ریاستی درجہ کی بحالی ،نوکریوں میں تحفظ کامطالبہ، اپنی پارٹی کی 19نکاتی یادداشت لیفٹیننٹ گورنر کوپیش

J&K Apni Party Altaf Bukhari
J&K Apni Party Altaf Bukhari

ریاستی درجہ کی بحالی ،نوکریوں میں تحفظ، سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سیاسی کارکنان کو معقول سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ
الطاف بخاری کی سربراہی میں اپنی پارٹی کا اعلیٰ سطحی وفد لیفٹیننٹ گورنر سے ملاقی،19نکاتی یادداشت پیش کی
اُڑان ڈیسک
سرینگر//اپنی پارٹی کا ایک اعلیٰ سطحی وفد صدر الطاف بخاری کی سربراہی میں لیفٹیننٹ گورنر گریش چندر مرمو سے راج بھون سرینگر میں ملاقی ہواجس کے دوران مرکزی زیر انتظام جموںوکشمیر کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ ۔ وفد میں الطاف بخاری کے علاوہ غلام حسن میر،رفیع احمد میر،ظفر اقبال منہاس،حاجی محمد اشرف میر،جاوید حسن بیگ،عثمان مجید گنائی،عبدالمجید پڈر،عبدالرحیم راتھر،نور محمد شیخ،راجہ منظور،غلام محمد بھوان،شعیب لون،جاوید احمد مرچال،منتظرمحی الدین،عرفان نقیب،ڈاکٹر میر سمیع اللہ،سعید فاروق اندرابی اورجگموہن سنگھ رینہ شامل تھے۔اس موقعہ پر الطاف بخاری نے کہاکہ ریاست جموں وکشمیر کا درجہ گھٹا کر اس کو یونین ٹیریٹری کا درجہ دینے سے لوگ خوش نہیں ہیں جوکہ اس قدم کو وفاق کے اصول کی سراسر خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔جموں و کشمیر میں جموں و کشمیر تنظیم نو قانون 2019 کے نفاذ کو ایک سال مکمل ہونے میں محض پندرہ دن باقی ہیں۔اِن آئینی اصلاحات سے جموں و کشمیر کی قابلیت میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے ۔سابقہ ریاست بنیادی طور پر فنڈز کی منتقلی کے لئے مرکز پر زیادہ انحصار کرنے لگی ہے کیونکہ ریاست کی حیثیت سے یہ اپنی مالی خود مختاری کھو چکی ہے۔ریاست جموں وکشمیر کا درجہ گھٹا کر اس کو یونین ٹیراٹری کا درجہ دینے سے لوگ خوش نہیں ہیں جوکہ اس قدم کو وفاق کے اصول کی سراسر خلاف ورزی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بد نظمی اور مایوسی کا احساس شدت سے عوام بالخصوص جموں و کشمیر کے نوجوانوں پر غالب ہے اور رائے عامہ پر یہ بھی تاثر زیادہ ہے۔ اگر حکومت ِہند جموں و کشمیر میں سماجی و اقتصادی ترقی اور سیاسی استحکام کے لئے اپنے قول کے مطابق سنجیدہ ہے تو اسے اُس پیغام کو آگے بڑھانے کے لئے شدت سے کام کرنا چاہئے۔ اُسے اُن لوگوں کی نبض کو بھی محسوس کرنا ہوگاجو جموں و کشمیر میں فوری طور پر اسٹیٹ ہڈکی بحالی کے لئے بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں اور اِس حوالے سے جلد فیصلے کی توقع بھی رکھتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے سے جموں و کشمیر کی عوام میں اعتماد اور بھروسہ پیدا ہوگا۔ اس موقع پر ہم اپنے ملک کی اعلی قیادت خاص طور سے وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ شری شاہ کو اس سلسلے میں کئے گئے وعدوں کی یاد دلانا چاہیں گے تاکہ ریاست سے یونین ٹیراٹری بننے پر جموں و کشمیر کی آبادی میں پائے جانے والے احساس ِ مجروح کا خاتمہ ہو۔جموں وکشمیر کی عوام کے اعتماد کو جیتنے کے لئے مرکز کو اپنی دہائیوں پرانی پالیسیوں کا سرنو جائزہ لینا ہوگا اور عوام سے نپٹنے کے لئے حفاظتی اقدامات پر مکمل انحصار اور سیاسی خواہشات کو امن وقانون کے آئینہ سے دیکھنے کے رویہ کو ترک کرنا ہوگا۔ ہمارا پختہ یقین ہے کہ جموں وکشمیر کی معاشی ترقی صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب عوام کی سیاسی خواہشات کا انسانی طریقہ سے حل نکالاائے۔ اس سمت میں جموں وکشمیر تنظیم نو کے ایک سال مکمل ہونے پر اسٹیٹ ہڈ کی بحالی بڑاقدم ثابت ہوسکتا ہے۔ الطاف بخاری نے کہاکہ ’ہم درج ذیل تفصیلی یادداشت پیش کرتے ہیں اور ا±مید کرتے ہیں کہ آپ ا±ن مطالبات کو آگے ا±جاگر کریں گے جوکہ کلی طور پر مرکزی ِ حکومت کے حد اختیار میں ہیں۔
1۔ریاستی درجہ کی بحالی
