ہماری زندگی فریج !

ہماری زندگی فریج !
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
ایک دوست سے ’مادیت ‘اور ’انفرادیت ‘پر گفتگو ہورہی تھی ۔معاشرے کا ’ماضی سے حال ‘کاموازنہ کرتے ہوئے دوست نے کہاپہلے مکان کچے تھے مگر دل پکے تھے، ایکدوسرے کے لئے احساس،پاک جذبات ، ہمدردی، شفقت ، محبت، عزت اور احترام تھا، اپنے اور بیگانے میں فرق کرنا مشکل تھا، خوشی تھی، سکون تھا، احساسِ تحفظ تھا،بھروسہ ، اعتماد،اخلاص، صدق دلی تھی۔مگر آج اُ س کے اُلٹ ہوگیا ہے، یہ خصوصیات ہمارے معاشرے سے غائب ہوتی جارہی ہیں، غیروں میں تو دور آج جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں ، اُن میں بھی یہ ساری اچھائیوں موجود ہوں، ممکن نہیں۔دوست کی بات سے اتفاق رکھتے ہوئے میں نے کہا”ہاں بجا فرمایا آ پ نے پہلے بغیر مطلب کے رشتے وتعلقات ہوتے تھے، آج بنا مطلب ہم کسی سے علیک سلیک کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے ، کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ زیادہ دیر بات کی تو وقت ضائع ہوجائے گا، اِس شخص سے ویسے بھی کچھ ملنا نہیں۔پہلے گھر میں بڑھے بزرگوں کا خاص مقام ومرتبہ ہوتا تھا، آج بزرگ گھروں میں قیدِ تنہائی کی زندگی جینے پر مجبور ہیں، کیونکہ اُن کی اولادیں یا پوتے پوتیاں الگ الگ کمروں میں موبائل فون یا ٹیلی ویژن چینلوں پر ٹِک ٹیکاں لگائے ہوتے ہیں۔پہلے دادی ماں کی کہانی سننے کے لئے بے صبر ی سے انتظار ہوتا تھا، آج تویوٹیوب پر سب کچھ دستیاب ہے، دادی یا نانی سے کہانی سنُنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔انسان بہت بدل گیا، بیشتر مکانات پکے اور دل کچے ہوگئے، آج احساس، دلی محبت واحترام اور عزت صرف گاو¿ں د یہات کے چند کچے مکانات تک سمٹ کر رہ گیاہے۔
آج ہرکوئی ہرمعاملہ میں خود انحصار ہونا چاہتاہے، اِس خود انحصاری کے جنون نے ہمارے گھروں میں ضرورت کی ہرآسائش کا انبارلگادیاہے مگر انسانی جذبات ہم سے چھین لئے ہیں،ہم نے اعلیٰ شان مکانات، مہنگی سے مہنگی گاڑی، گھر میں آسائش کی ہرچیزیں، برینڈیڈ ملبوسات وگھریلوسازوسامان میںخوشی سے جوڑ دیا ہے، ہم یہ سب پاکر خوش ہونا چاہتے ہیں، مگر یہ ملنے کے بعد بھی ’احساسِ مسرت واطمینان‘ نہیں ہوتا۔آج سے تقریباً25سے تیس برس قبل تک یہ رواج عام تھا کہ گاو¿ں ودیہات میں خوشی غمی اور سماجی تقریبات، زرعی سرگرمیاں، فصلوںکی بیجائی وکٹائی اور اُس کو جمع کرنے کے مواقعے میلوں میں تبدیل ہوجایاکرتے تھے۔