے پورا محکمہ و اعلی افسران ذمہ دار تھے جبکہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹر اپنی محنت و مثبت سوچ سے جہاں پھل پھول رہا ہے وہیںنوجوانوںکو روزگار دلانے کے ساتھ بس مالکان کو بھی اچھا خاص منافع دے رہے ہیں لیکن ماضی میںبس سروس چلانے والے ڈرائیور و کنڈیکٹر سواری کو راہ میںچڑھانے کی زحمت نہ کر کے آدھی سواریوںکے ساتھ سڑکوںپر رواں دواںرہیںجس کی وجہ سے ان کا خسارہ بڑھتا ہی رہا جس کی وجہ سے ان کو ایک دن کباڑ خانے میںڈالنے کی نوبت آئی ،اب جبکہ سرکار نے الیکٹرانگ بسیںمتعارف کر وا کر عوام کو سہولیات دینے کے لئے چلائی ہیںلیکن جس انداز سے ان بسوںکو چلایا جا رہا ہے ،اس سے لگتا ہے کہ ان بسوںکا حال بھی وہی ہونے والا ہے جو ماضی میںجدید ترین بسوںکا ہوا ،وجہ صاف ہے کہ بسوںکا چلانے والے ڈرائیور و کنڈیکٹرز نے یہ خبط ذہن نشین کر لیا ہے کہ ان کی ماہانہ تنخواہ ان کو مل کر رہے گی اس لئے وہ مسافروںکو بس میںچڑھانے کے لئے محنت کرنے سے قاصر ہیں،بس ڈرائیور اورکنڈیکٹر سواریوںکو دیکھتے ہو ئے ان کا بس میںسوار ہونے کے لئے بریک لگانے کو تیار نہٰیںہو تا ہے ،بس کنڈیکٹر سواری چڑھانے کے لئے بس سے نیچے اترنے کی زحمت گوارا نہیںکر تے ،نہ ہی بس سٹاف پر سواری لینے کے لئے ایک یا دو منٹ کی بریک لگائی جا تی ہے ،جس کی وجہ سے ان بسوںکو ہمیشہ خالی یا بہت کم سواریوںکے ساتھ چلتے دیکھا جا رہا ہے ،جبکہ پرائیویٹ منی بسوںمیںسواریوںکی بھیڑ ہو تی ہے ،منی بس چلانے والے رائیور و کنڈیکٹر سواری لینے کے لئے محنت کر تے ہیں۔ پھر ان بسوںکا رنگ بھی ایسا رکھا گیا ہے کہ عام آدمی ان کو آرمی کی گاڑی سمجھ لیتا ہے ۔جو سواری بس میںسفر کر تی ہے اس سے بھی بس کنڈیکٹر کا رویہ معاندانہ نہ ہوتا ہے ،وہ سواری سے جو کرایہ وصول کر تا ہے اس کی کبھی ٹکٹ دینے سے قاصر رہتا ہے ،ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جو ٹکٹ مسافرکو دی جا تی ہے اس سے زیادہ کرایہ وصول کیا جا تا ہے جس سے صاف ہے کہ باقی پیسے اپنی جیب میںڈالی جا تے ہیں،تو ایسے میںیہ بسیںیقینا خسارے میںچل رہی ہیں،تو کب تک خسارے میںبسوں کو چلا یا جا ئے گا ،ایسا لگتا ہے کہ بہت جلد ان بسوںکو بند کیا جا سکتا ہے ،ہونا تو چاہئے تھا کہ محکمہ کے اعلی افسران و منیجمنٹ اس کا نوٹس لیتی مگر لگ رہا ہے کہ سبھی خواب غفلت میںسوئے ہوئے ہیں،کیوںنہ ان بسوںکو بے روزگار نوجوانوںکے سپرد کیا جا ئے اور ان سے ماہانہ رقم طے کی جائے تاکہ ایک سرکار کو ماہانہ واجب رقم بھی ملے دوسرا بے روزگار نوجوانوںکو روزگار بھی مل سکے ،جس انداز سے اس وقت ان بسوںکو چلایا جا رہا ہے ،وہ گھاٹے کا سودا ہے ،جو زیادہ دیر تک برداشت نہیںکیا جا سکتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