موسمی نقل مکانی کرنے والے پہاڑی قبیلہ کے لوگوں کی بھی مردم شماری ہونی چاہئے

الطاف حسین جنجوعہ
لسانہ، سرنکوٹ پونچھ
جموں وکشمیر میں ہرسال موسم گرما کے دوران بڑی تعداد میں لوگ اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کے ساتھ میدانی علاقہ جات سے پہاڑوں پر نقل مکانی کرتے ہیں جہاں پر وہ چھ ماہ گذارتے ہیں۔مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کو پالتے ہیں پھر سرمائی ایام شروع ہوتے ہی واپسی کی راہ لیتے ہیں۔ صرف میدانی علاقہ جات سے ہی نہیں بلکہ پہاڑی علاقہ جات سے بھی کثیر تعداد میں لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر بالائی علاقوں /اونچے پہاڑوں پرمال مویشیوں، بھیڑبکریوں کے لیے چارہ کا انتظام کرنے نقل مکانی کرتے ہیں۔صوبہ جموں میں راجوری پونچھ، ڈوڈہ، کشتواڑ، رام بن، ریاسی جبکہ وادی کشمیر میں شوپیاں، کپواڑہ، بڈگام، بارمولہ، اننت ناگ ودیگر اضلاع میں پہاڑوں جہاں پر سرسبز میدان، سبزہ اور گھاس چرائی ہے، وہاں بھیڑبکریاں ومال مویشی لے جانے والوں میں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔

جس طرح گوجر بکروالوں طبقہ کے اندر دو طرح کے لوگ ہیں، ایک وہ مستقل طور جو رہائش رکھتے ہیں، کاروبار، تجارت، ملازمت پیشہ ہیں، قصبہ جات وشہروں میں مقیم ہیں اور اُن کے بچے ملک کے اعلیٰ اداروں میں زیر تعلیم ہیں، دوسرا وہ لوگ جن کا ذریعہ معاش بھیڑ بکریاں اور مال مویشی ہے۔ اسی طرح پہاڑی قبیلہ کے اندر بھی 70فیصد سے زائد لوگ ایسے ہیں جوکہ کھیتی باڑی، مال مویشی اور بھیڑبکریوں کا کام کرتے ہیں اور اِن میں 40سے 45فیصد لوگ ایسے ہیں جوموسمی نقل مکانی بھی کرتے ہیںاور یہ سلسلہ پشت در پشت چلا آرہاہے ۔

اس میں پہاڑی زبان بولنے والا قبیلہ، خانہ بدوش بکروال، گوجر، گدی، سپی، شینا،کشمیری ودیگر ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں لیکن حکومتی، انتظامی وسیاسی سطح پر صرف یہ تاثر قائم ہے کہ مال مویشیوں وبھیڑبکریوں کے ساتھ پہاڑوں وبالائی علاقوں میں جانے والے صرف درج فہرست قبائلی کے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں۔راجوری، پونچھ اضلاع میں اکثریت پہاڑی زبان بولنے والے قبیلہ کی ہے جوکہ مال مویشیوں ، بھیڑبکریوں کے ہمراہ موسمی نقل مکانی کرتے ہیں، جن کے نام پر وہاں چراگاہوں کی الاٹمنٹ ہے، وہ آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے موسم گرما میں جاتے ہیں۔ حکومت نے گرمائی ایام کے دوران پہاڑوں پر اپنے مال مویشیوں کے ہمراہ نقل مکانی کرنے والے افراد کے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراہستہ کرنے کے مقصد سے موبائل سکولوں کاقیام عمل میں لایا ہے۔مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کے لیے ویٹرنری کیمپوں کا ابھی انعقاد ہوتا ہے۔ موبائل ڈسپنسریاں قائم کی گئی ہیں اور دیگر کئی سہولیات بھی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ مستفیدین تک پہنچتی کم ہیں۔

