پہاڑی زبان :آج تک آل انڈیا ریڈیوجموں پرنمائندگی نہ مل سکی ذمہ دار کون….؟

پہاڑی زبان کوآل انڈیا ریڈیوجموں
پرآج تک نمائندگی نہ مل سکی ذمہ دار کون….؟
الطاف حسین جنجوعہ
30جون2021کوگوجر محقق ومصنف ڈاکٹر جاوید راہی نے گوجر طبقہ کے ایک معروف براڈ کاسٹر، مترجم،شاعر، ادیب وڈرامہ نویس چوہدری حسن پرواز کی آل انڈیا ریڈیو جموں سے 39سالہ کامیاب ملازمت کے بعد سبکدوشی پر ایک ڈاکومنٹری اپنے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس پر شیئر کی جس میں موصوف کی گوجری زبان واد ب کی خدمات ، اُن کی اعتراف کرتی معتبر شخصیات اور اُن کے شاگردوں کے تاثرات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیاگیاتھا۔ اُس ڈاکومنٹری کو بار بار سُنااور دیکھا تو اِس باغیور قوم پر رشک آیا جس کو ایسے ہیرے ملے ، جنہوں نے اپنی ملازمت کو اپنے قبیلہ کی فلاح وبہبودی کے لئے بہتر استعمال کیا بلکہ عہدے پر رہ کر زبان وادب کی خدمت کرنے والوں کا اِتنی تعداد تیار کی جوکہ اِس کاررواں کو خوش اسلوبی کے ساتھ آگے بڑھاتے رہیں گے۔ حسن پرواز صاحب نے 1984میں اُس وقت کے ریڈیو کشمیر جموں سے منسلک ہوئے تھے جنہوں نے بہت کم مدت میں ہی سرحد کے دونوں اطراف بسنے والے سامعین کے دلوں پر راج کرنا شروع کیا۔ گوجری نیوز، گوجری پروگرا، سانجھی دھرتی، شُبھ پربھاد، گاندھی کھتا اور دیگر کئی پروگراموں کی اینکرنگ کرکے داد وتحسین حاصل کی۔20سے زائد اُن کی کتابیں چھپ کر منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ پانچ سے زائد کتابیں زیر طبع ہیں۔ تاریخ ابن خلدون، الفاروق اور الغزالجی جیسے معتبر کتابوں کا گوجری میں ترجمہ کیا۔ مہاتما گاندھی کی کتاب ’My Experiment on Truth‘کا بھی انہوں نے گوجری زبان میں ”‘میں ازمایو سچ‘کے عنوان سے ترجمہ کیا جس پر اُنہیں گاندھی گلوبل فیملی کی جانب سے ایوارڈ سے بھی سرفراز کیاگیا۔ میں ذاتی طور بھی اُنہیں بہت قریب سے جانتا ہوں اور اُن کے حسن ِ اخلاق اور کام کاج کے تئیں دیانت کا بھی معترف ہوں ۔گوجری گلوکاروں میں شبنم اختر وشکیلہ بانو ایک نام ہے، جن کوشہرت کی بلندیوں پر پہنچانے میں حسن پرواز کا رول رہا۔ بشیر مستانہ جنہیں گوجری زبان کا نصرت فتح علی خان بھی کہاجاتا ہے، اور وہ اِس وقت ’اے ‘گریڈ آرٹسٹ ہیں، کا ریڈیو پر آڈیشن حسن پرواز نے کروایاتھا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی زبان اُس وقت ترقی کی منازل طے کرتی ہے اور اُس کا دائرہ وسیع ہوتا جاتاہے ، جب اُس کو روزگار کے ساتھ جوڑا جائے۔ریڈیو، ٹیلی ویژن چینل اور زبان وادب کی ترقی کے حوالے سے حکومتی ادارے جیسے کہ کلچرل اکیڈمی جیسے اداروں کا اہم کردار رہا ہے جنہوں نے لکھنے ، گانے ، بجانے والوں اور فنکاروں کو پلیٹ فارم مہیا کیا بلکہ مالی معاونت بھی کی جس سے شعرائ، ادیب، گلوکاروں، فنکاروں کی دلچسپی بھی بڑی۔گوجری زبان وادب کی ترقی میں بھی ریڈیو کا انتہائی اہم رول رہا۔