عطیہ خون ، صدقہ جاریہ ، آپ بھی اِس کاِرخیر کا حصہ بنیں

Altaf Hussain Janjua

عطیہ خون ، صدقہ جاریہ
آپ بھی اِس کاِرخیر کا حصہ بنیں
الطاف حسین جنجوعہ
17ویں صدی کے ابتدائی سالوں میں خون کو متعدد امراض کے لئے تھیراپی کے طور استعمال کیاجاتا تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں نے اِس یہ کھوج لگانے میں کامیابی حاصل کر لی کہ خون نہ صرف دل اورشریانوں کے ذریعے جسم کے اعضاءمیں گردش کرتا رہتا ہے بلکہ کسی بھی انسان کو شدید بیماری ، سرجری اور حادثاتی صورتحال میں خون، پلازما، وائٹ سیل کی صورت میں فائیدہ مند ہے ۔خون انسانی جسم کا ایک لازمی جز ہے، ۔رگوں میں دوڑتے خون سے انسانی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی ہے۔ یہ احساس شدت سے اُس وقت ہوتا ہے جب کسی بیماری یا حادثے کی صورت میں ہمارے کسی پیارے کو اچانک خون کی ضرورت پڑ جائے۔ ایسے میں رضاکارانہ خون عطیہ کرنے والے افراد کا کردار کسی فرشتے سے کم نہیں جو کسی نفع ،نقصان اور رشتے کے بغیر اپنا خون دے کر ایک انسانی زندگی کو بچاتے ہیں، کسی بیمار کو خون دینا ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں شعور اور آگاہی کے لئے 2004کے بعد سے ہرسال 14جون کو عطیہ خون کا عالمی دن منایاجاتاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے پر آمادہ کیاجائے اور قیمتی جانیں بچائی جاسکیں۔یہ دن سائنس دان کارل لینڈسٹائنر کے جنم دن کی یاد میں منایا جاتا ہے جنہوں نے عطیہ خون کو ایجاد کرنے میں ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔شروع میں جانوروں سے جانوروں میں خون کی منتقلی، پھر جانوروں سے انسانوں میں خون کی منتقلی کی ایجادہوئی جس دوران معلوم ہوا کہ جانوروں کا خون انسانوں کو چڑھانا مضرِ صحت ہے، پھر انسانوں کا انسانوں کو خون چڑھانے پر بھی ری ایکشن ہونے لگا، اِس کی وجہ معلوم کرتے ہوئے سائنسدانوں کو یہ کامیابی ہاتھ لگی کہ خون کے الگ الگ گروپ ہوتے ہیں اور ایک ہی گروپ ہونے پر ہی یہ خون دوسرے شخص کے لئے محفوظ ہوسکتا ہے۔خون لینے، جمع کرنے اور منتقلی کے عمل میں پچھلی تین صدیوں کے درمیان انقلابی تبدیلی رونما ہوئی اور آنے والے وقت میں اِس میں مزید بہتری اور آسانی ہوسکتی ہے۔
سال 1628میں ماہرفزیشن ویلیم ہاروے نے خون کی گردش کو ایجاد کیا، جس کے کچھ ہی عرصہ بعد خون منتقلی کی کوشش کی گئی۔ 1965میں انگلینڈ میں خون منتقلی یعنی ’بلڈٹرانسفیوژن ‘کی پہلی کامیاب کوشش کی گئی۔ فزیشن رچرڈ لوئر نے کتوں کو دوسرے کتوں سے خون چڑھا کر زندہ رکھا۔ 1818میں جیمز بلینڈیل نے نکسیر کے علاج کے لئے انسانی خون کی کامیابی سے منتقلی کی۔ 1900میں کار لینڈ سٹر نے انسانی خون گروپ اے ، بی اور Oایجاد کئے۔ 1907میں ڈونرز اور مریضوں کے درمیان خون کی قسم اور میچنگ کی کوشش کی گئی تاکہ محفوظ خون منتقلی ہو۔ 1932میں لینن گراڈ اسپتال میں پہلابلڈ بینک قائم کیاگیا۔ 1939-40کے دوران خون تبدیل کرتے وقت ری ایکشن کی وجہ معلوم کی گئی۔ 1950کو خون جمع کرنے کے لئے ٹوٹنے والے گلاس کی بوتلوں کی جگہ پلاسٹک تھیلوں کا استعمال کیاجانے لگا۔