جموں وکشمیر محکمہ قبائلی امور نے ڈھوکوں/بہکوں میں ششماہی نقل مکانی کرنے والے درج فہرست قبائل کی مردم شماری کا عمل شروع کیا ہے اور یہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا سروے ہورہا ہے جس کا مقصد صحیح اعدادوشمار جمع کرنا ہے تاکہ اس کے مطابق حکومت ِ ہند کی طرف سے قبائلی آبادی کی ترقی کے لئے چلائی جارہی اسکیموں، فنڈز کا تصرف یقینی بنانا ہے۔ یہ بھی منصوبہ ہے کہ سروے کے بعد ہرکنبہ کے سربراہ کو سمارٹ کارڈ بھی قبائلی محکمہ کی طرف سے دیاجائے گا جس سے وہ ہراسکیم سے فائیدہ ا±ٹھانے کا مستحق ہوگا۔ نیز اِنہیں اعدادوشمار کی بنیاد پر موبائل اسکول /ڈسپنسریوں کا قیام،ا±ساتذہ ودیگر عملہ کی تقرری کے ساتھ ساتھ اِن کے روایتی روٹس پر مطلوبہ راستوں یا قیام گاہوں کی تعمیر ومرمت شامل ہے۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے لیکن اِس عمل سے نان ایس ٹی لوگ جن کی تعداد لاکھوں میں ہے ، وہ محروم ہیں۔

ڈھوکوں/بہکوں میں جانے والے پہاڑی قبیلہ کے لوگوں کے بچوں کو بھی تعلیم چاہئے، اپنے اور مال مویشیوں کے لئے ادویات، ایمرجنسی کے وقت فوری امداد وغیرہ درکار ہے۔ ماضی میں بعض شکایات یہ بھی رہی ہیں کہ ڈھوکوں/بہکوں کے لئے اگر کسی محکمہ یا غیر سرکاری رضاکار تنظیم کے ذریعے کوئی سروے کروایاگیا تو ا±س میں ڈھوکوں میں جانے والے ہر شخص کو ایس ٹی کے کھاتے میں ڈالاگیا لیکن بعد ازاں اگر حکومت نے کوئی مراعات یا فوائید دیئے تھے وہ صرف درج فہرست قبائل تک محدود رہے۔ ایسی کئی شکایات س±ننے کو ملیں کہ پہاڑی زبان بولنے والے قبیلہ کے لوگوں کو بھی اعدادوشمار میں شیڈیول ٹرائب تصور کر کے زیادہ تعداد دکھائی گئی اور ایسا کشمیر وادی میں زیادہ ہوا۔ اِس لئے اب کی بار نان ایس ٹی افراد کو چاہئے کہ وہ ا±ن کے پاس جو بھی سروے کرنے آئے جومحکمہ جنگلات، پی ایچ ای، بجلی کا ملازم یا ٹیچر ہوسکتا ہے، وہ جب آپ کے پاس آئیں ، آپ واضح طور پر اپنی شناخت بتائیں۔بعض مقامات پر یہ افواہیں اور غلط بیانی بھی ہورہی ہے کہ یہ سروے کیاجارہاہے، اِس میں جو ایس ٹی نہیں ا±ن کو ڈھوکوں سے نکالایاجائے گا، ایسا ہرگز نہیں۔ جنگلات حقوق قانون مجریہ2006کے تحت ڈھوکوں/بہکوں اور جنگلات اراضی کے حقوق دینے کا عمل اعلیحدہ سے روبہ عمل ہے اور یہ مردم شماری الگ ہے۔ ایسا کچھ نہیں۔

سال 2017میں حکومت نے ایک اسکیم م تعارف کی تھی کہ ڈھوکوں بہکوں میں نقل مکانی کرنے والے در ج فہرست قبائل کے لوگ سرما میں واپسی پر بھی چھ ماہ کا راشن لے سکتے ہیں۔ ا±س میں بھی لاکھوں نان ایس ٹی اِس پالیسی کے زمرہ میں نہ آئے تھے۔ایک Welfare State(ویلفیئرسٹیٹ)اور ایک جمہوری نظامِ حکومت میں یہ نا انصافی کے مترادف۔یوٹی حکومت کو غیر درج فہرست قبائل (Non_ST)کنبہ جات جوچھ ماہ کے دوران اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کے ہمراہ پہاڑوں پر بسیرا کرتے ہیں اور سرمائی ایام کے دوران میدانی علاقہ جات یا اپنے آبائی گھروں کو لوٹتے ہیں، کے لئے بھی کوئی پالیسی مرتب کی جائے، ا±ن کا اعلیحدہ سے سروے کرایاجائے تاکہ ا±نہیں بھی بنیادی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔

