’کورونا اورنئے رحجانات‘

Altaf Hussain Janjua

الطاف حسین جنجوعہ
عالمی مہلک وباءکویڈ19 جس نے رواں برس کے آغاز اور بالخصوص مارچ سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، سے فی الحال کلی نجات حاصل کرنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا البتہ اِس وباءسے پیداشدہ غیر یقینی صورتحال کے ساتھ اب انسان نے جینے کا فن سیکھ لیا ہے۔کچھ نئے رحجانات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں جس کے مجموعی طور معاشرے پر مثبت اثرات پر بھی مرتب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔یہ رحجانات کاروبار کا طریقہ کار، رہن سہن، طرزِ حیات، سوچ، افکار کی صورت میں ہیں۔کاروبار کی بات کریں تو جس کپڑے کو پہلے تھیلوں کے لئے استعمال کیاجاتا تھا، اُنہیں سے ہی ماسک بنائے جارہے ہیں، تھیلے کی قیمت ایک یا دو روپے تھی جبکہ اُس تھیلے سے اب دو تین ماسک بن رہے ہیں جن کی فی کس قیمت دس تا بارہ روپے کم سے کم ہے۔پالی تھین لفافوں سے اب پی پی ای کٹس تیار ہورہی ہیں۔

Online Classes
’کورونا اورنئے رحجانات‘

آن لائن کام پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ ورچول موڈ سے دفتری ، تدریسی، تحقیقی کام کاج ہورہے ہیں۔طبی سیکٹر میں کاروبار کو فروغ ملا ہے جبکہ ذاتی طور بھی لوگ اپنی صحت پر زیادہ خرچ کرنے لگے ہیں۔شروع میں کورونا وائرس کی لہر کے چلتے گھروں کے اندر رہنے، دوری بنائے رکھنے پرزور زیادہ دیاگیا جوکہ آج بھی ہے چونکہ زیادہ دیر تک گھروں میں محصور رہنا انسان کے لئے ممکن نہیں، اس لئے آہستہ آہستہ کام کاج کے سلسلہ میں لوگوں نے باہر بھی نکلنا شروع کیا ہے۔ ایک حوصلہ کن رحجان جو اِن دنوں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ہے صبح سویرے نیند سے بیدارہوکر سیر وتفریح کو نکلتے ہیں۔جموں وکشمیر کی بات کریں تو جموں اور سرینگر شہروں کے علاوہ قصبہ جات میں صبح سڑک کنارے، پارکوں، باغات میں ٹہلنے، ورزش کرنے ،جاگنگ یا یوگا کرنے والے کثیر تعداد میں لوگ دکھائی دیتے ہیں تاکہ قوت ِ مدافعت کو بڑھاکر جسم کو اِس وباءسے لڑنے کے قابل بنایاجاسکے۔گاو¿ں دیہات میں تو صبح سویرے جاگنا معمول ہے لیکن شہروقصبہ جات میں شام دیر سے سونا اور صبح دیر سے جاگنا عام بات رہی ہے

۔

شہر وں میں صبح صرف بزرگ اور ادھیڑ عمر لوگ ہی گاہے بگائے آ پ کو سیر وتفریح کرتے نظرآتے لیکن اگر اِن دنوں آپ شہر وقصبہ جات میں رہتے ہیں اور صبح اُٹھنے کی عادت ہے تو آپ مشاہدہ کریں کہ آپ کو سیر کرنے والوں کی تعداد میں کئی گناہ اضافہ نظر آئے گا۔ کوئی دوڑ لگاتا، کوئی ٹہلتا، کوئی یوگا کرتا اور کوئی جسمانی ورزش کرتا آپ کو دکھائی دے گا۔اِس کے علاوہ سائیکل کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ایک سروے کے مطابق انڈیا میں پوری آٹوموبائل ،گاڑیوں کی صنعت کورونا لاک ڈاون سے مندی کا شکار ہے لیکن اِس عرصہ میں سائیکلوں کی خوب بکری ہوئی ہے۔بڑھتی مانگ کی وجہ سے سائیکلوں کی قیمتوں میں کئی گناہ اضافہ بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ سرینگر اور جموں کی سڑکوں پر آپ کو مہنگی ترین اور سرفہرست برینڈ کی سائیکلیں صبح وشام کے وقت دوڑتی نظر آئیں گیں اور ہر عمر کے لوگ اِس کا استعمال کر رہے ہیں.

