سیلری کتنی ہوگی….؟

سیلری کتنی ہوگی….؟
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
پارلیمانی یا اسمبلی انتخابات کے دوران ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ جس میں تاجر طبقہ، بیروکریٹس، ٹھیکیدار، انجینئرز وغیرہ شامل ہوتے ہیں، وہ مستقبل میں فائیدے حاصل کرنے کی غرض سے الیکشن لڑنے والوں پرسرمایہ کاری کرتے ہیں اور یہ اِس چیز کو ذہن میں رکھ کر لگائی جاتی ہے کہ کس سیاسی جماعت کی حکومت سازی کے امکانات زیادہ ہیں یا کون کون سے اُمیدوار جیت کی پوزیشن میں ہیں۔ سرمایہ کاری انتخابی مہم کے دوران جلسے ، جلوس ، پبلسٹی ، نقل وحمل وغیرہ پر آنے والے اخراجات کی صورت میں بلواسطہ یابلاواسطہ طور کی جاتی ہے اور یہ کسی سیاسی جماعت یا مخصوص اُمیدوار کے لئے بھی ہوتی ہے ۔یہ منحصر کرتا ہے کہ سرمایہ کاری کرنے والا آنے والے وقت میں کتنا بڑا منافع حاصل کرنا چاہتا ہے اوراِس منافع کادائرہ ریاستی، صوبائی یا ضلع سطح یا پھر خاص کسی حلقہ تک محدود ہے؟۔حالیہ ضلع ترقیاتی کونسل (ڈی ڈی سی )انتخابات کا چونکہ جموں وکشمیر میں پہلا تجربہ تھا، اِس لئے اِس کے منتخب ممبران کی اہمیت و اختیارات سے متعلق کوئی واضح تصویر سامنے نہ تھی اور اِس حوالے سے بھی غیر یقینی صورتحال رہی کہ آیا مرکز اِن کو بااختیار اور مکمل فعال بنائے گی بھی یا نہیں….؟۔ اس وجہ سے اس مرتبہ پرائیویٹ پارٹنرز/پارٹیزیعنی کہ نجی سطح پر سرمایہ کاری کم ہی ہوئی ہے۔ زیادہ تر اُمیدواروں کو از خود ہی اخراجات بردداشت کرنا پڑے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جنہیں قرضہ بھی لینا پڑا۔
جموں وکشمیر پنچایتی راج قانون کے مطابق نومنتخب ممبران کی طرف سے عہدہ کاحلف اُٹھانے کے بعد 20دنوں کے اندر ضلع ترقیاتی کونسل کوتشکیل دینا ہے اور اسی مدت کے اندر جس کے لئے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے چناو¿ کے لئے بھی نوٹیفکیشن مشتہر کیاجانا ہے۔28دسمبر2020کوجموں وکشمیر میں نومنتخب ڈی ڈی سی ممبران کی حلف بردار ی ہوئی تھی اور اب وہ بے صبری سے نوٹیفکیشن اجراءہونے کے منتظر ہیں۔یہ دن بڑے دلچسپ چل رہے ہیں انتخابی مہم کے دوران استعمال میں لائی گئی گاڑیوں کا کرایہ، جلسے جلوسوں کے دوران ٹینٹ، کرسیوں کا انتظام، اظہار ِ تشکر تقریبات پر ہوئے اخراجات کی ادائیگیاں جاری ہیں اور جن جن کی پے منٹیں ہیں وہ بھی وصولی میں لگے ہیں۔نومنتخب ممبران کے ذہنوں میں جو نمایاں سوال چل رہے ہیں اُن میں سیلری کتنی ہوگی، سی ڈی ایف کتنا ہوگا، اختیارات کیا کیا ہوں گے، پروٹوکول کیا ہوگا،کہاں بیٹھے گے، سیکورٹی کتنی الاٹ ہوگی،پیسے کمانے کے کیا کیا طریقہ کار ہوں گے“ وغیرہ وغیرہ ہیں جن کے جواب تلاش کرنے کے لئے وہ انتظامیہ کے اندر اعلیٰ عہدیداران، اپنے جان پہچان کے افسران سے گھنٹوں تفصیلی استفسار کر رہے ہیں۔ کچھ نے تو انڈیا کی دیگر ریاستوں جہاں پر ’ضلع ترقیاتی کونسل ‘باقاعدہ سالوں سے کام کر رہی ہے، وہاں پر رابطے کر کے معلومات جمع کررہے ہیں جو اُنہیں کونسل تشکیل دینے کے بعد فوری کام آئیں اور اُنہیں انتظامی سطح پر نظام کو سمجھنے میں زیادہ اڑچن نہ آئے جبکہ نومنتخب ممبران کو انتظامی سطح پر تربیت بھی دی جائے گی۔ سب سے اہم سوال جو ممبران کو بے چین کئے ہے وہ انتخابات کے دوران جو پیسے خرچ کئے اُس کی وصولی کیسے ہوگی۔