جموں وکشمیر عدالت عالیہ سے 33ہزار سے زائد سروس معاملات کی چندی گڑھ منتقلی!

جموں وکشمیر عدالت عالیہ سے 33ہزار سے زائد سروس معاملات کی چندی گڑھ منتقلی!
حکومت کے فیصلے پر جموں کی وکلاءبرادری چراغ پا، فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//ملازمت سے متعلق جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو چندی گڑھ سینٹرل ایڈمنسٹریٹو ٹریبونل(CAT)کے سرکٹ بنچ میں منتقل کئے جانے کے فیصلے پر وکلاءبرادری نے سخت برہمگی کا اظہار کیا ہے۔29اپریل کی شام مرکزی سرکارکی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کے بعد جموں کے وکلاءمیں غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی ہے جنہوں نے اِس فیصلے کو سراسر غلط قرار دیتے ہوئے جموں وکشمیر کے اندر بنچ قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔حیران کن امر ہے کہ دفعہ370اور 35-Aجس کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا، کی منسوخی کے لئے صدا ئے احتجاج بلند کرنے والے وکلاءنے ہی اِس فیصلے کی مذمت کی ہے جوکہ 5اگست کو خصوصی درجہ کی تنسیخ کے فیصلے کا ہی پیش خیمہ ہے۔پرسنل، پبلک گریونس اینڈ پنشن کی مرکزی وزارت نے ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونلز ایکٹ1985 کی سیکشن18کی ذیلی سیکشن(1)کے تحت حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ٹریبونلز کی لسٹ جاری کی ہے جس کے تحت چندی گڑھ بنچ میں ہریانہ، ہماچل پردیش، پنجاب، مرکزی زیر انتظام چندی گڑھ، مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیراور لداخ یونین ٹیراٹری کو رکھاگیاہے، جس کا مطلب یہ ہو اہے کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں اور سرینگر ونگ میں زیر التوا سبھی سروس معاملاتSWPاب چندی گڑھ منتقل ہوں گے، ایسے کیسز کی تعداد33ہزار ہے جن کی منتقلی کا عمل یکم نومبر2020سے جموں وکشمیر تنظیم ِ نو قانون نافذہونے کے بعد ہی شروع ہوگیاتھا۔ جموں وکشمیر بار ایسو سی ایشن کے سابقہ صدر بی ایس سلاتھیا نے کہاکہ جموں وکشمیر ریاست کو یوٹی بنانے کا سب سے زیادہ نقصان وکلاءبرادری کو ہوا ہے، اراضی دستاویزات اندراج کے اختیارات عدلیہ سے چھین لئے گئے۔ مرکزی سرکار کے سروس معاملات پہلے ہی لے لے گئے تھے، اب سروس معاملات کو CATچندی گڑھ منتقل کیاگیا جس سے وکلاءکے ساتھ ساتھ لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ چھوٹے ملازم کے لئے سروس سے متعلق معاملات کو چندی گڑھ لیجانا اور وکلاءکی فیس ادائیگی ممکن نہیں ہوگا، اس لئے بار ایسو سی ایشن کے عہدیداران کو چاہئے کہ وہ اِس پر مل بیٹھ کر حکمت عملی طے کریں، حکومت کے ساتھ زور وشور سے معاملہ اُٹھائیں۔سنیئر وکیل اور بھارتیہ جنتاپارٹی جموں وکشمیر کے ترجمان اعلیٰ سنیل سیٹھی نے کہاکہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں چالیس ہزار کے قریب سروس کیس چندی گڑھ شفٹ ہوں گے۔ہندوستان میں کل 17بنچ ہیںCAT کے جہاں مجموعی طور50ہزارکے قریب معاملات زیر التوا ہوں گے، جبکہ جموں وکشمیر کے معاملات چندی گڑھ جانے سے یہ تعداد بہت زیادہ بڑھ جائے گی جن کا نپٹارا ایک یا اس سے زاید بنچوں کے لئے ممکن نہیں ہوگا۔ اس سے حالات مزید بگڑ جائین گے۔سنیل سیٹھی نے کہاکہ جموں وکشمیر میں CATکے مستقل بنچ بنائے جائیں، کم سے کم چار بنچ ہونے چاہئے اور یہ ہائی کورٹ احاطہ میں ہے رہیں، تو زیادہ بہتر ہوگا جس سے وکلاءاور فریقین مقدمہ کو مشکلات پیش نہ آئیں۔ہائی کورٹ کے ایک اور وکیل دنیش چوہان نے کہاکہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں سب سے زیادہ سروس معاملات ہیں، جن میں ڈیلی ویجرز، صوابدیدی تعیناتی ودیگر چھوٹے چھوٹے نوعیت کے معاملات ہیں، یہاں چونکہ روزگار کا زیادہ انحصار سرکاری ملازمتوں پر ہے، اس لئے یہاں پر تقرریاں عمل میں لاتے وقت بے ضابطگیاں، دھاندلیاں اور زیادتی عام بات ہے، جس پر ہائی کورٹ نظر رکھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اب ان چھوٹے ملازمین کے لئے چندی گڑھ جانا ممکن نہیں۔ ایک جٹ جموں نامی تنظیم کے صدر اور متنازعہ ایڈوکیٹ انکور شرما نے بھی حکومت کے اِس فیصلے کو غلط قدم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر میں ہی بنچ بنایاجانا چاہئے، اگر ایسا نہیں کیاگیاتو یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی۔وکلاءبرادری میں اس فیصلے کو لیکر کافی غم وغصہ ہے، جوکہ خصوصی درجہ کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے ہیں، اُن میں سے بعض وکلاءنے سوشل میڈیا پر اس بارے اپنی رائے رکھتے ہوئے کہاکہ وہ اِس فیصلے سے خوش ہیں، جوخصوصی درجہ کے خاتمے پر جشن مناتے تھے، آج بھی جشن منائیں، جب روزگار چھین گیا۔ نوجوان وکلاءمیں اس معاملہ پر گرما گرم بحث جاری ہے جن میں سے بعض کا کہنا ہے کہ یہ حب الوطنی اور قومی مفاد کا معاملہ نہیں بلکہ اُن کے مستقبل کی بات ہے۔