آج لاکھوں کروڑوں زندگیاں خون کی منتقلی سے اگر بچ رہی ہیں تو اِس کا سہرا سائنسدان کارل لینڈسٹائنر کوجاتا ہے جنہوں نے اپنی 75سالہ زندگی میں انسانیت کے لیے وہ کام کیاجو شاید آنے والے 75ہزار سال تک یاد رکھا جائے گا اور بنی نوع انسان چاہتے ہوئے بھی اُن کے کام کا بدلہ نہیں چکا سکے گی۔کارل لینڈسٹائنر 14 جون 1868 کو آسٹریا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ویانا سے حاصل کی، طبی تعلیم یونیورسٹی آف ویانا سے ہی حاصل کی۔زمانہ طالب علمی میں ہی خوارک کے خون پر اثرات اور خون کی بناوٹ کے حوالے سے ایک مضمون لکھا جو مقبول ہو گیا۔1883 سے 1891 تک کیمسٹری کی تعلیم حاصل کی اور اسی دوران اپنے پروفیسرز کی مدد سے بہت سے آرٹیکل اور کتابیں لکھیں۔ 1897 سے 1908 تک یونیورسٹی آف ویانا میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران مصلیات(Musculoskeletal,)، جرثومیاتbacteriological، سمیاتtoxicological اور مرضیات پر 6درجن سے زائد تحقیقی مکالات شائع کیے۔ ان دس سالوں میں تین ہزار چھ سو پوسٹ مارٹم کیے، 1908 سے 1920 تک پوسٹ مارٹم کے پروفیسر کے طور پر کام کیا۔
1900 میں کارل لینڈسٹائنر نے خون کے تین گروپ اے، بی اور او دریافت کیے۔ اس کا کہنا تھا کہ ایک جیسے بلڈ گروپ کو آپس میں ملانے سے بلڈ سیل تباہ نہیں ہوتے بلکہ مختلف بلڈ گروپس کو آپس میں ملانے سے خون کے خلیے تباہ ہو جاتے ہیں۔ Karl کی اس تھیوری کی بنا پر ایک ہی گروپ کے خون کو ملانے کا تجربہ 1907 میں نیویارک کے ہسپتال میں کیا گیا۔ تجربہ کامیاب ہوا اور کارل سائنسدان سے ایک انسانیت کا مسیحا بن گیا۔ اُن ہی کی تھیوری کی وجہ سے آج کی جدید سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اے بی گروپ کے انسانوں کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے اور O-Negative گروپ کے حامل افراد کسی بھی انسان کو خون دے سکتے ہیں۔ کارل کی ان کامیابیوں کے اعتراف پر انہیں 1930 میں نوبل انعام دیا گیا اور یہ 26 جون 1943 کو امریکہ کی ریاست نیویارک میں انتقال کر گئے۔
کارل لینڈسٹائنر کی موت تو 1943 میں ہوئی لیکن اقوام متحدہ نے خون کا عطیہ دینے والوں کا دن منانے کا آغاز 2004 سے کیااُن کے یومِ پیدائش پر کیا ۔ اِس دن کو منانے کا مقصد محفوظ خون اوراس کی مختلف پراڈکٹس کے متعلق آگہی دینا اور انسانیت کی بھلائی اور لوگوں کی مدد کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پرخون عطیہ کرنے والوں کا شکریہ ادا کرنا ہے۔عالمی صحت ادارہ سرکاری طور پر عوامی صحت سے متعلق آٹھ مہمات کی تشہیر کر رہا ہے جس میں عطیہ خون کا عالمی دن منانا بھی شامل ہے۔ عطیہ کیے گئے خون کی بدولت ہر سال لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔ زندگی اور موت کی کیفیت میں مبتلا مریضوں کے لیے خون کی منتقلی کے عمل نے جینے کی ایک نئی امید پیدا کی ہے، اور زندگی سے مایوس مریض خون کی منتقلی کے بعد پہلے سے زیادہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی دنیا کے بہت سے ممالک میں صحت مند اور محفوظ خون کی شدید کمی ہے اور ضرورت کے وقت محفوظ خون کا انتظام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