دلچسپ امر ہے کہ چونکہ ضلع ترقیاتی کونسل کا اختیار خالص ترقی اور منصوبہ بندی تک محدود ہے،اِس لئے اس مرتبہ ڈی ڈی سی الیکشن لڑنے والوں میں ایک اچھی خاصی تعداد ٹھیکیداروں اور انجینئرز یا دیگر بزنس پیشہ لوگوں کی تھی جن میں متعددجیت کر بھی آئے ہیںجنہوں نے لاکھوں کروڑوں خرچ کئے ۔انتخابی مہم کے دوران کئی اُمیدواروںنے کاغذات نامزدگی بھرتے وقت یا انتخابی مہم کے آخری روز بڑے عوامی اجتماعات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ موٹر ریلیاں بھی نکالیں جس میں سینکڑوں کی تعداد میں گاڑیاں بھی شامل رہیں اور ہر ایک کی کوشش رہی کہ اُس کی ریلی میں سب سے زیادہ گاڑیاں اور لوگ ہوں تاکہ رائے دہندگان میں یہ تاثر قائم ہوکہ یہ زیادہ مضبوط اُمیدوار ہے لیکن یاد رکھیں جنہوں نے الیکشن مہم کے دوران زیادہ اخراجات کئے، اُنہوں نے پہلے اُسی کی وصولی کرنی ہے۔چونکہ انٹی ڈی فیکشن قانون (دل بدلی قانون)کا اطلاق ہنوز اِن ممبران پر نہیں، اس لئے متعدد اس بات پر بھی غوروخوض کر رہے ہیں کہ اگر کہیں سے اچھی قیمت مل جائے تو وہ اُس طرف پلٹی بھی مارنے کو تیار ہیں اور اس عمل کے لئے سیاسی اصطلاح ’ہارس ٹریڈنگ‘ اِن دنوں بڑا استعمال ہورہا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق 2019اگست فیصلوں کے تناظر میں ایسا ممکن تھاکہ بطور آزاد اُمیدوار جیتنے والے بھی زیادہ گپکار الائنس کے خیمہ میں ہی پناہ لیتے لیکن 19دسمبر2020کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف ’انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ‘کی کارروائی نے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کردیا،کہ موصوف خود کو نہیں بچکا سکتے تو ہمیں کیا بچائیں گے ۔اب آزاد ممبران کے لئے آگے کنواں، پیچھے کھائی والی صورتحال ہے۔
سرمائی ایام کے دوران دیہی علاقہ جات میں بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، سڑکوں کی خستہ حالت، طبی اداروں میں عملہ، ادویات اور مناسب مشینری کی عدم دستیابی سے لوگ پریشان ہیں لیکن نومنتخب ممبران نے ابھی اِن عوامی مسائل پر لب کشائی تک کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی ہے۔ اِن دنوں اُن کا زیادہ وقت ”اخراجات، ادائیگی، وصولی اور منافع “کی باتوں میں ہی صرف ہورہا ہے۔اُمید کرتے ہیں کہ نومنتخب ممبران رائے دہندگان کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے بھی حکمت عملی مرتب کر رہے ہوں گے۔ انتخابی مہم کے دوران سوشل میڈیا ، پوسٹروں، بینرز کے ذریعے اپنے منشوروں میں توجوباتیں کی ہیں،انہیں اب ردی کی ٹوکری میں ڈال دینے کی بجائے ہمیشہ اُن کو عملی شکل دینے کے لئے سنجیدگی، صدق دلی سے غور کریں گے۔ کئی جگہوں پر تو رائے دہندگان نے اب یہ تک کہنا شروع کر دیا ہے کہ اب مبارک بادی، شکریہ سے نکل کر اپنے آس پاس لوگوں کو درپیش مشکلات پر نظر ڈالیں۔22دسمبر2020کو نتائج آئے تھے، کیا اُس کے بعد آج تک کسی نے نومنتخب ڈی ڈی سی ممبرنے اپنے حلقہ میں موجود اسپتال کا دورہ کر کے وہاں مریضوں، تیماداروں کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیا، کیا پانی وبجلی کی عدم دستیابی متعلق انتظامیہ سے رجوع کیا یا علاقہ کے مسائل کو لیکر انتظامیہ کے پاس وفود کی صورت میں گئے….اِس کا جواب عوام بخوبی جانتی ہے۔ اس ساری صورتحال کی عکاسی جموں وکشمیر کے معروف کارٹونسٹ جناب بشیر احمد بشیر صاحب نے ایک کارٹون کے ذریعے انتہائی شاندار انداز میں کی ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس وکیل اور صحافی ہیں
ای میل:[email protected]