آفتاب احمد کھوکھر سے ایک ملاقات


شہباز رشید بہورو//ڈوڈہ
شخصیات سے ملاقات کرنے کا موقعہ میں ہاتھ سے جانے نہیں دیتا ۔اس معاملے میں میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ بروقت شخصیات کی پہچان کی جائے اور ملاقات کا وقت مقرر کیا جائے تاکہ بعد میں کسی بھی نوع کے پچھتاوے سے گذرنا نہ پڑے۔میری نظر میں شخصیات چند ایک صفات کی مرکب ہوتو ملاقات کا مزہ ہی پھر کچھ اور ہوتا ہے۔یوں تو اصطلاحی اور ادبی سطح پہ بے شمار شخصیات کی تقسیم کی جاسکتی ہے اور ہر ایک کسی نہ کسی پہلو سے انسانی معاشرے کے لئے اہم ہوتا ہی ہے لیکن وہ شخصیات جو بندوں کو خدا سے جوڑنے کا کام کریں، جنہیں انسان کی حقیقی فلاح کی فکر ہو میرے لئے نہایت اہم ہوتے ہیں ۔میرے لئے ان کے ساتھ ملاقات کرنا وماتوفیقی الاباللہ کے تحت آتا ہے۔آج جس شخصیت سے میری ملاقات کا پروگرام بنا وہ خطہ چناب کے معروف مدرس قرآن اور استاد جناب آفتاب احمد کھوکھر ہیں ۔آفتاب صاحب سے قصبہ ڈوڈہ کی ایک نمایاں دینی و مذہبی شخصیت ہے۔آفتاب صاحب میری پہلی ملاقات آستان مسجد فرید آباد میں مغرب کی نماز کے بعد دوران درس سیرت ہوئی تھی ۔اس کے بعد موصوف کے ساتھ قربت بڑھتی گئی اور آج الحمدلله میرے حلقہ یاراں میں شامل ہیں ۔آفتاب صاحب کے ساتھ ملاقات کرنے تقریباً صبح کے گیارہ بجے ان کے گھر پہنچا ۔میرے ساتھ میرے دو اور دوست عاصف صاحب ملک اور فاروق صاحب بہورو بھی مدعو تھے۔محترم موصوف نے بڑا پرتپاک استقبال کیا ۔مختلف موضوعات پہ تبادلہ خیالات ہوا۔مجلس چونکہ پڑھے لکھے احباب کی تھی اس لئے ہر موضوع پہ نہایت معیاری معلومات سے استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے دونوں فاضل دوست عاصف صاحب اور فاروق صاحب کی موجودگی نے مجلس میں ایک فرحت بخش گفتگو کا سما پیدا کیا ۔دونوں چونکہ وسیع المطالعہ ہیں اس لئے نہایت علمی موضوعات زیر بحث رہے ۔گفتگو کے دوران آفتاب صاحب سے بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقعہ ملا۔موصوف علمی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ عملی شخصیت بھی ہیں ۔موصوف 1965 میں قصبہ ڈوڈہ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم ایک نجی اسکول میں حاصل کی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے کاموں میں ان کی مدد کرتے۔بہت ہی مشکل زندگی کے دور سے موصوف کو بچپن میں سامنا کرنا پڑا۔قرآن مجید کے ساتھ شغف بچپن سے تھا اس لئے بڑی خوش الحانی کے ساتھ بچپن سے قرآن پڑھا کرتے تھے اور آج تو ماشاءاللہ موصوف نہایت خوش الحانی کے ساتھ قرآت کرتے ہیں۔موصوف بچپن سے دین کے ساتھ لگاو رکھتے تھے۔نوجوانی میں جماعت اسلامی سے وابسطہ ہوئے اور مختلف جگہوں پہ فلاح عام ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں کام کیا ۔موصوف نے سب سے پہلے بن ڈوڈہ میں قرآن کلاس شروع کی اور بعدازاں وہیں پر امام جامعہ بھی مقرر ہوئے ۔1985سے 1990تک وہاں پر امامت کے فرائض انجام دینے کے بعد لوگوں کے بہت زیادہ اصرار پر آستان مسجد فرید آباد ڈوڈہ میں امام مقرر کئے گئے ۔جہاں انہوں نے1990سے لیکر 2014تک پورے 24سال امامت کے فرائض انجام دئے۔راقم جب بھی ڈوڈ جاتا تو نماز کے لئے ضرور آستان مسجد ہی جاتا اور خصوصاً جمعہ کی تقریر سننے کے لئے تو آستان مسجد ہی طرف رخ ہوتا۔میں نے آفتاب صاحب کو بڑے بڑے اجتماعات میں درس قرآن دیتے ہوئے سنا ہے۔موصوف بڑے ہی صاف، شفاف الفاظ میں سادگی کے ساتھ دین کا مفہوم سمجھانےمیں منفرد ہیں ۔قصبہ ڈوڈہ میں تو موصوف مختلف محلوں میں جاکے ہفتہ وار درس قرآن دیتے ہیں ۔میں نے جب بھی آفتاب صاحب کو بازار میں دیکھا تو استفسار کرنے پر پروگرام کا ہی قصد ظاہر کرتے پایا۔