عبدالحفیظ فرقان آبادی سے ایک ملاقات

شہباز رشید بہورو(ملاقاتیں)

آج میں نے اپنی ملاقات کے لئے خطہ چناب کی جس عظیم شخصیت کو چنا وہ میرے استادشیخ عبدالحفیظ فرقان آبادی صاحب ہیں ۔فرقان آباد گھٹ دریائے چناب کے کنارے پر ایک بہت بڑا گاؤں ہے جو مستقبل قریب میں قصبہ میں تبدیل ہونے جارہا ہے۔فرقان آباد چونکہ میرا ہمسایہ گاؤں ہے اس لئے اس گاؤں کے لگ بگ تمام لوگوں کو میں اچھے سے جانتا ہوں ۔میں نے چھٹی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک گھٹ میں ہی پڑھا ہے۔گھٹ کے کئی لوگ میرے استاد رہ چکے ہیں ۔گھٹ کے ساتھ میری محبت وہاں کی دو عظیم شخصیات،احباب اور اساتذہ کرام کی وجہ سے ہے ۔پہلی شخصیت معروف سیاسی رہنما مرحوم سعد اللہ تانترے کی تھی جن کی وفات ہو چکی ہے۔اگرچہ ان سے میری ملاقات کبھی بھی نہیں ہو سکی لیکن ان کی بصیرت، صداقت، جرآت اور دانائی کا اعتراف ہے۔دوسری مایہ ناز شخصیت محترم عبد الحفیظ فرقان آبادی صاحب کی ہے۔عبد الحفیظ صاحب اپنے علم و عمل کی وجہ سے خطہ چناب کی ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔عبدالحفیظ صاحب اسکول کے نصاب کے اعتبار سے چھٹی جماعت سے لیکر بارہویں جماعت تک میرے استاد رہے ہیں لیکن آج بھی میرے لئے وہ استاد کا مقام رکھتے ہیں ۔ان سے میں وقت فوقتاً راہنمائی لیتا ہوں ۔بچپن سے ہی ان کا تعارف اور جان پہچان حاصل ہے کیونکہ وہ ایک داعی دین ہونے کی حیثیت سے اکثر جمعہ خطاب اور دیگر اجتماعات کی غرض سے ہماری جامع مسجد میں تشریف رکھتے اور مجھے وہاں ان کی ولولہ انگیز تقریر سننے کا موقعہ ملتا۔موصوف کی جادوبیانی سامعین پہ رقت طاری کرتی ہے ۔ان کی تقاریر نہایت شرین، پرسوز اور پر اثر ہوتی ہیں جس سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا ۔ان کی تقریر سنتے ہی کچھ کرنے کا جذبہ ،امہنگ،ولولہ اور جوش پیدا ہوتا ہے ۔میرے دینی شعور کے پیچھے میرے والد صاحب کے ساتھ ساتھ ان کا فیصلہ کن رول رہا ہے ۔میں اکثر روحانی فیض کے لئے ان سے ملاقات کرتا رہتا ہوں ۔ان کی شخصیت مجھے اکثر اپنی طرف کھینچ کے لی جاتی ہے۔اسکول میں جس بھی تقریری مقابلہ میں حصہ لیتا تو تقریر کے بعد ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے ۔ان کی حوصلہ افزائی کاانداز ہی نرالہ ہے ۔اس سے خود اعتمادی اور مزید حصہ لینے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔میں نے جب لکھنا شروع کیا تو سب سے پہلے اپنی کئی تحاریر ان کے پاس لے کے گیا ۔تقریباً دو گھنٹہ مسلسل میری تحاریر سنتے گئے اگرچہ ان دنوں انہیں آنکھ کا آپریشن بھی ہوا تھا اور ساتھ ساتھ میں طبیعت بھی خراب تھی۔لیکن میری تحاریر کو بڑی دلچسپی اور غور کے ساتھ سنا اور میری اسطرح حوصلہ افزائی فرمائی کہ میں اس کے بعد تاہنوز لکھتا گیا۔عبدالحفیظ صاحب کی سادگی، عاجزی اور وجاہت ہر ملاقی کو اپنا گرویدہ کرتی ہے۔محترم موصوف کی ایک حسین عادت ہے کہ آپ جب بھی کسی سے ملتے ہیں تو سلام میں ہمیشہ پہل کرتے ہیں ۔ہماری مسجد میں موصوف جب بھی تشریف رکھتے ہیں تو خطاب کے بعد تمام بزرگوں اور نوجونوں سے ملاقات کرتے ہیں ۔