جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیاں کی ہلچل ،بی جے پی کے رویہ میں بھی لچک

جموں وکشمیر میں سیاسی سرگرمیاں کی ہلچل
بی جے پی کے رویہ میں بھی لچک
7006541602
الطاف حسین جنجوعہ
گذشتہ ماہ جموں وکشمیر میں قریب ایک سال بعد سیاسی جمود ٹوٹا اور مختلف سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں۔ ان میں سب سے بڑی سرگرمی’ گپکار علامیہ ‘تھا۔ چھ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں جن میں نیشنل کانفرنس، پیپلزڈیموکریٹک پارٹی، جموں وکشمیر پیپلزموو¿نٹ، پیپلز کانفرنس، عوامی نیشنل کانفرنس ، سی پی آئی (ایم) نے سابقہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں مشترکہ طور ایک بیان جاری کیا جس میں عزم دوہرایاگیاکہ یہ سبھی جماعتیں دفعہ370اور35-Aکی بحالی کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا اور کہاکہ 4اگست2019کومنعقدہ اجلاس میں جوفیصلہ لیاگیاتھا، سبھی اُس پر قائم ودائم ہیں۔’گپکار اعلامیہ ‘سے متعلق مشترکہ بیان جاری کرنے سے قبل نیشنل کانفرنس نے کل جماعتی اجلاس طلب کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اُس کو ناکام بنادیاگیا جس کے بعد فرداًفرداًخاموشی سے سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کر کے بیان جاری کرنے پر اکتفا ہوا۔اس علامیہ کے فوری رد عمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی جموں وکشمیر اکائی صدر راویندر رینہ کا بیان سامنے آیا جنہوں نے کہاکہ 370اور35Aکی بحالی ناممکن ہے اور گپکار اعلامیہ کے حامی پاکستان کے حمایتی ہیں۔ایک روز بعد پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق اہم پریس کانفرنس کی جس میں مسئلہ کشمیر کا ذکر آنے پر انہوں نے کہاکہ چھ مین اسٹریم سیاسی جماعتیں حکومت ِ ہند کے فیصلہ کے خلاف صفِ آرا ہوگئی ہیں اور انہوں نے منظم تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر خارجہ کا یہ کہناتھاکہ انڈین نیشنل میڈیا نے ’گپکار اعلامیہ‘کی اتحادی جماعتوں کی اچھی خاصی خبر لی اور اُن پر انٹی نیشنل ہونے کا ٹیگ لگانے میں کوئی کثر باقی نہ چھوڑی۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے 30اگست2020نے خبر رساں ادارہ سے بات کرتے ہوئے ”ہم کسی کے کٹ پتلی نہیں ہیں، پاکستان نے ہمیشہ جموں وکشمیر کی مین اسٹریم سیاسی پارٹیوں کو برا بھلا کہا ہے لیکن آج اچانک ہم اُس کو اچھے کیوں لگنے لگے۔انہوں نے کہاکہ نہ نئی دہلی اور نہ سرحد پار ہم صرف جموں وکشمیر کی عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور اُنہیں کی نمائندگی کرتے ہیں۔نیشنل کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں5اگست2019کے فیصلے کو غیر آئینی، غیر جمہوری او ر غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے اِس کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دوہرایاگیا۔سعید الطاف بخاری قیادت والی جموں وکشمیر اپنی پارٹی کا بھی سرینگر میں دو روزہ مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں خصوصی درجہ کی منسوخی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں دائر عرضیوں کی جلد سماعت کے لئے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔پارٹی نے ریاستی درجہ کی بحالی، جلد اسمبلی انتخابات کے انعقاد ، سیاسی قیدیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ دوہرایا۔