پولیس تحقیقات کا اہم جز فارنسک لیبارٹری حکومتی وانتظامی عدم توجہی کا شکار

پولیس تحقیقات کا اہم جز فارنسک لیبارٹری حکومتی وانتظامی عدم توجہی کا شکار
پولیس ہیڈکوارٹرودیگر محکموں سے بیشتر غیر تکنیکی عملہ کو لاکر خانہ پوری
انگلیوں کے نشانات، ڈی این اے، بیالوجی، دھماکہ خیز مادہ کے ماہرین کی اسامیاں کئی سال سے خالی،تجزیاتی رپورٹوں کی حصولی میںغیر ضروری تاخیر

الطاف حسین جنجوعہ
جموں//مختلف سنگین نوعیت کے جرائم کی پولیس تحقیقات میں انتہائی اہم جز مانی جانے والی ’جموں وکشمیر فارنسک سائنس لیبارٹری(FSL)‘حکومتی وانتظامی عدم توجہی کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ریاست میں اِس وقت دو فارنسگ سائنس لیبارٹریاں ہیں، ایک کشمیر اور ایک جموں میں۔اس کے علاوہ صوبہ جموں میں6اور کشمیر صوبہ میں چھ فیلڈ موبائل یونٹس بھی کام کر رہے ہیں۔ لیبارٹریوں کی تجدید کے لئے دونوں صوبوں میں ڈی این اے پروفائلنگ/کمپیوٹر/سائبر/صوتی شناخت/ویڈیوتوثیق ٹیکنالوجی وغیرہ کے لئے حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ۔ ذرائع کے مطابق جموں وکشمیر فارنسک لیبارٹری بند ہونے کے دہانے پر ہے 2020تک سارا ٹیکنیکل سٹاف اورمجموعی طور 90فیصد عملہ ریٹائر ہونے والا ہے۔ انتہائی اہمیت کے حامل اس ادارہ کی افادیت کو ہی مکمل طور ختم کر کے رکھ دیاگیاہے جس کی وجہ سے جرائم کی سائنسی بنیادوں پر تحقیقات میں رکاوٹیں حائل ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے بیشتر سنگین نوعیت کے جرائم عدالتوں میں ثابت نہیں ہوپاتے جن میں بڑی کمی ایف ایس ایل رپورٹ میں تکنیکی خامیاں ہوتی ہیں۔FSLمیں انگلیوں کے نشانات، دھماکہ خیز مادہ کے نمونے، بیالوجی اور ڈی این اے نمونوں کاتجزیہ کرنا ہوتا ہے لیکن تشویش کن امر ہے کہ اس ادارہ میں ماہرین’ایکسپرٹ‘کی تعیناتی عمل میں لانے کی بجائے پولیس ہیڈکوارٹراور دیگر محکمہ جات سے ڈیپوٹیشن پر ملازمین کو یہاں لاکر خانہ پوری کرنے کی گئی ہے۔ اس اہم ادارہ کے تئیں حکومتی غیر سنجیدگی ولاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لیبارٹری میں ڈی این اے، ایکسپلوزیو ڈیوائس، فنگر پرنٹس(انگلیوں کے نشانات)، بیالوجیکل ماہرین کی آسامیاں خالی پڑی ہیں جس وجہ سے ریاست بھر میں پولیس کا تحقیقاتی عمل بہت زیادہ متاثر ہوکر رہ گیاہے۔ فارنسک سائنس لیبارٹری میں ٹیکنیکل کام کے لئے پولیس کے پاس ماہرین نہیں۔ایف ایس ایل کے جموں یونٹ میں کئی سالوں سے بیالوجی، انگلی نشان(فنگرپرنٹ)اور ایکسپلوزیو ایکسپرٹ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں۔ دھماکہ خیز مادہ کے ماہر کی آسامی 2012اورانگلیوں کے نشانات کے ماہر کی آسامی2014سے خالی پڑی ہے۔ ان ماہرین کی عدم موجودگی کی وجہ سے جانچ کے لئے نمونوںکو سرینگر بھیجا جاتاہے جہاں سے واپس تجزیاتی رپورٹ واپس آنے میں غیر ضروری وقت لگ جاتاہے جس سے انصاف کی فراہمی نہیں ہوپاتی۔