یہ ایک نایاب صفت ہے جس سے ہماری اکثریت عاری ہے۔جہاں پر بھی کوئی بیمار ہو تو موصوف اس پیرانہ سالی کے باوجود بھی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں ۔اکثرجنازے پر آپ کی مختصر تقریر ہر ایک کوآبدیدہ کرتی ہے۔عموماََ میں نے دیکھا ہے کہ خطیب حضرات یا ممبروں پر واعض کرنے والے اخلاقی طور کمزور ہوتے ہیں لیکن موصوف اخلاقی طور اتنے بلند ہیں کہ شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے اس کا اعتراف نہ ہو۔موصوف کی تلاوت تو دلوں کو موم کرتی ہے۔بچپن سے موصوف کو بہت قریب سے جانتا ہوں آپ کے پیچھے جب. بھی نماز ادا کی تو تلاوت سن کے آخرت کی فکر، موت کا ڈر اور ایک عجیب روحانی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔

۔تقریباً آٹھ ماہ بعد ان سے ملاقات کا پروگرام بنایا اگرچہ فون پہ وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔خصوصاً جب بھی میرا مضمون پڑھتے فون کرکے حوصلہ افزائی فرمانے کے ساتھ ساتھ مجھے اپنی کچھ غلطیوں سے آگاہ بھی کرتے ہیں ۔آج کی ملاقت کافی طویل رہی ۔میں تقریباً دن کے دو بجے کے بعد ان کی رہائش گاہ پر پہنچا انہوں نے میرا ہرتپاک استقبال کیا۔عبدالحفیظ صاحب کی پیدائش سن 1962میں گھٹ میں ہوئی .موصوف نے 1977میں گورنمنٹ ماڈل ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔1980میں گورنمنٹ ہائراسکنڈری اسکول ڈوڈہ سے بارہویں جماعت پاس کی 1982میں فلاح عام ٹرسٹ جموں وکشمیر کے تحت اسلامی ماڈل اسکول گھٹ میں بحیثیتِ استاد پڑھانا شروع کیااور ساتھ ساتھ میں بھدرواہ کالج سے گریجویشن بھی کیا۔موصوف نے نے ایم اے عربی کشمیر یونیورسٹی سے حاصل کی ہے بعد میں جموں یونیورسٹی سے بی ایڈ اور ایم ایڈ کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔1990میں فریدیہ ماڈل ہائی اسکول ڈوڈہ میں بحیثیتِ پرنسپل کام شروع کیا اور بعد ازاں 1992سے لیکر 1995تک ناظم تعلیمات برائے صوبہ جموں کی زمہ داریاں سرانجام دیں۔1995 ہی میں مرحوم اسداللہ تانترے کے اصرار پر گورنمنٹ ٹیچر کی حیثیت سے ہائی اسکول ہانچھ میں جوائن کیا۔سات مہینے گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ میں بھی تعلیکم و تدریس کا کام کیا۔آج وہ بحیثیتِ ماسٹر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول گھٹ میں تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔ان کے والد مرحوم گھٹ گاؤں کے پہلے شخص تھے جنہوں نے میٹرک کیا تھا اور دوسرے سرکاری ملازم بھی تھے۔
میں نے آج کی ملاقات کے لئے سوالات کا پرچہ پہلے ہی سے تیار کر رکھا تھا تاکہ وقت کے ضیاع کے بغیر اہم طلب موضوعات پہ گفتگو ہو سکے۔میرے پہنچتے ہی حفیظ صاحب نے مشروبات کا انتظام فرمایا ۔ان سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ سوالات وجوابات کا سلسلہ شروع ہوا ۔حفیظ صاحب اپنا استاد و راہنما مرحوم سعد اللہ تانترے صاحب کو تسلیم کرتے ہیں ۔ان کے بقول بچپن اور سن شعور کو پہنچتے ہی ان کی شخصیت، کردار، علم و عمل نے مجھے متاثر کیا اور دین کی طرف رغبت دلائی ۔