عالمی صحت ادارہ (WHO)کے مطابق 171رپورٹنگ ممالک میں سے 123کے پاس نیشنل بڈپالیسی ہے۔ بدولت دنیا بھر 64 فیصد ممالک میں خون کی منتقلی اور صحت کے حوالے سے باقاعدہ طور پر قانون بنا دیا گیا ہے۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ہدف مقرر کیا ہے کہ 2020 تک دنیا کے تمام ممالک اپنے خون کی ضرورت کا 100 فیصد رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں سے حاصل کر سکیں گے۔اس مقصد کے حصول کے لئے ہر سال کی ’عطیہ خون کے عالمی دن ‘کی اشتہاری مہم کو ایک نیا نام دیا جاتا ہے۔ 2012 میں اشتہاری مہم کا سلوگن ’ہر خون کا عطیہ کرنے والا ہیرو ہے۔‘ 2013 میں ”زندگی کا تحفہ دیں، خون دیں۔“ 2014 کا سلوگن تھا ”ماو¿ں کو بچانے کے لیے خون دیں۔“ 2015 کا سلوگن تھا ”میری زندگی بچانے کا شکریہ۔“ 2016 کا سلوگن تھا ”خون ہم سب کو جوڑتا ہے۔“ 2017 میں ”خون دیں، ابھی دیں اور اکثر دیں۔‘2018 میں اِس کا سلوگن ’ کسی کے لیے موجود رہیں، خون دیں، زندگی کو شیئرکریں، 2019میں ”سبھی کے لئے محفوظ خون تھا اور امسال یعنی2020 عطیہ خون کا عالمی دن ”خون دیں اور دنیا کو ایک صحت مند مقام بنائیں“موضوع ہے۔
سال 2016کو مرکزی وزارت صحت وخاندانی بہبود کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں 12ملین یونٹ درکار خون کے برعکس 0.9ملین یونٹ خون عطیہ ہوا ۔ جہاں تک عالمی صحت ادارہ کے 2020تک سوفیصدرضاکارانہ طور خون عطیہ پر کرنے والوں سے حاصل کرنے کا ہدف کا سوال ہے تو اُس تناظر میں جموں وکشمیر ابھی کافی پیچھے ہے۔کشمیر صوبہ میں جہاں بڑے پیمانے پر خون عطیہ کیاجاتا ہے ، وہیں جموں میں رضاکارانہ طور پر خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد بہت ہے۔ اگر چہ اس ضمن میں کئی تنظیمیں کیمپ بھی منعقد کرتی ہیں تاکہ لوگوں میں بیداری عام کی جائے ۔گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ اسپتال بخشی نگر جموں اور زچہ بچہ اسپتال شالیمار جموں میں روزانہ درجنوں مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر خون درکار ہوتا ہے لیکن یہ دستیاب نہیں ہوتا۔ ایکسچینج کی سہولت دستیاب ہے مگر خون ہی دستیاب نہیں ہوتا کہ دیاجائے۔شالیمار اسپتال میں کسی بھی حاملہ خاتون جس کا آپریشن کرنا درکا ہے، سے ہر حال میں خون پہلے جمع کرنے کو کہاجاتاہے، دور دراز علاقہ جات سے آنے والے افراد کے لئے اِس کا انتظام کرنا بہت مشکل ہوتاہے، اگر اہل خانہ یا رشتہ دار نے دے دیاتونہیں تو بہت مشکل سے گذرنا پڑتاہے۔یہی صورتحال کم وبیش سبھی اسپتالوں کی ہے۔ جموں وکشمیر میں ہزاروں سرکاری ونجی اسپتال ہیں لیکن صرف 34اسپتالوں میں لائسنس/رجسٹرڈ شدہ بلڈبینک ہیں جن میں جموں صوبہ میں16اور کشمیر میں18ہیں، اسی طرح خون جمع کرنے یعنی بلڈسٹوریج سینٹر کی تعداد محض26ہے جوکہ بیشتر سب ضلع اسپتالوں میں ہیں۔
شہر وقصبہ جات میںبلڈ ڈونرز کی تعداد دیہات کے برعکس زیادہ ہے، اِس کی بڑی وجہ عطیہ خون سے متعلق حدشات ہیں، گاو¿ں دیہات میں لوگوں میں یہ تاثر عام ہے کہ خون دینے سے آدمی کمزور ہوجاتا ہے، پھر اِس خون کی بھرپائی نہیں ہوپاتی۔گاو¿ں میں اگر کسی شخص کو خون درکار ہوتو اُن کے اہل خانہ، رشتہ دار صحت مند ہونے کے باوجود عطیہ خون سے کتراتے ہیں اور اُن کی یہ کوشش رہتی ہے پیسے دیکر خون لیاجائے ، مگر پیسوں سے خون مل جائے یہ ہر وقت ممکن نہیں ہوتا، دیہات میں لوگ جسمانی طور کافی صحت مند ہوتے ہیں لیکن غلط فہمیوں، تحفظات اور حدشات کی وجہ سے وہ خون عطیہ کرنے کے معاملہ میں وہ ذہنی طور بیمار ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ گاو¿ں سطح پر عوام میں اِس حوالہ سے بڑے پیمانے پر بیداری پھیلائی جائے۔