cycling in Cornoa

۔تحفے دینے کا بھی رحجان بدل گیا ہے، آج قیمتی ماسک، سینی ٹائزرز اور پی پی ای کٹس بطور تحفہ پیش کی جارہی ہیں۔ بہت ساری کمپنیاں اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے پرنٹ شدہ ماسک، سینی ٹائزرز کو صارفین کو دے رہی ہیں۔ جہاں پہلے آپ کو پین، پین ڈرائیور، کارڈ ریڈر، عینک، گھڑیاں وغیرہ تحفوں میں ملتی تھیں،اُن کی جگہ اب ماسک، سینی ٹائزرز اور پی پی ای کٹس نے لے لی ہے اور پچھلے چار ماہ کے دوران سب سے زیادہ یہی سامان تحفوں میں دیاگیا۔سرینگر میں شادی تقریبات میں ترامی کے ساتھ فی شخص سینی ٹائزرز کی بوتل بھی دی جارہی ہے۔ گرمائی ایام میں اکثر لوگ صحت افزا مقامات پر سیروتفریح کے لئے جاتے تھے اور زیادہ تر بیرون ِ ریاست یا ملک سیاحتی مقامات کو ترجیحی دی جاتی تھی،

Surankote Tourism

امسال چونکہ کورونا لاک ڈاون سے بین الریاستی نقل وحمل پر روک ہے ، اس لئے علاقائی سطح پر سیاحتی مقامات پر لوگ جارہے ہیں۔ کشمیر اور لداخ تو سیاحتی لحاظ سے منفرد مقام رکھتا ہے اور اِس کی عالمی سطح پر اِس میں منفرد پہچان ہے لیکن صوبہ جموں میں اگر چہ انتہائی خوبصورت مقامات ہیں لیکن یہ مقبول نہ ہیں۔ اس مرتبہ پونچھ، راجوری، کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن ، ریاسی، کٹھوعہ اور اودھم پور اضلاع میں قدرتی حسن سے مالامال علاقوں پر لوگ سیروتفریح کے لئے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا(فیس بک، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور وہاٹس ایپ گروپس، یوٹیوب)پر اپ لوڈ کی جارہی تصاویر اور ویڈیوز سے دیکھ کر لگتا ہے کہ کس قد ر خوبصورت یہ مقامات ہیں، خوبصورتی کے لحاظ سے کسی طرح بھی یہ مقامات کشمیر یا سوئٹزرلینڈ سے کم نہیں۔ اگر چہ اِ ن مقامات پر ہوٹل، ریستوران، رابطہ سڑک جیسی سہولیات دستیاب نہیں لیکن سکون اِتنا ہے کہ آدمی دنیا کے ہر غم ہی بھول جاتاہے۔ ضلع پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ سلسلہ کوئہ پیر پنچال میں بحرام گلہ سے گرجن، نندن سر، ست سر، ہل کاکا، رجاڑہ ، جبی طوطی، نندی چھول، لورن، گگڑیاں، ایک بہترین ٹریکنگ پوائنٹ بن سکتا ہے۔متعدد نوجوانوں نے اِن مقامات کی تصاویر اور ویڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا ہے اور اِ ن مقامات بارے تفصیلی بلاگز بھی لکھے ہیں، یہ رحجان حوصلہ افزا ءہے۔ اِس مرتبہ صوبہ جموں میں خطہ پیر پنچال اور وادی چناب کے خوبصورت مقامات کی جتنی پرموشن مقامی افراد نے کی ہے، شاہید اِس سے پہلے کبھی ہوئی ہو ۔ خوش آئند بات یہ رہی کہ اِن دو ر دراز اور پسماندہ علاقہ جات کو سیروٹریکنگ پر جانے والوں میں نہ صرف عام آدمی بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان، افسران، سول اور پولیس انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران، تاجر، وکلائ، ڈاکٹرز اور سیاستدان بھی شامل ہیں.

جنہوں نے بنفس ونفیس دیکھا اور محسوس بھی کیاکہ اِن مقامات میں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کتنی صلاحیت موجود ہے۔وہ سیاستدان اور افسران جنہیں مقامی سطح پر موجود مقامات کے صرف نام ہی پتہ تھے اور زندگی بھر چاہ کر بھی مصروفیات کی وجہ سے جانہیں پائے تھے، اُنہیں بھی مادرِ وطن یہاں مراد آبائی علاقہ جات میں موجود قدرتی حسن کو دیکھنے کا نایاب موقع ملا۔محکمہ سیاحت کو بھی چاہئے کہ وہ اِن مقامات بارے سوشل میڈیا پر جو تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ ہوئی ہیں، کا سہارا لیکر اِن مقامات کو سیاحتی مقام پر لانے کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کرئے۔
٭٭٭٭
7006541206
ای میل:altafhussainjanjua120gmail.com