نوجوانی میں آپ نے جماعت اسلامی سے وابسطہ ہو کر اپنے آپ کو دین کے لئے وقف کیا اور تن من دھن سے کارِ خیر سے جڑے رہے۔اپنے مقصد کی سربلندی کے ساتھ لگاو کا یہ عالم تھا کہ سرکاری نوکری نہ کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن بعد مرحوم سعد اللہ تانترےصاحب کے اصرار پر سرکاری ملازمت اختیار کی ۔موصوف نے ریاست کی عظیم دینی و سیاسی راہنماؤں سے ملاقاتیں کیں ان کی صحبت میں رہے خصوصاً قاری صاحب کی تربیت میں رہنے کا کافی موقعہ ملا۔ علاوہ ازیں سعد الدین تارابلی، حکیم غلام نبی ،مولانا غلام احمد احرار ، غلام محمد بٹ ، عبداللہ وانی اور سید علی شاہ گیلانی کے کافی قریب رہے ہیں۔اپنی سیرت، علم و حلم کے باعث کشمیر سے آنے والے تقریباً تمام علمائے کرام اور لیڈران انہیں اپنے ساتھ ضلعی دورے کے لئے چنتے تھے اور بقول ان کے خصوصاً قاری سیف الدین صاحب تو آتے ہی مجھے طلب فرماتے اور تیار ہونے کو کہتے۔معروف سیاسی لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے اپنی کتاب “ولر کے کنارے” میں تو موصوف کی خطہ چناب میں دعوت دین کے حوالے سے دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر بڑے اچھے الفاظ میں کیا ہے۔دینی تعلیم و تدریس، خطبات کے حوالے سے گھر سے باہر مسلسل بیس بیس دن بھی قیام فرماتے۔اپنی نوجوانی ہی میں ریاستی سطح پر ادبی و علمی حلقوں میں کافی شہرت حاصل کی تھی۔ضلع ڈوڈہ کا شاید ہی وہ کوئی اجتماع ہو جس میں حفیظ صاحب مدعو نہیں ہوتے ۔حفیظ صاحب ایک شاعر بھی ہیں اور ان کی کتاب تنزیل ادبی حلقوں میں کافی شہرت حاصل کر چکی ہے۔حال ہی میں دہلی سے شائع ہونے والے معروف جریدے”زندگی نو”میں تنزیل پر کسی قلمکار نے تبصرہ شائع کیا تھا۔اس کے علاوہ نثر میں بھی “انتخاب جنت وجہنم “کے نام سے کتاب لکھ چکے ہیں۔تفسیر اور سیرت پر کافی عمیق نظر رکھتے ہیں ۔اردو،عربی اور انگریزی زبان پر کافی مہارت رکھتے ہیں اور فارسی زبان بھی ایک مقامی استاد سے سیکھ چکے ہیں ۔موصوف ریاست جموں وکشمیر کے جماعت اسلامی کے تحت ہونے والے اکثر اجتماعات میں سیرت کے موضوع پر بات کرتے تھے۔ریاست سے باہر بھی کئی بین الاقوامی کانفرنسز میں شرکت کی ہے ۔جس میں لکھنو، دہلی، الفلاح قابلِ ذکر ہیں ۔جماعت اسلامی ہند کے نامور علمائے کرام سے ذاتی ملاقاتیں کی ہیں ۔جن میں سابق امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم، مولانا یوسف اصلاحی ، مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم، مولانا رضی الاسلام ندوی، مولانا جلال الدین عمری، مولانا حامد علی، مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا سلمان ندوی، مولانا وحید الدین خان، مولانا طاہر مدنی، ڈاکٹر خالد حامدی شامل ہیں. مولانا عبدالکریم صاحب ندوی نے مجھ سے بیان کیا کہ جب موصوف مولانا میاں ندوی سے ملاقات کرنے گیے تو دوران ملاقات میاں ندوی صاحب سے حفیظ صاحب نے اصحاب الرس کے متعلق سوال کیا ۔اتنے بڑے مفکر نے جواباً کہا کہ میرے ذہن میں ابھی نہیں ہے ۔