اسپتالوں کو سیاسی اکھاڑہ اورزندان نہ بنائیں

الطاف حسین جنجوعہ
سسٹم اور ادارے قواعدوضوابط کے تحت چلتے کرتے ہیں۔اگر ان کی فعالیت ضابطے کو درکنار کر کے کسی شخص یا چند شخصیات کی اپنی مرضی ومنشاءکے تابع ہوجائے تو نظام درہم برہم ہوجاتاہے۔اِس کا مشاہدہ جموں وکشمیر یوٹی میں یکم نومبر 2019کے بعد ایگزیکٹیو سطح پر کیا گیا۔ راج بھون، چیف سیکریٹری اور پولیس ہیڈکوارٹر کے مابین آپسی چپقلش، کھینچا تانی، رسہ کشی کی اطلاعات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں، حالانکہ جتنا تھا اُس سے بہت کم سننے ، پڑھنے کو ملا ، بہت کم ہی اِس سے آشنا ہیں۔ہم نے دیکھا کہ ایگزیکٹیو میں اہم عہدوں پر براجمان نوکرشاہ کے الگ الگ آقاہیں۔کسی کا ریمروٹ کنٹرول نئی دہلی کا ساو¿تھ بلاک ہے تو کسی کے سرپر ناگپور کا آشرواد ہے۔ملکی سطح پر برسرِ اقتدارجماعت میں طاقتورلابی ازم کا رحجان بھی دیکھاگیا ہے اور اِس کا عمل دخل جموں وکشمیر یوٹی کی انتظامیہ پر واضح دکھائی دیانتیجہ کے طور پر نظام پٹری سے اُترتا جارہاہے۔چونکہ مہلک وباءکورونا وائرس کی وجہ سے صحت شعبہ اِن دنوں زیادہ موضوع ِ بحث ہے اور توجہ کا مرکز بھی ، اس لئے اب سرکاری اسپتال بھی سیاسی اکھاڑہ بن گئے ہیں۔
پچھلے ایک ہفتہ سے صوبہ جموں کا کلیدی شفاخانہ ’میڈیکل کالج اینڈ اسپتال بخشی نگر‘زیادہ سُرخیوں میں ہے جہاں پر انتظامیہ میں بیرونی عمل دخل اِسقدر ہے کہ مذکورہ اسپتال کاسربراہ برائے نام رہ گیا ہے۔ اسپتال کے ایمرجنسی یونٹ، آئی سی یو اور سی سی یو اور دیگر وارڈوں میں سنیئر ڈاکٹرز ہی دستیاب نہیں۔ایمرجنسی وارڈ کے علاوہ کویڈ مخصوص آئی سو لیشن وارڈ، وارڈ نمبر3اور وارڈ نمبر7شامل ہیں، میں ساری ذمہ داری ریزیڈینٹ ڈاکٹروں اور انٹرن شپ کر نے والوں پر ڈال دی گئی ہے۔اسپتال میں چوبیس گھنٹے سنیئر وجونیئر ڈاکٹروں اور انٹرن شپ کرنے والوں کی ڈیوٹی کا باقاعدہ روسٹر بنایاجاتاہے لیکن اِس مرتبہ یہ روسٹر بھی سیاست کا شکار ہوگیا۔سیاسی و انتظامی اثر رسوخ رکھنے والے ڈاکٹروں نے روسٹر سے اپنے نام ہی باہر نکلوا دیئے یا جن کے نام روسٹر میں ہیں، بھی وہ ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہورہے اگر اُن کی غیر حاضری کا نوٹس لیاجائے تو اعتراض اُٹھانے والے کو ہی غیض وغضب کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ وہ جونیئر/ریزیڈنٹ /انٹرن شپ ڈاکٹرزجن کا بیروکریسی یا سیاسی طور کوئی سفارش نہیں کرنے والا، اُن پر ہی زورزبردستی کی جارہی ہے۔اسی وجہ سے چار ماہ خاموشی سے عہدے پر براجمان رہنے کے بعد میڈیکل کالج جموں کے پرنسپل ڈاکٹر نصیب ڈگرہ نے ایک پریس کانفرنس کر کے سب کچھ بیان کیا، نیز اُنہوں نے ایک تفصیلی مکتوب لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کولکھ کر رضاکارانہ طور سبکدوش ہونے کی پیشکش کردی اور کہاکہ میرے دفتر کوہرمعاملہ میں بائی پاس کیاجارہاہے اور نہ ہی میرے سنی جارہی۔