آل انڈیا ریڈیو جموں جس کو 5اگست2019سے قبل ’ریڈیو کشمیر جموں‘کہاجاتا تھا اور ریڈکشمیر سرینگر(آل انڈیا ریڈیو سرینگر)سے 70کی دہائی میں گوجری پروگرام اور پھر بعد میں خبروں کا سلسلہ شروع ہوا جس نے اِس ز بان کی ترقی میں اہم رول ادا کیا۔ شعرائ، ادیب،فنکاروں اور گلوکاروں کی ایک کثیر تعداد نکل کر سامنے آئی۔غلام حسین ضیا ،، سلام دین بجاڑ، فیض کسانہ، منشی خان، کرم دین چوپڑہ ، انور حسین اورحسن پرواز کی کاو¿شوں سے اسرائیل اثر، سروری کسانہ، محمد حسین، امین قمر، نسیم پونچھی، اقبال ملک ، شہباز راجوری، فدا راجوروی، کے ڈی مینی ، صابر مرزا جیسی ادبی شخصیات کو مقبولیت ملی۔ ریڈیو پر گوجری پروگرام اور خبروں نے کئی طالبعلموں /ریسرچ اسکالروں کی ذہنی نشو ونما اور صلاحیت سازی میں نمایاں رول ادا کیا جوکہ بعد میں زندگی کے مختلف شعبہ جات میں اہم عہدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔محمود رانا، بجران ٹورازم، محمد اکرم جج، انوار الحق ایڈیشنل ایس پی، ڈاکٹر جاوید راہی سمیت ان گنت تعداد ہے جنہوں نے کیجول نیوز ریڈرز یا اناو¿نسر کے طور کام کیا اور بعد میں اعلیٰ عہدوں پر ملازمت میں چلے گئے ۔اسی طرح ریڈیو کشمیر سرینگر کے گوجری سیکشن کے ذریعے کئی بڑے نام پیدا کئے۔گوجر بکروال طبقہ کو ایس ٹی کا درجہ دلانے کے لئے عوام کو بڑے پیمانے پر متحرک کرنے اور اپنے کلچر، لوک ورثہ اور ثقافت کے تئیں باخبر کرنے میں بھی ریڈیو کا رول رہا اور جب ایس ٹی کی فائل بنی تو اُس میں ریڈیو کے تحقیقی گوجری پروگراموں کے حوالہ جات اور مواد بھی شامل تھا۔´
مادری زبان نے لوگوں کو حکومت کی اسکیموں، اپنے حقوق متعلق بیدار کرنے اور انصاف کی لڑائی لڑنے کے لئے جانکاری فراہم کرنے میں بھی اہم رول ادا کیا ۔بہت سارے سیاسی لیڈران کو شناخت دینے اور اُنہیں بڑا لیڈر بنانے میں بھی ریڈیو کا رول رہا ہے۔پہاڑی زبان بولنے والے قبیلہ کی جموں وکشمیر میں سب سے زیادہ آبادی جموں صوبہ کے اندر ہے۔سرحد پار سے 1947اور1965میں ہجرت کر کے یہاں آئے رفیوجی جوکہ جموں، سانبہ، کٹھوعہ اور دیگر اضلاع میں رہتے ہیں بھی جن کی زبان سرائیکی، ہندکو، میرپوری ، پوٹھواری ہے، وہ بھی پہاڑی زبان کوسمجھ سکتے ہیں ، لیکن حیران کن امرہے کہ آل انڈیا ریڈیو جموں سے آج تک پہاڑی پروگرام اور نہ ہی خبریں نشر ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل اپنی مادری زبان کے تئیں اُتنی حساس اور سنجیدہ نہیں۔اگر ریڈیو جموں سے پروگرام اور خبریں نشرہوتیں تو یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اور اسکالرز کو موقع ملتا کہ وہ خبریں بولتے، پروگرام پیش کرتے ۔اِس کے لئے اُنہیں زبان کے تئیں دلچسپی پیدا ہوتی، وہ زیادہ سے زیادہ زبان پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کرتے اور اُنہیں ماہانہ جیب خرچہ بھی بنتا۔ اِس طرح اُن کی صلاحیت سازی ہوتی اور وہ اپنی مادری زبان میں بھی لکھتے ۔