کسی کے پاس بھی سب کچھ نہ ہوتاتھا، کسی کے پاس کھیتی باڑی کے اوزار، کسی کے پاس کُرسیاں، فرنیچر، کسی کے پاس کھانے پکانے کے برتن، تو کسی کے پاس اضافی بستر ہوتے تھے جنہیں ہم ضرورت پڑنے پر ایکدوسرے سے مانگتے تھے، یہاں تک کہ ماچس کی معمولی سی ڈبیہ بھی کبھی کبھار نہیں ہوتی، تو خشک گھاس یا پتوں میں لپیٹ کر پڑوس کے گھر سے آگ لاکر چولہاجلایاجاتاتھا،چائے، چینی، نمک، آٹا چاول بھی ہم پڑوس سے مانگنے جاتے تھے جوکہ پڑوسی ہمیں خندہ پیشانی سے خوشی خوشی دیتے، ساتھ ہی خیروعافیت دریافت کرتے، ساتھ اگر گھر میں کوئی اچھی چیز پکی ہوتی ، وہ بھی دے دیتے تھے،مطالعہ کے لئے کچھ دنوں پر ایکدوسرے سے کتابیں بھی لاتے تھے، لیکن کیاآج بھی آپ ایساسوچتے ہیںتو پھر یہ سب دیکھنے کے لئے آپ کو کافی تلاش وبیسار کرنی پڑے گی، شاہد کسی جگہ ایسا ہوتا مل جائے۔آج پہلے تو آپ کسی کے ہاں کوئی چیز مانگنے جانا بے عزتی سمجھیں گے اگر مجبوری میں چلے بھی گئے تو اول توسرے سے انکارسننا پڑے گا، اگر کسی نے کوئی چیز دے دی تو ساتھ ہی یہ بات بھی نصیحت کے طور پر کہہ دے گا کہ یہ چیز تو بازار میں آسانی دستیاب ہے، اِس کی قیمت بھی کم ہے، اِس کو خرید ا کیوں نہیں، بار بار ضرور ت پڑیگی۔ یہ جملہ کہتے وقت جولہجہ استعمال کیاگیاہوگا اُس سے طعنہ اور نیچا دکھانے کا اثرواضح طور ظاہر ہوجاتاہے۔گاڑی گاو¿ں میں بمشکل کسی ایک کے پاس ہوتی تھی یا ایک دوگاو¿ں چھوڑ کر کسی کے پاس،اگر رات کے وقت کوئی بیمار ہوجائے تو اُس کو دور لے جانا پڑے تو چاہئے دو گاو¿ں دور ہی کیوں نہ ہو، وہاں سے وہ پیغام ملنے پرگاڑی لیکر آجا تے تھے، آج ماشا اللہ گاو¿ں میں چند گھروں کو چھوڑ کر بیشتر کے پاس اپنی نجی گاڑیاں ہیں، آپ بیمار ہوجائیں منت وسماجت کرنے پر کوئی نہیں جائے گا، کبھی تیل نہ ہونے ، کبھی گاڑی کا کچھ اور خراب ہونے کا بہانہ کر کے انکار کر دیں گے۔
وقت گذرا تو سرمایہ داروںنے دنیا بھر میں ہرقسم کے ذرائع ابلاغ کاحکمت عملی سے عالمی، ملکی، ریاستی وعلاقائی مسائل کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ذہنیت اور سوچ کو ہمارے ذہنوں میں ڈال دیاکہ ہرچیز ہمارے گھر میں ہونی چاہئے،اووزار، فرنیچر،گاڑی، کتابوں کی پوری لائبریری، طرح طرح کے برتنوں کا پورا اسٹورہمارے پاس موجود ہوں ،پہلے ہمیں ایکدوسرے سے چیز یں بانٹ کر خوشی محسوس ہوتی تھی مگر آج ہم دوسرے کو انکار کے ساتھ دو چارباتیں سنناشرمسار کرنے میں خوشی تلاش کرتے ہیں،اس قدر ہمیں لالچ ہوگئی ہے کہ ہمارابس چلے تو سب کچھ خرید کر گھر لے آئیں،کتابوں کی لائبریری ہے ہمارے پاس مگر ہم کسی کو پڑھنے کے لئے دینا نہیں چاہتے۔مادیت پسندی کے شکار آج کے انسان میں ،ہر طرح کی آسائش وسہولیات کے لئے سامان کی ذخیرہ اندوزی کے رحجان نے حقارت، تعصب، بغض ، کینہ، نفرت، حسد،لالچ، ہوس، دشمنی، برائی ،غیبت، ریاکاری، بے حیائی،نمودونمائش، بے راہ روی جیسے بیماریوں کو جنم دیا ہے جس سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں جو’اشرف المخلوقات‘ہونے کا رُتبہ دیاتھا، وہ بھی تنزلی کا شکارہوتاجارہے۔کئی معاملات میں ہم جانوروں سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں۔