اپنی پارٹی نے تنظیم نوکے پہلے مرحلہ کے طور پارٹی دفتری عہدیداران کی تقرریاں بھی عمل میں لائیں جس میں جموں وکشمیر کے سبھی خطوں کو نمائندگی دینے کی کوشش کی گئی، پارٹی نے عوامی رابطہ مہم بھی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔5اگست2019کو خصوصی درجہ کی تنسیخ اور جموں وکشمیر کو دوپھاڑ کرنے کے فیصلہ کے بعد پہلی مرتبہ 27اگست2020کوسرینگر میں پی ڈی پی لیڈران اور حمایتیوں نے نظربندوں وگرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مارچ نکالنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے احتجاج کرنے والے متعدد لیڈران کو نظر بند کر کے مارچ ناکام بنادیا۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے کشمیر کا دوروزہ تفصیلی دورہ کیا اورپارٹی لیڈران، ورکروں ، پنچایتی وبلدیہ کے نمائندگان سے بند کمروں میں میٹنگیں کیں جس میں کئی اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق رام مادھو نے دیگر مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے لیڈران سے بھی خفیہ ملاقاتیں کیں ۔نیشنل کانفرنس کے سنیئرلیڈر وسابقہ وزیر میاں الطاف احمد سے بھی اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لئے اُنہیںفون کروایا لیکن موصوف نے ملاقات سے انکار کرتے ہوئے کہا”شکریہ، تکلف نہ کریں، میرا بی جے پی سے بلواسطہ یا بلاواسطہ طور کچھ لینا دینا نہیں“۔ میاں الطاف نے اس متعلق اخبارات کے نام پریس بیان بھی جاری کردیا۔جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی جموں وکشمیر کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا جس میں قرار دادیں پاس کر کے جموں وکشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے اور جلد اسمبلی انتخابات کرانے پرزور دیاگیا۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 5اگست کے فیصلے بعد تعمیر وترقی اور جموں کو بااختیار بنانے کے جو دعوے کئے گئے تھے، اُن پر زرا برابر عملدرامد نہ ہو، اُلٹا پے در پہ عوام مخالف فیصلے لئے گئے جس میں بھاجپا کے تئیں لوگوں میں کافی ناراضگی پائی جارہی ہے۔ ٹول پلازو¿ں کے قیام پر لوگ کافی برہم ہیں،پارٹی سے جُڑے لیڈران وکارکنان کے لئے عوام کا سامنا کرنا مشکل ثابت ہورہا ہے ، لوگوں کی نبض پہنچاتے ہوئے بھاجپا مقامی قیادت نے بھی اب اسٹیٹ ہڈ کی بحالی اور الیکشن کرانے پرزور دینا شروع کر دیا ہے۔گذشتہ دنوں مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری حکم نامہ جس میں لیفٹیننٹ گورنر کو مزید اختیارات تفویض کئے گئے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ برائے نام ہی رہے گا،اِس کے بعد سے سیاسی جماعتوں کی نیندیں اُڑ چکی ہیں جن کی اپنی بقاءداو¿ پر لگی ہے۔پچھلے دس دنوں سے کئی اہم سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملی ہیں اور مین اسٹریم سیاسی جماعتیں کوشش کر رہی ہیں کہ کچھ ایسا کیاجائے کہ وہ عوام کا سامنا کرنے کے قابل ہوں۔خبر رساں ادارہ یو این آئی اُردو سروس کے جموں وکشمیر میں انچارج اور سنیئر صحافی ظہور حسین بھٹ کا کہنا ہے ”سیاسی جماعتیں کوشش کر رہی ہیں کہ دوبارہ عوام سے رابطہ قائم کیاجائے ،اب ان کے لئے ووٹ حاصل کرنا اور بھی مشکل ہوگیا ہے ، وزیر اعلیٰ کے اختیارات نہ کے برابر ہیں، اب تو پنچایتی وبلدیاتی ادارے سیاسی جماعتوں سے زیادہ بااختیار ہیں، اب سبھی جماعتوں کو عوام کو قائل کرنے کے لئے دوگنی چوگنی محنت کرنی پڑے گی“۔جموں وکشمیر کے عوامی حلقوں میں عمومی طور یہ تاثر قائم ہے کہ یہاں کے سیاسی، انتظامی امور، پالیسی ومنصوبہ بندی میں نئی دہلی کا عمل دخل ہے بلکہ اُس کی مرضی کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا ۔ سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کے ساتھ ساتھ جماعتوں پر بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس تاثر کو ختم کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائیں اور عوام کو اعتماد دلایاجائے کہ اُن کی ”مرضی ومنشاءاور رائے مقدم ہے“۔ ایسا نہ کرنے تک سبھی جماعتوں پر ’کٹ پتلی‘یا ایجنٹ ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیں اور سبھی کو شک کی نگاہوں سے ہی دیکھاجاتارہے گا۔
٭٭٭٭
نوٹ:کالم نویس صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]