مختلف سماجی مسائل کو حل کرنے میں بھی موصوف ایک اہم کردار اپناتے ہیں ۔موصوف کو میں نے ذاتی طور حق گوئی کا پیکر پایا اسلام کے لئے جس کو ناراض ہونا ہے ہوجائے لیکن حق کی بات ڈنکے کی چوٹ کرنی یہ موصوف کا خاصہ ہے۔جماعت کے بڑے اکابرین سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے ۔موصوف ڈوڈہ میں ایک یتیم خانہ دارلیتامہ کے نام سے خدمت خلق ٹرسٹ کے زیر اہتمام چلاتے ہیں جہاں تقریباً 45یتیم اور غریب بچوں کو تعلیم دینے اور دیگر ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے مفت انتظام ہے۔موصوف نہایت مخلص اور سنتوں کے سخت پابند ہیں۔اسلام کے مبادیات کی طرف ان کا زبردست دھیان رہتا ہے۔چھوٹی چھوٹی سنتوں پر عمل کرناموصوف کی اعلیٰ خصوصیت ہے۔موصوف نے ہمیں کہا کہ دین اسلام کے کسی چھوٹی سے چھوٹی بات کو کم مت سمجھیں بلکہ اسے اعلی متصور کرکے اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ کل آخرت میں یہی چھوٹی بات اللہ کے دربار میں آکر آپ کے لئے نجات کا ذریعہ بن سکے۔آفتاب صاحب نہایت بےباک اور بہادر انسان ہیں حالات کی سنگینی جتنی بھی ہو لیکن اپنا کام بہر صورت کرنے کا جذبہ ان کے اندر ہمیشہ موجزن رہتا ہے۔دینی اجتماعات میں شرکت کرنے کے حوالے سے بیرون ریاست بھی کئی اسفار کر چکے ہیں ۔ممبئی، دہلی لکھنو وغیرہ کئی اجتماعات میں شرکت کی ہے ۔معروف علمائے کرام سے ملاقات کرنے کا موقعہ ہاتھ سے کبھی جانے نہیں دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ انسان کے خلوص اور دین سے رغبت کا مظہر ہے کہ انسان دینی شخصیات سے ملاقات رکھنے کا اشتیاق رکھے۔
موصوف ایک اسکول کے بھی ڈاریکٹر ہیں جس کا آغاز انہوں نے چند سال پہلے کیا تھا۔ان کے برادر اصغر مولانا شبیر صاحب ندوی اپنے خلوص اور تقوی کے اعتبار سے میرے لئے نہایت معزز ہیں ۔ان کی تربیت کے پیچھے بھی آفتاب صاحب کا ہاتھ ہے۔
بنآفتاب صاحب ایک کامیاب استاد کی حیثیت سے بھی اپنام ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ان کے کئی تلامذہ مختلف شعبہ جات میں مختلف عہدوں پر فائز ہیں۔چناب ویلی کے معروف شاعر و ادیب یاسر عرفات طلبگار صاحب موصوف کے متعلق اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں “1991 میں میری ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول دُدہوت میں شروع ہوئی ۔ یہاں پر جس استاد نے مجھ پر اپنے حسن کردار اور علم و عمل سے اثر ڈالا وہ عزت مآب محترم و مکرم آفتاب احمد کھوکھر صاحب کی شخصیت ہے۔ ان کی متقیانہ ،فیاض اور عالمانہ شخصیت نے میری زندگی میں تعلیمی عمارت کی خشتِ اول اپنے پدرانہ و استادانہ ہاتھوں سے استوار کی۔ میں ان کی محبت و تدریس کے زیر سایہ مسلسل پانچ سال تک رہا ۔ پانچویں کے امتحانات میں اول آنے پر انہوں نے میرے گھر آ کر میرے والد بزرگوار کو خصوصی مبارکباد پیش کی۔ اس وقت مجھے ان ہی کی محنتوں سے زیڈ ای او گھٹ نے دو سو روپے کے انعامی وظیفے سے نوازا تھا ۔وہ ایک بہترین رہبر، معمار اور مؤثر شخصیت کے حامل ہیں ۔ انہوں نے کبھی بھی شاگردوں کے درمیان دیہاتی-شہری امتیاز کو پنپنے کا موقع نہیں دیا ۔ وہ شاگرد کو صرف ایک شاگرد سمجھتے ہیں اور اپنی اعلیٰ استادانہ صلاحیتوں کو اس کو سنوارنے میں بلا تامل بروئے کار لاتے ہیں ۔ اگر مجھے ان کی سرپرستی میسر نہیں آئی ہوتی تو شاید آج میں یہ الفاظ اور تاثرات لکھنے کے قابل نہیں ہوتا .”میں نے ذاتی طور اپنے حلقہ یاراں میں آفتاب صاحب کے تئیں نہایت خوش گمانی، عزت و تکریم اور محبت و مودت کے جذبات پائے ۔الله تعالیٰ موصوف کو ہمیشہ صحیح سلامت رکھے۔آمین۔
رابطہ84928 56546: