پہاڑی علاقوں میں نوجوانوں کے لیے کھیل کا میدان نایاب کیوں؟

بابر نفیس//ڈوڈہ، جموں
کھیل انسانی صحت کے لیے کافی کارآمد ہے۔ڈاکٹروں کے مطابق ایک صحت مند انسان کو دن میں ایک گھنٹے سے زائد وقت ورزش کرنی چاہیے۔ لیکن اس کے لیے ایک انسان کو مخصوص جگہ بھی چاہیے۔وہ مخصوص جگہ ایک کھیل کا میدان ہی ہو سکتا ہے۔ وہیں دوسری جانب جو انسان ورزش سے دور رہتا ہے وہی انسان نشہ میں مبتلا ہو سکتا ہے۔نوجوانوں میں کھیل کی صلاحیت کو مزید بڑھانے کے مقصد سے مرکزی حکومت بھی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ اسی مقصد کے تحت گذشتہ کچھ سالوں میں ملک میں کھیلوں کوبڑھاوا دینے کے لئے کھیلو انڈیا اور یوتھ گیمس کا انقاد بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ بین الاقوامی کھیلوں میں ہندوستانی مرد اور خواتین کھیلاڑی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔اس کی وجہ سے نوجوان نشہ سے دور کھیلوں کی جانب توجہ دے رہے ہیں۔اگرچہ ریاست جموں وکشمیر کو نشہ مکت کرنا ہے تو یہاں پر انتظامیہ کو کھیل کود کے ذرائع پیدا کرنے ہوں گے۔ ضلع سے وابستہ جتنے بھی علاقے ہیں یوں تو بہت ساری سہولیات سے محروم ہیں۔لیکن کھیل کے میدان کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حقیقت دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ نوجوان طبقہ کس طرح نظرانداز ہے؟اس سلسلے میں پہاڑی علاقہ ڈوڈہ سے تعلق رکھنے والے 25سال کے نوجوان شکیل رحمان کہتے ہیں کہ پہاڑی علاقوں میں کھیل کے مکمل انتظامات نہ ہونانوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ بہت سے نوجوان جو کھیلوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور جو زمینی سطح سے اٹھ کر قومی سطح کے کھیل مقابلہ تک جانے کا خواب دیکھتے ہیں انکے ساتھ یہ نا قابل برداشت سلوک ہے۔واضح رہے کہ نوجوان کھلاڑیوں کے جذبات اس وقت مجروع ہوجاتے ہیں جب ان کو نہ ہی کھیلنے کے لئے کوئی جگہ مل پاتی ہے اور نہ ہی تربیت کے لئے قرب و جوار میں کوئی ایسا کھیل کا معمولی میدان ملتاہے جہاں پروہ اپنی صلاحیتوں کو بروے کار لا سکیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک نوجوان کو کہیں متوجہ نہیں کیا جاتا ہے تو وہ نشہ کی طرف ملوس ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے پہاڑی یا میدانی علاقوں میں نوجوانوں کی ہنر مندی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر سہولیات فراہم کی گئی ہوتی تو یقیناً یہاں کے نو جوان بھی قومی اور بین الااقوامی سطح پر اپنے ہنر کے جوہر اور کمالات دکھا رہے ہوتے۔
جب کھیلنے یا پریکٹس میں لڑکوں کو اتنی پریشانی آتی ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کھیلوں میں دلچسپی رکھنے والی لڑکیوں کو پریکٹس میں کس طرح کی مشکلیں درپیش آتی ہونگی؟اس سلسلے میں ایک 19 سال کی نوجوان لڑکی صائمہ بانو نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضلع ڈوڈہ کے نوجوانوں کو ابھی تک کھیلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لئے کوئی میدان نہیں ملتا۔ ضلع ڈوڈہ میں بہت کم میدان ایسے ہیں جہاں نوجوان کے لیے پہنچنا انتہائی مشکل ہے۔