اِن سب سے بڑی ’فریج‘کی ایجاد نے تو ہماری زندگی میں انقلاب ہی بپا کر دیا۔ پہلے ہم جوکھانا پکاتے تھے، وہ پڑوسیوں، اہل محلہ میں تقسیم کر دیتے تھے ، اِس سے تودوسروں کی ضرورت پوری ہوجاتی تھی، آپسی تعلقات بھی بہتر رہتے تھے اور ساتھ ہی کھانا ضائع نہیں ہوتا تھا۔ اب ہم نے فریج گھروں میں لاکر یہ سلسلہ بھی بند کر دیا، اب ہمیں کوئی فکر نہیں کہ کھانا خراب ہونے کی،سبزی، چاول، دالیں، گوشت، پھل سبزیاں، مشروبات وغیرہ ہم فریج میں ہفتوں ہفتوں تک رکھ سکتے ہیں لیکن کم بخت انسان کو معلوم نہیں کہ اُس نے جسمانی امراض تیار کرنے والی ایک مشین اپنے گھر میں آکر رکھ دی ہے جس کی وجہ سے ہم آج طرح طرح کے امراض کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ فریج میں رکھاکھانا مضرِ صحت ہوتاہے۔آپ اگر بیمار پڑ گئے تو ڈاکٹرکے پاس گئے تو وہ آپ کو یہ نصیحت ضرور دے گا کہ فریج کا کھانا پینا بند کریں، مگر ہم اِس پر دھیان نہیں دیتے۔ آج کسی کے گھر میں فریج کا ہونا اُس کا اسٹیٹس اوچا ہونے کے مترادف سمجھا جاتاہے۔
آپ یاد کریں ہم لوگ فریج سے پہلے کیا کرتے تھے، لوگ اس زمانے میں مزدوروں اور مہمانوں کو جا کر کہتے تھے آپ نے کھانے کا بندوبست نہیں کرنا‘ آپ جب تک یہاں ہیں آپ کا کھانا ہمارے گھر سے آئے گا اور وہ کھانا ہم بچے پہنچاتے تھے لیکن پھر فریج آ گئے اور ان کے آتے ہی دل چھوٹے ہو گئے‘ لوگوں نے دو نوالے بھی فریجوں میں رکھنا شروع کر دیے‘ ڈیپ فریزر آیا تو قربانیوں کا گوشت بھی رضائیاں بن گیا‘ لوگ یہ بھی چار چار ماہ محفوظ رکھنے لگے۔ماہرین معالجین اور خوراک کا کہنا ہے کہ کچھ کھانے پینے کا سامان اور پھلوں کو فریج میں نہیں رکھنا چاہئے جن میں کیلے،خربوزے،بینگن،شٹر ،آلو،مرچیں (کسی بھی قسم کی ہوں)،پیاز،انناس، آم، پپیتا ،ٹماٹر،شکرقندی،لہسن،سیب اور ناشپاتی،بریڈ،انڈے،زیتون کا تیل،انگور،کافی،شہد،بھنڈی وغیرہ شامل ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے اِن کا ذائقہ اور تازگی ختم ہوجاتی ہے ۔فریج کی ٹھنڈی ہوا اینٹی آکسائیڈنٹس کی نشوونما کو ختم کرکے رکھ دیتی ہے۔اِس کا یہ مطلب بھی نہیں ہم ا،س کا استعمال ہی کرنا چھوڑ دیں لیکن مناسب وجائز طریقہ سے جوہمارے لئے نقصان د ہ نہ ہو۔ہم اب یقیناً فریج اور ڈیپ فریزر کو اپنی لائف سے نہیں نکال سکیں گے لیکن کم از کم ایسا کرسکتے ہیں کہ ہم فریج میں کھانارکھنا ترک کر دیں ، کھانا کم پکائیں یا اگر زیادہ پکے تو اِس کو ضرورتمندوں میں تقسیم کر دیں۔اِس سے ہم فریج میں رکھنے کے بعد کھانا کھانے سے لگنے والے امراض سے بھی بچ جائیں گے، دوسروں سے جذبہ ہمدردی بڑے گا، تعلقات بہترہوں گے، ذہنی خوشی ملے گی۔ اگر ہم ایسا کرنا شروع کر دیں تو آپ کا اندازہ نہیں کتنا کچھ بد ل جائے گا لیکن ممکن نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے ذہنوں میں بھوک ہے اور دماغی بھوکے دل سے نہیں سوچتے۔پر کم سے کم اپنی زندگی کو ’فریج ‘مت بنائیں!
٭٭٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]