جموں وکشمیر میں اُردو کی انفرادی حیثیت ختم ،بل پرپارلیمنٹ کی مہر ثبت

جموں وکشمیر میں:اب ’اُردو وانگریزی کے علاوہ کشمیری، ڈوگری اور ہندی میں سرکاری کام کاج ہوگا‘
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر میں اُردو، انگریز ی کے علاوہ کشمیری، ڈوگری اور ہندی کو سرکاری زبانیں قرار دینے سے متعلق بل کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے منظوری دے دی ہے۔اس بل کے ساتھ ہی جموں وکشمیر میں اُردو زبان کی انفرادی حیثیت ختم ہوگئی ہے جس کو مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1889میں سرکاری زبان کا درجہ دیاتھا اور یہ گلگت بلتستان، لداخ اور جموں وکشمیر میں رابطے کی زبان تھیں۔22کو بل لوک سبھا اور 23ستمبر کو راجیہ سبھا سے بل پاس کیاگیا۔بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ جموں وکشمیر حکومت گوجری، پہاڑی اور پنجابی زبانوں کو ادارہ جاتی میکانزم جیسے کے ریاستی اکیڈمی برائے فن وتمدن اور لسانیات کے ذریعے فروغ دینے کے لئے اپنی کوششیں تیز کریگی۔لوک سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ جی کرشن ریڈی نے کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام کا مطالبہ ہے کہ وہ جس زبان میںبات کرتے ہیں اسے سرکاری زبان ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ ”جموں و کشمیر میں53.26 فیصد لوگ کشمیری اور 26.64 فیصد ڈوگری بولتے ہیں جبکہ اُردو جوسرکاری زبان ہے کو بولنے والوں کی تعداد صرف 0.16 فیصد ہے۔انہوں نے کہاپچھلے 70 سالوں سے اُردو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان بنی ہوئی ہے جس کو بقول اُن کے بولنے والوں کی تعداد محض 0.16فیصد ہے جبکہ 2.36 فیصد آبادی ہندی بولتی ہے۔بل میں کہا گیا ہے ’اردو اور انگریزی کو سرکاری کام کاج کے لئے محفوظ کرتے ہوئے جموں وکشمیر میں زیادہ بولی جانے والی زبانوں کو بھی سرکاری زبان کی حیثیت دینے کے لئے یہ قانون پارلیمنٹ میں لانا ناگزیر بن گیاتھا۔بل میں کہاگیا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر گزیٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ وضع کرسکتے ہیں کشمیری ، ڈوگری ، اردو ، ہندی اور انگریزی زبانیں سرکاری زبانیں ہوں گی اور اِن کا کہاں کہاں اور کیسے استعمال ہوگا۔ اس بل میں یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ انگریزی زبان کا استعمال ان انتظامی اور قانون سازی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ، جس کے لئے اس ایکٹ کے آغاز سے پہلے ہی اسے استعمال کیا جارہا تھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یونین ٹیرٹری کی قانون ساز اسمبلی میں کاروبار کو یونین ٹیریٹریری کی سرکاری زبان یا زبانوں میں لیا جائے گا۔نئے بل کے ذریعے لیفٹیننٹ گورنر ، یونین ٹیریٹری کے ایڈمنسٹریٹر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ گوجری ، پہاڑی اور پنجابی زبان کو فروغ دینے کے لئے ضروری اقدامات کریں۔اب یہ بل پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں غور اور پاس کرنے کے لئے پیش کیا جائے گا جس کے بعد یہ صدر کی منظوری کے لئے بھیجا جائے گا۔لوک سبھا میں بل پر نیشنل کانفرنس کے جسٹس حسنین مسعودی اور مرکزی وزیر مملکت ڈاکٹر جتندر سنگھ نے بولا۔ حسنین مسعودی نے بھرپور مخالفت کی جبکہ ڈاکٹرجتندر سنگھ نے بل کا دفاع کیا۔ بدھ کو راجیہ سبھا میں بل پیش کیاگیاوہاں بھی اِس کو باآسانی پاس کردیاگیا۔اُردو کی انفرادی حیثیت ختم کئے جانے سے محبان اُردو مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو پورے میں برصغیر میں ہی نہیں بلکہ بین الاقومی سطح پر رابطے کی زبان ہے۔یہ زبان سمجھنے اور پڑھنے میں بالکل آسان اور سہل ہے۔اس کے علاوہ اس زبان میں مذہبی رواداری اور آپسی ہم آہنگی ملتی ہے اور جموں وکشمیر میں اردو اس حوالے خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس کو سرکاری زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے اگر چہ سرکاری دفتروں اور تعلیمی اداروں میں اس زبان کا جنازہ نکالنے پر شاہی گدیوں پر بیٹھے افسران تلے ہوئے تھے تاہم آج بھی عدالتوں اور محکمہ مال،پولیس ودیگر محکمہ جات میں اردو زبان کو بروئے لایاجاتا ہے۔جبکہ اردو سرکاری زبان ہونے کے علاوہ اس خطے کے ہر گھر کی آواز اور زبان بن چکی ہے۔کیونکہ نئی نسل کے بچوں میں اکثریت اردو میں ہی بات کرتی ہیں۔اگر چہ سرکاری دفتروں میں انگریزی زبان اردو پر غالب آئی تھی تاہم سرکاری زبان کا درجہ ہونے پر محبان اردو اپنی آواز بلند کرتے رہتے تھے۔پانچ زبانوں کو سرکاری قرار دینا کسی المیہ سے کم نہیں ۔خیال رہے کہ رواں ماہ کے پہلے ہفتہ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی کابینہ نے مسودہ کو منظوری دی تھی جس کے بعد جموں وکشمیر میں پہاڑی، گوجری اور پنجابی بولنے والے افراد کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کیاگیا اور مانگ کی گئی کہ اِن زبانوں کو بھی فہرست میں شامل کیاجائے۔ کئی سیاسی جماعتوں اور لیڈران نے بھی لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ اور حکومت ِ ہند کو یادداشتیں بھیجیں، پریس کانفرنسیں، احتجاجی مظاہرے، دھرنے اور دستخطی مہمیں بھی چلائی گئیں لیکن مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے میں کسی قسم کا کوئی بھی رد و بدل کئے بغیر مسودہ قانون کو جوں کا توں پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا۔