محبت اور نفرت کے بازار

محبت اور نفرت کے بازار
ایڈووکیٹ شمس الدین شاز
کسی زمانے میں محبت کا بہت اچھا کاروبار ہوتا تھا اور ہر انسان بس محبت کی دوکان سے سامان خریدتا تھا اور پھر اس کاروبار میںمندی کا دور آیا اور یہ کاروبار بند ہونا شروع ہوگےا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج نفرت ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے اور محبت کی دوکانیں بند ہورہی ہیں کیونکہ محبت کی دوکان پر جانے سے جان کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ اور شہر میںمحبت کی دوکانیںاب زیادہ رہی بھی نہیںہیں اور آج ہر انسان نفرت کے بڑے بڑے وے مال سجارہاہے اور لوگوں کو بڑے بڑے آفر دے کر گرہک بنارہا ہے اور لوگ آج نفرت کی دوکانوں کی طرف زیادہ راغب نظر آتے ہیں اور لوگ کرئے بھی کیا آج شہر کے ہر چوراہائے پر نفرت کی دوکان سجی ہے محبت کی دوکانیں تو اب ہیں بھی بہت کم۔
ہر بندے کے پڑوس میں بس نفرت کی ہی دوکانیں نظر آتی ہیں اور وہ کیوں نہ وہاں جائے جب نفرت کی دوکان سے سامان سستا ملتا ہے اور ساتھ میں اخبار میں فوٹوں اور ٹی،وی پر انٹرویوں بھی یعنی © ِ ۔ آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔ اس لیے ہر انسان نفرت کی دوکانوں کی طرف زیادہ راغب نظر آتا ہے اور محبت کی جو کچھ دوکانیں ہیں بھی وہ بھی آج بند ہونے کے کہگار پر ہیں اور ہر انسان آج نفرت کا کاروبار کرنا چاہتا ہے اور اسی نفرت کے بازار میں اپنا مستقبل تلاش کررہا ہے ۔ آج ہزار کیا لاکھ میں سے ایک ہی بندہ محبت کی دوکان پر جارہا ہے کیونکہ وہاں سامان مہنگا بھی ہے اور نہ کوئی ٹی ،وی انٹرویوں نہ اخبار میں فوٹوں آتا ہے اور الٹا غریب اور بےوقوف مشہور ہوجاتا ہے اور کبھی کبھی تو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے پھر کیوں انسان پنگے لے ۔ مگر بے شک زیادہ تر لوگ نفرت کی دوکان پر جاتے ہیں اور وہاں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر پھر بھی جو چیز محبت کی دوکان سے آتی ہے اُس چیزکی کولٹی نفرت کی دوکان سے لائی ہوئی چیز سے زیادہ اچھی ہوتی ہے یعنی نفرت کی دوکان سے لائی کروڑں کی چیز بھی محبت کی دوکان سے آئی ایک روپے کی چیز کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہے اسی لیے جولوگ نفرت کی دوکان کے مستقل کرہک بھی ہوتے ہیں آخر میںوہ بھی کبھی کبھی محبت کی دوکان کی طرف چلے جاتے ہیں اور جب وہ ایک بار محبت کی دوکان پر جاتے ہیں تو وہ نفرت کی دوکان سے اپنا کھاتا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرا دیتے ہیں اور پھر اگر نفرت کی دوکان سے مفت سامان کا آفر بھی آے وہ انکار کردیتے ہیں چاہے سودہ کتنا بھی مہنگا کیوں نہ ہو جو ایک بار نفرت کی دوکان سے محبت کی دوکان پر آیا پھر وہ واپس نہیں لوٹا۔ آج شروعات ہر انسان نفرت کے کاربار سے ہی کرتا ہے مگر جب وہ اس نفرت کی گندی اور زلت بھری زندگی سے اُوب جاتا ہے اورجب بیماری لاعلاج ہوجاتی ہے تو وہ علاج کے لیے آخری وقت میں محبت کی دوکان کا ہی سہارہ لیتا ہے دراصل نفرت کے وے مال میں خوبصورت پاکٹ میں سجایا گیا سامان اصل میں گندہ اور جان لیوہ جراشیموں اوربیماریوں سے بھرا ہوتاہے جو شروع شروع میں انسان کو بہت مزہ دیتا ہے اور پھر ٓاہستہ ٓاہستہ انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور انسان کو زندگی کے آ خری وقت میں سمجھ آتی ہے اور انسان سوچتا ہے کہ کاش میںنے شروع سے ہی محبت کی دوکان

سے سامان خریدہ ہوتا تو آج پچھتانانہ پڑتا کیونکہ موت کے بعد بہت سی مشکلات آنے والی ہوتی ہیں اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ سامان کس دوکان سے خریدہ ہے محبت کی چھوٹی دوکان سے یا نفرت کی بڑے بڑے وے مال سے۔ پھر نہ کہنا بتایا نہیں۔۔۔۔۔۔۔
ایڈو کیٹ شمس الدین شاز ایڈوکیٹ جموںوکشمیر ہائی کورٹ جموں
Mob:9419155312
[email protected]