ؑامیدوںپر کھرا نہ اترا پایا

جموںوکشمیر کے طول و عرض میںبیک ٹو ولیج پروگرام شروع کرتے وقت اس بات کا خلاصہ کیا گیا تھا کہ ایسے پروگراموںسے گائوںکی مشکلات کو حل کر کے شہروںکے برابر لایا جا نے کی کوشش کی جائے گی ،سرکار کا ماننا تھا کہ گائوںکی جانب ماضی میںتوجہ بہت کم توجہ دی گئی جس کی وجہ سے گائوںاور شہر کے درمیان کافی خلیج ترقی کے میدان میںبن گئی ہے ،بیک ٹو ولیج کا مقصد اس کھائی کو کم کرنا ہے ،اس پروگرام کے دوران گائوںکے اندر ایک اجلاس منعقد کیا جا ئے گا ،جس میںمتعلقہ گائوںوالوںکو مدعو کیا جائے گا جس میںانتظامیہ کے اعلی افسران بعض دفعہ ڈپٹی کمشنر تک حصہ لیںگے ،اجلاس کے دوران گائوںکے مسائل سے آگاہی حاصل کی جائے گی ،جن مسائل کا نوٹ کر کے ان کا کم از کم وقت میںازالہ کیا جا ئے گا ،پروگرام کے مقاصد کو سن کر سبھی کو خوشی ہو ئی کہ گائوںکی ترقی کے لئے اگر سرکاری افسران ان کی دہلیز پر آرہے ہیںتو یہ ہماری خوش نصیبی ہے ،اس لئے بیک ٹو ولیج پروگرام کے پہلے مرحلے میںلوگوںنے جوش و خروش سے حصہ لے کر اپنے مسائل انتظامیہ کے سامنے رکھے ،جن میںسڑک رابطے ،طبی سولیات ،بجلی کی عدم دستیابی کے ساتھ بجلی کی تاریںدرختوںسے لٹکتی ہونے کا معاملہ ،پانی کی قلت و غیر معیاری پانی کی ترسیل و پانی کی پائپوںکی خستہ حالی ،سکولوںمیںعملہ کی کمی اور انفراسٹرکچر کی کمی و منریگا کی اجرت بر وقت ادا نہ ہونے و پی ایم جی ایس وائی و دیگر مرکزی سکیموںکی عمل آوری میںمناپلی سے حقدار کو حق سے محروم رکھنے جیسے متعدد بنیادی مسائل زیر غور لائے گئے ،اب عوام کی نگاہ بیک ٹو ولیج ٹو پر تھی ،کیونکہ گائوںکے لوگوںکو امید واثق تھی کہ دوسرا پروگرام ہونے سے پہلے پہلے تمام مسائل نہ سہی مگر کافی حد تک مسائل کا ازالہ کیا جا ئے گا مگر ہوا کیا ،بیک ٹو ولیج پارٹ ٹو بھی ہوا ،تب تک مسائل کا ازالہ نہ ہوا اور نہ ہی کسی نے سنجیدگی سے مسائل کو لیا ،جس سے طبی خدمات کا گائوںمیںبلکہ ضلع ہیڈکوارٹر پر بھی برا حال ہے ،ہمارا ماننا ہے کہ ہسپتال بنائے گئے ،میڈیکل کالج بنائے گئے مگر جب ڈاکٹر مناسب تعداد میںتعینات نہ کئے گئے ہوںتو عوام کا دربدر ہونا یا جموںو سرینگر جانا لازمی ہو جاتا ہے ،ان کو اپنی زمین و قرض لے کر جموںو سرینگر جا کر ٖڈاکٹروںکے پاس جانے کو ترجیح دینی پڑتی ہے ،مشینری نہ ہونے سے معمولی ٹیسٹ کیلئے دوسرے ضلع میںجانا پڑتا ہے ،مشینری ہے تو اس کو چلانے والا نہیںہے ،ادھر بجلی کے حال سے سبھی واقف ہیں،بجلی کیلئے جہا ںگائوںوالے ترس رہے ہیںوہیںشہروںمیںبھی حال زیادہ اچھا نہیںہے ۔سکولوںکی حالت زار ویسی ہی ویسی ہے ۔پانی کے لئے کوئی کاگر اقدام نہ اٹھایا جا نے سے ہر ایک کو وہی غیر معیاری پانی پینے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے بلکہ کئی گائوںکے لوگ پیدل کئی کلو میٹر سے پانی لانے پر مجبور ہیں،تو بیک ٹو ولیج پروگرام کے مقاصد پورے نہ ہونے پر عوام کو مایوسی ہو ئی ہے ،اس لئے جو جوش و خوش پہلے پروگرام میںدکھائی دیا تھا وہ دوسرے مرحلے میںدکھائی نہ دیا ،اس لئے سرکار نے پروگرام منعقد کر کے عوام کی توقعات پورا نہ کیا ،جس سے عوام کا بھروسہ ڈگمگا گیا ہے ،ضرورت اس امر کی تھی کہ جو وعدے یا جو مسائل اجلاس کے دوران حل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ان کو پورا کیا جاتا مگر ایسا نہ ہونے سے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے ۔بلکہ اس سے قیمتی وقت کے ساتھ خزانہ عامرہ کا بھی نقصا ن ہوا ہے۔جبکہ افسران کے دفاتر سے باہر رہنے پر عوام کو بھی مشکلاتسے دوچارہونا پڑا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