ذرائع کے مطابق ایف ایس ایل کو حکام کس قد ر غیر سنجیدہ لیتے ہیں ، اس کااندازہ اس بات سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے کہ سابقہ ڈائریکٹر جنرل پولیس نے ڈی جی پی کا عہدہ چھوڑنے سے محض ایک دن قبل اپنے تمام PSO’sکو ایف ایس ایل میں بطور خوشنودی تعینات کر دیا جوکہ کسی بھی طرح کی ماہرانہ صلاحیت کے مالک نہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت1جوائنٹ ڈائریکٹر، 10انچارج سائنٹیفک افسران اور 15اسسٹنٹ سائنٹیفک آفسران موجود ہیں جبکہ اسسٹنٹ سائنٹیفک آفیسرزکی18، ڈپٹی ڈائریکٹر کی 6اور جوائنٹ ڈائریکٹر کی ایک آسامی خالی پڑی ہیں۔ایف ایس ایل میں آدھا درجن سٹاف جموں وکشمیر پولیس کی مختلف ونگوں سے لیاگیاہے۔ ایف ایس ایل کو فیلڈ میں کیڈر نہیں بنایاگیاہے تاکہ سبکدوش ہونے پر خالی آسامیوں کی بھرتی عمل میں لائی جائے۔ 40فیصد سٹاف پولیس ہیڈکوارٹر سے لایاگیاہے جوکہ ایکسپرٹ نہیں ہے۔ نہ ہی ریاستی پولیس سربراہ اور نہ محکمہ داخلہ امور کی انچارج منسٹر(وزیر اعلیٰ)خالی پڑی اسامیوں کوپرکرنے کے تئیں سنجیدہ نہیں۔ڈائریکٹر کی اسامی ایک لمبے عرصہ سے خالی پڑی ہے۔ضابطہ فوجداری(CrPc)کے مطابق ڈائریکٹر تکنیکی مہارت رکھنے والا شخص ہونا چاہئے لیکن حکومت نے ایک کارپوریشن کے جنرل منیجر کو ڈیپوٹیشن بنیاد پر ایف ایس ایل میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائض کیا ہے جوکہ پیشہ سے سول انجینئر ہے۔اُس کی تعیناتی پر ملازمین بھی پہلے ہی اپنی ناراضگی اور تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس سوال کا جواب صر ف حکومت یا پھر پولیس سربراہ ہی دے سکتے ہیں کہ سول انجینئر ایف ایس ایل میںتحقیقاتی رپورٹ، تصویری ثبوتوں، ڈی این اے ٹسٹ مانیٹرنگ، انگلیوں کے نشانات کے ٹیسٹ کو کیسے چک کر ے گااور اگر کرے گا تو وہ کہاں تک درست اور مستند ہوں گے۔ ایف ایس ایل میں ملازمین کی سالوں سے پرموشن بھی نہیں ہوپارہی۔نان ٹیکنیکل سٹاف کو دیگر محکمہ جات سے یہاں ڈیپوٹیشن پر لایاگیاہے۔ پولیس تحقیقاتی افسران(IOs)کو قتل /پراسرااموات اور دیگر جرائم سے متعلق مقدمات میںایف ایس ایل سے پوسٹ مارٹم حاصل کرنے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں، جس سے عوام کو انصاف ملنے میں تاخیر ہوتی ہے۔ حالیہ بجٹ اجلاس کےد وران قانون ساز کونسل میںاس معاملہ کوبیشتر اراکین قانون سازیہ نے اجاگر کرتے ہوئے اپنی تشویش ظاہر کی تھی۔ بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سریندر موہن امبردار نے تو زبردست احتجاج درج کرایاتھا۔اس وقت وزیر زراعت غلام نبی ہانجورا نے یہ کہاتھا، ایف ایس ایل سے متعلق معاملہ عدالت میں ہے، اس لئے حکومت کچھ نہیں کر رہی جس پر بیشتر ممبران کونسل نے وزیر موصوف کو گھیرتے ہوئے کہاتھاکہ یہ جواب بالکل غلط ہے ۔ کورٹ معاملہ کاFSLمیں ماہرین کی تعیناتی عمل میں لانے یا دیگر جدید ترین سہولیات ومشینری فراہم کرنے سے نہیں ہے۔ حکومت جان بوجھ کر اس طرف دھیان نہیں دے رہی۔لیجسلیچرز نے حکومت سے کہاکہ جموں وکشمیر حساس ریاست ہے، جہاں پر امن وقانون کی صورتحال ہمیشہ بنی رہتی ہے، کشمیر میں آئے روز بم بلاسٹ، فدائین حملے، پراسرار اموات، منشیات وغیرہ کے جرائم رونما ہوتے ہیں، جن کی تحقیقات میں ایف ایس ایل کا رول بہت ضروری ہے۔