آل انڈیا ریڈیو کشمیر سے پہاڑی پروگرام اور خبریں نشر ہورہی ہیں، جن کی وجہ سے وہاں پر پہاڑی شعرائ، ادیب اور فنکاروں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا، اپنی صلاحیتوں کو عوام تک پہنچانے کا پلیٹ فارم ملا اور گرمائی راجدھانی جموں میں جو کپواڑہ، اوڑی، کرناہ، ٹنگڈار، شوپیان ، اننت ناگ کے پہاڑی طلبا وطالبات اور اسکالرز، نوجوان ہیں، اُنہیں خبریں پڑھنے، پروگرام پیش کرنے کا موقع ملتا ہے جس سے اُن کی مالی مدد بھی ہوتی اور وہ مادری زبان کے تئیں سنجیدہ بھی ہیں لیکن جموں ریڈیو اسٹیشن سے پروگرام /خبریں نشر نہ ہونا ایک بہت بڑا خلاءہے، جس کی وجہ سے ہم اِس رفتار میں بہت پیچھے ہیں۔
اِس طرف پہاڑی سیاسی قیادت نے بھی آج تک مخلصانہ کوشش نہیں کی، صرف سوشل میڈیا پر بیانات تک بات محدود رہی عملی طور اقدامات نہ کے برابر رہے، جن میں مرکزی وزارت برائے اطلاعات ونشریات کے وزیر سے اِس ضمن میں ملاقات کرنا، اُنہیں حقائق پر مبنی میمورنڈم پیش کرنا، ڈائریکٹر آل انڈیا ریڈیو یا دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں، سیاسی دباو¿ قائم کرنا شامل ہے۔ گوجری پروگرام بھی جموں سے شروع نہیں کیاجارہاتھا تو اُس وقت باغیور گوجر قوم کے چند لیڈران نے احتجاجی دھرنا دیا اور اپنی بات منوا کر کے ہی دم لیا۔ یک نفری شعبہ قائم ہوا تھا جس نے آج ایک بہت بڑے قافلے کو تیار کیا۔پہاڑی سیاسی قیادت جنہوں نے اپنی سیاست کی دیواریں /عمارتیں ہی اِسی کاز کی بنیاد پر کھڑی کی ہیں، اُن کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اِس ضمن میں ٹھوس عملی اقدامات کریں، اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پہاڑی قوم کے سامنے اپنی نااہلی کا اعتراف بھی کرلینا چاہئے، پہاڑی قوم کا عام شہری اپنی سیاسی قیادت سے سوال رکھنے کا حق رکھتا ہے، اگر سوال پوچھنے پر اُس کو چھپ کرانے کے لئے آپ بے عزتی پر اُتر آئیں تو وہ بلاجواز ہے۔ جس عمارت کی بنیاد ہی مضبوط نہیں، وہ زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی۔بنیاد اور ستون مضبوط کرنے ہوں گے ، تبھی جاکر عمارت کا ڈھانچہ کھڑا رہ سکے گا۔
حکومت بھی اپنی ذمہ داری سے نبرد آزما نہیں ہوسکتی، اِتنی بڑی آبادی کو اپنی مادری زبان میں حکومتی ترقیاتی منصوبوں، فلاحی اسکیموں اور حالات ِ حاضرہ بارے جانکاری رکھنے کا حق حاصل ہے، سے کیسے حکومت محروم رکھ سکتی ہے، آخر یہ آبادی بھی ٹیکس بلواسطہ اور بلاواسطہ طور ٹیکس اداکر رہی ہے۔ آئین ِ ہند کے تحت پہاڑی زبان وادب کو فروغ دینے، اِس کی ترویج وترقی کے لئے اقدامات اُٹھانا حکومت کی ذمہ داری ہے اور آج تک ایسا نہ کر کے پہاڑی زبان بولنے والے طبقہ کے ساتھ بہت نا انصافی کی گئی ہے، ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت ِ ہند، مرکزی وزارت داخلہ اِس کا نوٹس لے اور مرکزی وزارت اطلاعات ونشریات کو ضروری اقدامات کرنے کے لئے حکم صادر کیاجائے۔
لسانہ، سرنکوٹ ،پونچھ
7006541602