یہ واقعہ میاں ندوی مرحوم جو بہت بڑے مفکر تھے ان کی عظمت کا شاہد ہے ۔مولانا وحید الدین خان صاحب جن سے اگر چہ حفیظ صاحب کافی اختلافات رکھتے ہیں لیکن ایک زمانے میں ان کی کتابیں پڑھ کر کافی متاثر ہوئے تھے اور بعد ازاں خان صاحب کی رہائش پر پورے ایک دن پروگرام میں شرکت بھی کی تھی۔موصوف کا یہ شوق انہیں نوجوانی میں علماء دین سے ملاقات کرنے انہیں کہاں کہاں لے جاتا اور اس حوالے سے میں نے پوچھا کیا آپ کو وہاں سے اس زمانے میں دعوت ملتی یا خود چلے جاتے۔موصوف نے جواباً فرمایا کہ نہیں مجھے کوئی دعوت نہیں ملتی البتہ میں اس طاق میں رہتا کہ کب اور کہاں اجتماع ہو تو میں بغیر کچھ سوچے سمجھے چلے جاتا تھا۔ موصوف کے بقول میں بیرون ریاست اجتماعات میں گھروالوں کے منع کرنے کے باوجود بھی جاتا تھا۔موصوف نے کچھ عرصہ عبداللہ طارق صاحب سے مل کر دعوتی کام بھی کیا ہے اور آج بھی ان سے رابطے میں ہیں لیکن ان کے ساتھ بہت سارے اختلافات بھی رکھتے ہیں۔موصوف نے کہا کہ اختلاف کسی انسان کے اندر اگر نفرت پیدا نہ کرے تو یہ چیز علم میں ایک اضافہ ہے ورنہ یہ علم و دانش پر عین حملہ ۔
عبدالحفیظ صاحب نے طالب علمی کے زمانے پہلگام میں منعقد کیے گئے کل ریاستی حسن قرآت مقابلے میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔سوپور میں منعقد کیے گئے تقریری مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی ۔نعتیہ مقابلوں میں ہر جگہ اول پوزیشن حاصل کی ہے۔موصوف پچھلے تیس سالوں سے جامع مسجد گھٹ کے امام اور خطیب ہیں ۔ان کے بقول یہ فریضہ محترم سعد اللہ تانترے مرحوم و مغفور نے سونپا تھا۔حفیظ صاحب کے زیر نگرانی ایک فلاحی ٹرسٹ بنامی سلسبیل چیریٹیبل ٹرسٹ بھی چلتا ہے جس کے تحت تاہنوز بے شمار ضرورت مندوں کی مدد کی گئی ہے۔موصوف نے 2008 میں جامع دار الفرقان کی سنگ بنیاد رکھی جہاں سے تقریبا سو سے زائد بچوں نے قرآن مجید حفظ کیا ہے اور آج بھی پچاس سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں ۔جامع دارالفرقان میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کا بھی بہترین انتظام ہے۔براداران وطن میں دعوت دین کے حوالے سے 2009میں سینٹر فار پیس اینڈ ریسرچ نامی ادارے کو قائم کیا جس میں متوسط درجے کا کام جاری ہے۔ موصوف نے بزمِ فرقان کے نام سے ایک ادبی حلقہ بھی قائم کیا ہے لیکن بقول ان کے مصروفیات کی وجہ سے بزم کو وقت نہیں دے پاتا ۔عبدالحفیظ صاحب جماعت اسلامی جموں وکشمیر (جو کہ ابھی کالعدم جماعت ہیے) مرکزی شوری کے ممبر بھی رہ چکے ہیں ۔حفیظ صاحب ایک بے مثال شفیق استاد ہیں ۔ان کی محنت اور لگن کے عوض جموں وکشمیر کی سرکار نے ریاستی سطح پر انہیں بہترین استاد کے خطاب سے نوازا ہے۔ موصوف مطالعہ کا بہت شوق بچپن سے رکھتے ہیں اور آج بھی مطالعے میں مصروف رہتے ہیں ۔مغرب کی نماز کے بعد ہر روز مسجد میں درس قرآن دیتے ہیں جس کے لئے موصوف نو تفاسیر کا مطالعہ روزانہ بلاناغہ کرتے ہیں ۔موصوف کی لیبریری میں پانچ ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں اگرچہ کہ بہت ساری کتابیں آپ نے بانٹی بھی ہیں ۔