تعلیم اور صحت شعبہ کی صورتحال کسی بھی قوم کی ترقی وخوشحالی کی ضامن ہوتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کو اِس نازک صورتحال میں بھی بہتر بنانے کی بجائے جس طرح سیاست کا شکار بنادیاگیا وہ نیک شگون نہیں۔اگر ایک ریاست اپنی رعایہ کو با اعتماد اور محفوظ صحت خدمات بہم پہنچا نہیں سکتی تو اُس سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ لوگ گھر میں ہی گھٹ گھٹ کر مرنے کو ترجیحی دیتے ہیں لیکن اسپتالوں میں جاکر وہ ڈاکٹروں کے استحصال کا شکار نہیں ہونا چاہتے ۔ مریضوں کو سرکاری اسپتالوں پر سے مکمل اعتماد اُٹھ گیا ہے، اسپتال اب ’زندان‘اور ڈاکٹر قصاب لگ رہے ہیں۔
بخشی نگر اسپتال کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے حالات مزید ہی بگڑ چکے ہیں۔کویڈ مریضوں کے لئے مخصوص وارڈوں میں عملہ کی عدم دستیابی سے کورونا اموات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا۔کورونا مریض میں اکثر کی تعداد ایسی ہے جوپہلے ہی دو تین امراض کا شکار ہیں اور اُن کا علاج چل رہا ہوتا ہے۔ پازیٹو آنے کے بعد انہیں مناسب دیکھ ریکھ نہ مل سکی۔ مثلاً آکسیجن کی مطلوبہ سپلائی، دیگر امراض کی وقت پر دوا، کھانا وغیرہ نہ ملنے سے اموات زیادہ ہوئیں۔کویڈمریضوں کے پاس اہل خانہ میں سے تیمارداری کے لئے بھی جانے نہیں دیاجاتا ، سارا انحصار نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف پر ہے جوکہ کورونا کے خوف سے اندر جانے کو تیار نہیں۔ گذشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں علاج کی گذارش کرنے پر نرس اور ڈاکٹردوربھاگ رہے ہیں۔ پچھلے دنوں جموں میڈیکل کالج میں آکسیجن کی سپلائی بند ہوگئی جس سے کئی مریض چل بسے اور متعددکی حالت نازک بن گئی۔خاص طور سے آئی سو لیشن وارڈ، ایمرجنسی یونٹ، آئی سی یو اور سی سی یو میں آکسیجن کی عدم دستیابی سے اُتھل پتھل مچ گئی اور وہاں پر مریضوں کا منظر انتہائی بھیانک تھا۔اس صورتحال کی بڑی وجہ روسٹر پر عملدرآمد نہ ہونا ،سٹاف اور مطلوبہ سہولیات کی کمی بھی ہے ۔جی ایم سی میں موجودہ آکسیجن پلانٹ کی صلاحیت صرف1200ایل پی ایم ہے جبکہ اِس وقت 6000سے زیادہ کھپت ہورہی ہے اس لئے 400سے500سلنڈرز روزانہ مارکیٹ سے خریدنے پڑ رہے ہیں۔ سی ڈی اسپتال، سائی کیٹریک اسپتال میں کوئی آکسیجن پلانٹ نہ یں، جبکہ ایس ایم جی ایس اسپتال جموں میں بھی آکسیجن کی قلت ہے جہاں پر500ایل پی ایم صلاحیت ہی دستیاب ہے۔ حکومت ِ ہند نے رواں برس مارچ اور اپریل میں 156وینٹی لیٹرز فراہم کئے تھے جس میں سے 33ایچ آئی سی وارڈ میں نصب کئے گئے ہیں جبکہ 76بھی غیرفعال ہیں۔ آنے والے دنوں میں دو لیکوڈ آکسیجن پلانٹ اور 4500ایل پی ایم صلاحیت والے آکسیجن پلانٹ کی تنصیب زیر غور ہے لیکن اِس پر کب عمل ہوتا ہے، کچھ کہانہیں جاسکتا۔
