کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت ملے، ان کی خوشحالی کو بڑھانے کے لیے کوششیں تیز ہوں: مرمو

نئی دہلی//صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے جمعہ کو کسانوں کی غربت کی سطح کو اجاگرتے ہوئے انہیں ان کی پیداوار کی صحیح قیمت فراہم کرنے اور ان کی خوشحالی میں اضافہ کرنے کی کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔اس سمت میں حکومت کی طرف سے کئے گئے مختلف اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ مرمو نے یقین ظاہر کیا کہ ملک کے کسان سال 2047 تک ہندوستان کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے ہدف کو حاصل کرنے کے سفر میں پیش پیش ہوں گے۔ صدر جمہوریہ یہاں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کے 62 ویں کانووکیشن تقریب میں کانووکیشن سے خطاب کر رہی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کسانوں اور زراعت سے متعلق مسائل سے واقف ہیں۔ ہمارے بہت سے کسان بھائی بہن اب بھی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہمیں اس سمت میں مزید بھرپور طریقے سے آگے بڑھنا ہو گا تاکہ کسانوں کو ان کی پیداوار کی صحیح قیمت مل سکے اور وہ غربت کی زندگی سے خوشحالی کی طرف بڑھیں۔’’صدر نے کہا، ’’مجھے یقین ہے کہ جب ہندوستان سال 2047 میں ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرے گا، ہندوستانی کسان اس سفر کے سرخیل ہوں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) میں نمایاں اضافہ کیا ہے تاکہ کسان کوآمدنی کی حفاظت فراہم کی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ آرگینک فارمنگ میں اضافہ سے مٹی کی صحت بہتر ہوئی ہے۔کسان سمپدا یوجنا نہ صرف ملک میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹری کو فروغ دے گی بلکہ کسانوں کو بہتر قیمتیں حاصل کرنے میں بھی مدد دے گی اور کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ثابت ہوگی۔صدر نے کہا کہ حکومت کسانوں کی آمدنی بڑھانے، نئے زرعی طریقوں کو فروغ دینے اور ہموار آبپاشی کے نظام کی فراہمی کے لیے بہت تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے سوائل ہیلتھ کارڈ اور فصل بیمہ اسکیم کا بھی ذکر کیا۔زرعی شعبے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘‘کہا جاتا ہے کہ کسان کے ہل کی نوک سے کھینچی گئی لکیر تہذیب سے قبل کے معاشرے اور ترقی یافتہ معاشرے کے درمیان لکیر ہے۔ کسان نہ صرف دنیا کو خوراک فراہم کرنے والے ہیں بلکہ حقیقی معنوں میں زندگی فراہم کرنے والے بھی ہیں۔محترمہ مرمو نے کہا کہ ہندوستان میں غذائی تحفظ کے حصول میں انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا تعاون منفرد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ادارے نے نہ صرف زراعت سے متعلق تحقیق اور ترقی کے کام کو موثر طریقے سے انجام دیا ہے بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ ایسی تحقیق زمین پر نظر آئے۔انہوں نے کہا، “یہ بات خوش آئند ہے کہ انسٹی ٹیوٹ نے 200 سے زیادہ نئی ٹیکنالوجیز تیار کی ہیں۔ “آئی اے آر آئی نے 2005 اور 2020 کے درمیان 100 سے زیادہ اقسام تیار کی ہیں اور اس کے نام پر 100 سے زیادہ پیٹنٹ ہیں۔”صدر جمہوریہ نے کہا کہ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی زراعت سے اپنی روزی روٹی کماتی ہے۔ زراعت ہندوستان کی جی ڈی پی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے اس بات کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے کہ ہماری معیشت کی یہ بنیاد زیادہ سے زیادہ بڑھے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