اس نے کہا کہ اگرچہ ہر تحصیل میں ایک میدان ہوتا جہاں پہاڑی علاقوں کے بچے ا کر اپنا کردار ادا کرتی اورشاید انہیں ریاستی سطح پر کھیل کا موقع ملتا۔صائمہ نے انتظامیہ سے اپیل کی فوری طورمیدان بنائے جائیں تاکہ نوجوان کھیلاڑیوں کو پریکٹس کا موقع ملے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ خواتین اپنے کسی کھیل میں مہارت رکھتی ہے لیکن وہ اسے ظاہرکرنہیں سکتی کیونکہ اس کے لیے وہ سہولیات ہر علاقے میں فراہم نہیں ہے جس سے کھیل میں دلچسپی رکھنے والی ہرلڑکی کو اپنے خواب کو دفن کرنے پر مجبور ہے۔انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ دیہی علاقوں میں ایک میدان کا انتظام کرے تاکہ لڑکیاں بھی بنا کسی ڈر کے کھیل میں اپنامستقبل روشن کر سکے۔اس سلسلے میں ایک مقامی سماجی کارکن رفاقت میرنے کہا کہ اگرچہ ملک کو نشہ مکت کرنا ہے تو نوجوانوں کو کھیل کی طرف واغب کرنا ہوگاکیونکہ جب ایک نوجوان ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے تو وہ کھیل کے میدان میں جا کر اپنے زہین کو تازہ کرتا ہے۔ لیکن جب کھیل کا میدان نہ ہو تو نوجوانوں کو نشہ کی طرف راغب ہونا آسان ہوجاتا ہے۔اس لیے ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ کو چاہیے کہ اگرضلع کو نشہ مقت بنانا ہے تو کھیل کے میدانوں پر زور دیا جائے۔
اس سلسلے میں ڈوڈہ کے سابقہ ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی بھی کھیل کے میدان کا ہونا انتہائی اہم مانتے ہیں۔انہوں نے انتظامیہ سے اپیل کی کہ ہر علاقہ جات میں ایک کھیل کا میدان بنایا جائے جس میں بچے بوڑھے نوجوان اپنا وقت گزار سکیں۔کھیل کے میدان سے ملنے والی درجہ حرارت انسان کو تندرست بناتی ہے۔اانہوں نے یہ بھی بتایا کہ پہاڑی علاقوں میں جو ہنر چھپا ہوا ہے اسے ہم صرف میدانوں میں ہی دیکھ سکتے ہیں اور اگرچہ علاقہ جات یہ میدان نہیں ہو سکتے ہیں تو کس طرح بچے اپنا ہنر ازما سکتے ہیں اور کس طرح اپنا مستقبل روشن بنا سکتے ہیں؟وہیں ضلع ترقیاتی کونسلر معراج ملک کہتے ہیں کہ کونسل میں ایک مرتبہ اس مدے پر چرچہ بھی کی تھی۔وہیں ضلع ترقیاتی کمشنر ڈوڈہ وشیش پال مہاجن نے یقین دہانی کرائی کہ آنے والے وقت میں اس پر ضرور کام کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کو واقعی میں چاہیے کہ وہ ان چیزوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا۔انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ آنے والے وقت میں کونسل کی جانب سے فنڈز واہ گزار کی جائے گی جس سے اور کئی میدان تیارکیے جا سکیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اب تک پہاڑی علاقوں میں بہت سارے میدان تعمیر کی جا چکے ہوتے لیکن زمین نہ ملنے کی وجہ سے یہ کام پورا نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں ہم زمین تلاش کر رہے ہیں اور جہاں زمین اس قابل ہوگا میدان تعمیرکیا جائے گا۔بہرحال، جس طرح سے سرکاری افسران یقین دہانی کرا رہے ہیں اس سے امید کی جانی چاہئے کہ جلد ہی نوجوانوں کو اپنی صلاحیت نکھارنے کے لئے میدان مل سکتا ہے ۔لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آکر پہاڑی علاقوں کے نوجوانوں کے لیے کھیل کا میدان اب تک نایاب کیوں ہے؟