جموں میڈیکل کالج میں 338گزیٹیڈ اور 1736پیرا میڈیکس کی آسامیاں خالی ہیں۔ جی ایم سی اور ایسو سی ایٹ اسپتالوں میں منظور شدہ گزیٹیڈ آسامیاں870ہیں جن میں سے 532ہی دستیاب ہیں۔ اسی طرح نرسوں اور پیرامیڈیکل سٹاف نان گزیٹیڈ کی کل 4591پوسٹیں ہیں جس میں سے 1736خالی ہیں۔ فیکلٹی ممبران کی تعداد350ہے جس میں سے 215 ہی دستیاب ہیں۔ مختلف شعبوں میں فیکلٹی ممبران کی منظور شدہ 83پوسٹوں میں سے 24ہی دستیاب ہیں۔ سپراسپیشلٹی اسپتال میں 59آسامیاں خالی ہیں اور صرف 24دستیاب ہیں۔ 89میڈیکل افسران، کنسلٹنٹ، سی ایم او اور آر ایم او دستیاب ہیں جبکہ 56میڈیکل افسران کی آسامیاں خالی ہیں۔ میڈیکل افسران کا اسپتال کا ایمرجنسی یونٹ چلانے میں اہم رول ہے۔ میڈیکل افسر کنٹرول روم کا عہدہ بھی خالی پڑاہے۔
جموں میڈیکل کالج پورے صوبہ جموں کے دور دراز علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے مریضوں کی آخری اُمید ہے۔اگر چہ کٹھوعہ، ڈوڈہ، اودھم پور اور راجوری میں میڈیکل کالج اینڈ اسپتال قائم کئے گئے ہیں لیکن یہ صرف چند ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکل سٹاف وغیرہ کی بازآبادکار ی سے زیادہ کچھ بھی نہیں، مریضوں کو ابھی تک اِن میڈیکل کالجوں کا کوئی فائیدہ نہیں پہنچا ہے، نازک مریضوں کو فوری طور بخشی نگر جموں ریفر کر دیاجاتاہے اور یہاں کیا حالت ہے، وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی، جنہیں اِس کا تلخ تجربہ ہے، کبھی اُن سے دریافت کریں تو آپ کے سامنے خوفناک تصویر آئے گی۔آپ حیران ہوں گے کہ جی ایم سی جموں میں رواں برس مارچ سے اب تک بڑی تعداد میں ڈاکٹرز بھی کورونا مثبت پائے گئے لیکن سبھی نے کٹرہ میں موجود نجی اسپتال میں کورونٹائن ہونے کو ترجیحی دی، پچھلے دنوں ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز جموں بھی کورونا پازیٹیو آئیں تو انہوں نے بھی فوری کٹرہ کا ہی رُخ کیا۔ لاکھوں روپے خزانہ عامرہ سے ماہانہ تنخواہیں لینے والے جی ایم سی میں تعینات ڈاکٹروں کو ہی خود اس ادارے پر اعتماد نہیں کہ وہ یہاں بچ نہیں سکتے تو عام مریض کا کیا ہوتا۔ کیوں عام مریضوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیاجارہاہے۔یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کیوں کورونا کے نام پر لوٹ کا بازار گرم کر کے رکھاگیاہے۔ اگر آپ یہاں مریضوں کی مناسب دیکھ ریکھ نہیں کرسکتے تو واضح کر دیں کیونکہ عام مریضوں کے لئے اسپتال کو زندان بناکر رکھ دیاگیاہے۔