خون عطیہ کرنا ایک بہترین نیکی ہے ،ایسا کرنے سے کئی لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں ۔دنیا میں ہر لمحے کوئی نہ کوئی شخص ایسا ضرور ہوتا ہے جسے اپنی زندگی بچانے کے لیے خون کی ضرورت پڑتی ہے، ایسی صورتحال میں جب کوئی شخص خون کا عطیہ کرتا ہے تو یہ متاثرہ شخص کی زندگی میں اُمید کی کرن بن کر آتا ہے۔بنیادی طور پر کم سے کم 18برس کی عمر سے خون کا عطیہ دیا جاسکتا ہے۔عام طور پر خون عطیہ کرنے سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے لیکن خون دینے کے بعد ہر کسی کی صحت پر چند اثرات پڑتے ہیں جس میں تھکاوٹ شامل ہے کیونکہ خون دینے سے جسم میں آئرن کی معمولی مقدار کم ہوجاتی ہے جو کہ بعد ازاں وقت کے ساتھ ساتھ ٹھیک ہوجاتی ہے۔ماہرین کے مطابق خون عطیہ کرنے کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ آپ کسی کی جان بچانے کا سبب بن رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ خون کا عطیہ کرنا خون دینے والے کی اپنی صحت کے لیے بھی بہترین ثابت ہوتا ہے۔
اِن دنوں کورونا مریضوں کی صحت یابی کے لئے پلازما تھیراپتی کا استعمال کیاجارہاہے۔پلازما تھیراپی میں کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے شخص سے خون حاصل کیا جاتا ہے اور پھر اس میں سے علیحدہ کیے گئے پلازما کو تشویشناک حالت کے مریض میں منتقل کیا جاتا ہے۔پلازما دراصل خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔ پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں۔اینٹی باڈیز کے حامل پلازما کی منتقلی سے بیمار شخص کو مرض سے لڑنے کے لیے ‘غیر فعال مدافعت’ فراہم کی جاتی ہے۔ اس عمل کے مو¿ثر ہونے میں چند ہفتے، یہاں تک کہ مہینے بھی لگ سکتے ہیں۔واضح رہے کہ خون میں 55 فیصد پلازما ہوتا ہے۔ پلازما کا نوے فیصد حصہ پانی ہوتا ہے۔ یعنی اس میں صرف دس فیصد اینٹی باڈی ہوتی ہیں۔جو مریض کورونا سے صحت یاب ہوئے ہیں، وہ بھی پلازما عطیہ کرکے دوسروں کی بھی زندگیاں بچائیں۔ ٍ
دنیا میں ہرشخص کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ دو عظیم اور نایاب نعمتیں ہیں،جو وہ اگردوسروں کو دے تو اُن کی دنیا بدل سکتی ہے۔ اِ ن کا تعلق کسی کی امیری، غریبی، خواندگی یا خواندگی سے نہیں بلکہ اُس کی سوچ اور ضمیر پر منحصر ہے۔یہ ہیں ”عطیہ خون اور دعا“۔یہ نعمتیں ہرشخص کے پاس موجود ہوتی ہیں، اگر آپ یہ دوسروں کو دیتے ہیں تو آپ کو قلبی سکون ملتا ہے ، نیز آپ بھی صحت مند رہتے ہیں، اس لئے جب بھی موقع ملے عطیہ خون کریں، دوسروں کو دُعائیں بھی دیا کریں۔ یہ دو عظیم نعمتیں آپ کو اللہ کی طرف سے ملی ہیں جن کا استعمال آپ کے حد ِ اختیار میں ہے، اِ ن کا انسانیت کے لئے استعمال کریں۔ کسی بھی ضرورتمند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے، جبکہ کسی دوسرے انسان کی مدد سے قدرت الٰہی کی جانب سے قلبی سکون و راحت حاصل ہوتی ہے اور انسان ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے نجات پاتا ہے۔اِس کارخیر میں خود بھی حصہ لیں، دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دیں اورعطیہ خون کرنے والوں کا شکریہ ادا کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کالم نویس پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں
7006541602
ای میل:[email protected]