اگر کسی غیر جانبدار ادارہ سے آزادانہ سروے کرایاجائے تو یہ حقیقت صاف عیاں ہوجائے گی کہ اضلاع پونچھ وراجوری کے پہاڑوں پر گرمائی ایام کے دوران مال مویشیوں، بھیڑبکروں کے ساتھ جانے والے زیادہ لوگ (نان ایس ٹی)پہاڑی قبیلہ کے ہیں۔ صوبہ جموں کے دیگر اضلاع اور وادی کشمیر میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ جب نقل مکانی کرنے والوں کے لیے موبائل سکولوں میں اساتذہ کی تعیناتی کا مسئلہ آتا ہے کہ یہ کہاجاتا ہے کہ صرف ایس ٹی طبقہ سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہی موبائل سکولوں میں بطور ٹیچر تعینات کیاجائے گا۔ جب نان ایس ٹی لوگ پہاڑوں سے چھ ماہ بعد واپس مال مویشیوں کے ساتھ آتے ہیں تو انہیں چھ ماہ کا راشن بھی نہیں ملتا۔ایسے کئی معاملات عدالتوں میں بھی زیر سماعت ہیں، جہاں اگر کسی موبائل سکول میں نان ایس ٹی ٹیچر کی تعیناتی ہوئی تو اس پر کورٹ سے اسٹے لیاگیا۔

اِن کی متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنرز(ڈپٹی کمشنرز)یا تحصیلدار کے پاس باقاعدہ رجسٹریشن ہو،جہاں سے ان کو ایک شناختی کارڈ بطور وجہ ثبوت جاری کیاجائے جواس بات کی تصدیق کرے کہ ہاں یہ واقعی پہاڑوں پر گئے تھے، اس سے ایک توسروے/مردم شماری، اصدھار رجسٹریشن یا سرکار کی کسی دوسری سکیم کاان افراد تک فائیدہ پہنچانے میں مدد ملے گی، بلکہ اگر گرمائی ایام کے دوران چناو¿ ہوتے ہیں، تو بھی ان افراد کی ووٹنگ کا کوئی بندوبست ہوگا، ساتھ ہی ان سبھی لوگوں تک پہاڑوں پر یاجہاں انہوں نے چھ ماہ کے دوران مال مویشیوں /بھیڑبکریوں کے ساتھ بسیرا کیاہوگا، تک سرکاری مراعات پہنچائی جائیں گیں۔ ایسے سبھی کنبہ جات(Families) کاجو ڈپٹی کمشنر/تحصیلدار کے پاس اندراج موجود ہو، اس کی بنا پر ان طبقہ جات تک راشن کی تقسیم کاری، تعلیمی وطبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے یکساں طور جامع پالیسی مرتب کی جائے۔’ویلفیئرسٹیٹ‘میں حکومت ہر شہری کے آگے جوابدہ اور اس کی ذمہ دار ہے۔ کیا یہ نا انصافی نہیں کہ دور دراز پہاڑوں پر اپنے مال مویشیوں، بھیڑبکریوں کے ساتھ جانے والے افراد جہاں ا±نہیں صرف قدرت کا ہی سہارا رہتا ہے، وہاں پر حکومت سرکاری مراعات سے آدھے افراد کو نظر انداز کر دے۔محکمہ قبائلی امور تو حکومت ِ ہند کی واضح گائیڈ لائنز کے مطابق یہ سروے کروارہا ہے جس میں خالص درج فہرست قبائل کا ذکر ہے، حکومت کو چاہئے کہ نان ایس ٹی کے لئے بھی کوئی پالیسی مرتب کرے اور اِسی طرز پر ا±ن کا بھی سروے کروایاجائے۔

7006541602

[email protected]