مہلک وباءکویڈ19کا اب تک کوئی علاج نہیں، روس ، چین ، امریکہ یا دیگر ممالک میں جو ویکسین تیار کی گئی یا ابھی آزمائشی مرحلہ میں ہے، اُس کی ہمارے ہاں مارکیٹ میں دستیابی ابھی بہت دور کی بات ہے۔ فی الحال اِس کا علاج احتیاط اور متاثرہ شخص کی مناسب دیکھ ریکھ ہے۔وہ کورونا مریض جنہیں سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے، کو آکسیجن دینا ہوتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ مقدار میں آکسیجن چاہئے، صرف ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو یہ دیکھ ریکھ کرنی ہے کہ آکسیجن مل رہا ہے یا نہیں، علاوہ ازیں کورونا متاثرین جو دیگر امراض میں مبتلا ہیں، کوادویات وغیرہ وقت پر دی جائیں۔ صرف اتنا کام ہے لیکن یہ ہونہیں رہا۔
صرف میڈیکل کالج جموں ہی نہیں بلکہ بیشتر سرکاری اسپتالوں کی حالت یہی ہے،جہاں لاقانونیت اور بدنظمی عروج پر ہے۔ کورونا کے نام پر بے ضمیروں ، لالچ اور ہوس کے پجاری اپنی جیبیں بھرنے میں مگن ہیں۔ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامی کی آپسی رسہ کشی، سیاسی وبیروکریسی عمل دخل کا راست خمیازہ مریضوں کو بھگتنا پڑ رہاہے۔ ہم اگر ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہ سوچتے رہیں کہ یہ نظام بہتر ہوجائے گی، تو یہ احمقانہ بات ہوگی۔ سول سوسائٹی، تعلیم یافتہ نوجوانوں، سیاسی وسماجی کارکنان اور ذی شعور افراد کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ہم نے مارچ اور اپریل ماہ میں ریلیف تقسیم کاری کی خوب پبلسٹی کی، اُس کے بعد ایک ماہ تک کورونا وائریرز سرٹیفکیٹ لینے دینے کا عمل جاری رہا لیکن اب خاموشی اختیار کر لی گئی۔اگر ہم واقعی کورونا وائرز کہلانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہئے کہ اپنے اپنے علاقہ میں موجود سرکاری اسپتالوں کا رُخ کریں وہاں پر رضاکارانہ طورکچھ وقت گذار کر مریضوں کی مدد کریں۔ اسپتال احاطہ میں صفائی ستھرائی کر دیں۔ زیر علاج مریضوںکی وقت پر دوائی، کھانا دینے میں مدد کردیں، مریضوں کو اُٹھنے اور چلنے میں تھوڑی مدد کردیں، حوصلہ افزائی کریں۔یہ عظیم کار ِ خیر ہے۔ہمیں اِس حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ نظام بہت زیادہ بگڑا ہے، اِس میں نیچے سے لیکر اوپر تک خرابی ہے۔ اگر دو مخلص ہوکر کام کر رہے ہیں تو چار اِس میں بگاڑ ڈالنے والے بھی ہیںلیکن تنقید، الزام تراشی،نکتہ چینی سے کچھ ہونے والا نہیں، ہمیں چاہئے کہ انفرادی طور ہم جوکچھ تھوڑا بہت اِس نظام میں بہتری کے لئے کرسکیں و ہ کریں۔اس وقت اسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ ریکھ کی زیادہ ضرورت ہے جس میں ہمیں رضاکارانہ طور اپنی خدمات فراہم کرنی چاہئے۔آپ کر کے دیکھیں اچھا محسوس کرو¿ گے، قلبی سکون ملے گا!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

فون نمبر:7006541602
ای میل:[email protected]
لسانہ، سرنکوٹ ،پونچھ