موصوف نظام الاوقات کے سخت پابند ہیں ۔پورا دن بانٹا ہوا ہے کہ کس وقت کون سا کام کرنا ہے۔میں ذاتی طور پر محترم عبدالحفیظ صاحب کےاخلاق سے کافی متاثر ہوں۔موصوف ہر ایک کی بات غور سے سنتے ہیں خصوصاً نوجوانوں کی۔اکثر مشا ہدے میں آیا ہے کہ نوجوانوں کی بات کو جذباتی کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن موصوف جس طرح سے نوجوانوں کی بات کو سنتے ہیں وہ بے مثال ہے۔موصوف یوٹیوب چینل پر بھی ہفتہ وار لیکچر دیتے ہیں ۔موصوف کا خطاب سننے دور دور سے لوگ فرقان آباد گھٹ کی جامع مسجد میں تشریف رکھتے ہیں۔موصوف کی بلاامتیاز مذہب و ملت ہر کوئی عزت اور احترام کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں دین سے روز بروز بڑھتی بے رغبتی پر بات کرتے ہوئے حفیظ صاحب نے کہا کہ دنیا داری کا اتنا دباو یے کہ اس سے کوئی فرد محفوظ نہیں ۔آپ جہاں جائیں ہر جگہ دنیا داری کی باتیں اور اس کی طرف دعوت کے ذرائع موجود ہیں ۔اس لئے ہماری نوجوان نسل میں ایک خطرناک حد تک دین کے شعور کی کمی پائی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا مستقبل متوقع ہے جس کے بارے میں تصور کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔دین سے دوری کی ایک دوسری وجہ انہوں نے انا بتائی ۔انہوں نے کہا انا میں فنا ہے اس لیے انا سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے میں عافیت ہے۔حفیظ صاحب کہتے ہیں کہ ایک مسلمان کو اپنے حال پر زیادہ دھیان دینا چاہئے ،اسے حال میں اس کے دین کے کیا کیا مطالبات ہیں انہیں پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔امت مسلمہ کی حالتِ زار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ عمل کے جذبے سے خالی قوم کتنا ہی خوبصورت لباس پہن کر چستی کی اداکاری کرے وہ حقیقت میں اداکاری ہی ہوتی ہے۔امت مسلمہ اس حوالے سے صرف اداکار ہی ہے۔موصوف نے یہ بھی کہا کہ موجودہ دور میں مطالعہ کا ذوق و شوق ہماری نوجوان نسل سے دن بدن کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں صرف آوارگی پھیل رہی ہے۔اس کو دور کرنے کے لئے انہوں نے دین کا فہم رکھنے والے حضرات سے سنجیدہ ہونے کی اپیل کی ہے۔موصوف کے بقول دین کے تئیں ہمارے رویے میں سنجیدگی نہیں ہے۔ہم صرف مسخرہ پن اختیار کرتے ہیں ،جو کہ ایک مومن کی شخصیت کے لیے ذہر سے کم نہیں ہے. انہوں نے مزید فرمایا کہ حق کا پیغام سناتے جاؤ یہ دیکھے بغیر کہ آپ کی طرف انگلی اٹھتی ہے یا آپ کی تعریف کی جاتی ہے۔موصوف سے اس کی دعوت کے مقصد کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میری دعوت مذہبی منافرت کا خاتمہ، اخوت و بھائی چارہ ، حسن خلق کا نکھار، توحید عملی کا پیغام، رجوع الی القران، ضرورت مندوں کی مدد، موت کی یاد ،اصلاحِ عمل اور خوف آخرت کے درس پر مبنی ہے۔ہماری ملاقات کافی بامعنی اور پرلطف رہی ۔ملاقات کے بعد مجھے ایک روحانی سرور حاصل ہوا ۔اللہ تعالیٰ محترم عبدالحفیظ فرقان آبادی صاحب کا سایہ ہم پر ہمیشہ قائم رکھے۔