سابقہ شاہی ریاست کے باشندگان کے لئے اسٹیٹ ہڈ وہ چیز ہے جس کووہ حقیقی طور پر اپنے شاندار ماضی کے حوالہ سے منسلک کرتے ہیں ، ایک ایسی جگہ جو مختلف مذاہب ، ثقافتوں ، زبانوں اور خطوں کا ایک مرکزرہا ہے۔ اس سلسلے میں جلد اعلان سے اس خطے میں کثرتیت اور احترام بقائے باہمی کے نظریے کو مزید تقویت ملے گی۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ جموں و کشمیر میں ریاست کی بحالی کو بقائے باہمی کے جذبے کو برقرار رکھنے اور ملک کے اس حصے میں تکثیریت کے امتزاج کو قائم ودائم رکھاجائے۔ ہم اِس موقع کا فائیدہ اُٹھاتے ہوئے آپ کے توسط سے حکومت ِ ہند کو اُس کے وعدے کی یادد دلاتے ہیں کہ ریاست کے درجہ کے ساتھ ساتھ قانون ساز کونسل کو بھی بحال کیاجائے اور سماجی ومعاشی طور پسماندہ طبقہ جات، فن وتمدن، زبانوں، ادب، کھیل کود کی بنیاد پر اِس میں نشستیں مختص کی جائیں۔
2۔زمین اور نوکریوں پر اقامتی حقوق
5 اگست 2019 کو لئے گئے آئینی اور قانونی فیصلوں کو جموں و کشمیر کی اکثریت اپنی سرزمین سے متعلق حقوق پر شب خون تصور کرتی ہے۔ ہماری پارٹی جموں وکشمیر کی عوام کے لئے زمین اور نوکریوں پر ڈومیسائل حقوق کا پرزور مطالبہ کرتی رہی ہے ۔جموں وکشمیر کے شہریوں کو نوکریوں کے حقوق سے متعلق جاری حالیہ ڈومیسائل حکم نامہ مرکزی حکومت کے عارضی رویہ کا عکاس ہے۔ حکومت کے ہوتے ہوئے پارلیمنٹ میں پاس کردہ قانون کی بجائے جموں وکشمیر کے شہریوں کے لئے ڈومیسائل قواعد سے متعلق ایک آرڈر جاری کرنا اور نیا گزیٹ نوٹیفکیشن کسی عدالتی جائزے سے مستثنیٰ نہیں ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ جموں و کشمیر کے رہائشی جن کے پاس پہلے سے ہی ایک مستقل رہائشی سند ہے ، اُن سے زمین اور غیر منقولہ جائیداد پر قبضہ کرنے یا کسی سرکاری ملازمت میں درخواست دینے کے لئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ طلب نہ کی جائے۔ ہم یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ جموں وکشمیر کے لئے جاری حالیہ ڈومیسائل قواعد میں تضادات کو دور کرنے کے لئے مناسب وقت پر سبھی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بحث وتمحیص کی جائے ۔
3۔قیدیوں کی رہائی
اگر چہ یہ قدم قابل ستائش ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ لیڈران کو رہاکر دیاگیا ہے اور اُن پر عائد پبلک سیفٹی ایکٹ بھی ہٹادیا گیا ہے لیکن ابھی بھی سینکڑوں سیاسی کارکنان جنہیں 5اگست 2019کے آس پاس حراست میں لیاگیاتھا، ہنوزجیلوں میں مقید ہیں اور اُن کے معاملات پر کوئی نظرثانی نہیں کی گئی۔ اِن کارکنان کو کسی قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں نظر بند نہیں کیاگیا، لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ بلاکسی تاخیر اِن کی نظر بندی کا جائزہ لیکر انہیں رہاکیاجائے۔ اب کورونا وباءمیں جیلیں بھی انفیکشن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ہیں، اِس لئے اُن سیاسی نظر بندوں کو فوری طور ملک کی دیگر جیلوں سے جموں وکشمیر میں منتقل کیاجائے اور پھر ترجیحی بنیادوں پر رہائی کی جائے نیز جموں وکشمیر کے شہری جوکہ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بند ہیں، کی رہائی کیلئے ہمدردانہ پالیسی بنائی جائے۔ اگر پی ایس اے کے تحت زیر حراست افراد کے معاملات کا ہمدردانہ طریقہ سے جائزہ لیکر اُن کی رہائی یقینی بنائی جائے تو یہ اعتماد سازی کابہت بڑا قدم ہوگا۔
4۔نوجوانوں کیخلاف دائر کیسوں کی واپسی
سینکڑوںنوجوان جن میں زیادہ ترنو عمر ہیں، وادی کشمیر میں مختلف مقدمات کے تحت نظربند ہیں اور وہ اب بھی قانونی معاملات میں پھنس چکے ہیں جو مین اسٹریم میں اُن کی واپسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس مسئلہ پر حکومت کی فوری توجہ درکار ہے ۔ہماری گذارش ہے کہ ایسے نوجوانوں کے خلاف ہمدردی کی بنیاد پر مقدمات کو واپس لیا جائے اور انہیں سماج کے ساتھ ہم آہنگ ہونے اور ملک کے ذمہ دار شہریوں کی طرح برتاو¿ کرنے کی اجازت دی جائے۔
5۔جموں وکشمیر بینک کی خود مختیار فعالیت
جموں وکشمیر بینک عوام کے معاشی مفادات کے اعتماد اور بھروسے کا مرکز ہے جس کے مالی معاملات پر اختیار کے ساتھ ساتھ اِس کے کام کاج پرغیر ضروری طور پر سوالیہ نشان لگا دیا گیا ہے۔غیر یقینی صورتحال کی فضا نے اس کے صارفین کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور شیئر مارکیٹ میں اس کی پوزیشن کمزور پڑگئی ہے جو جموں و کشمیر کی اقتصادی صحت کےلئے اچھا نہیں ۔جے کے بینک کی فعال خودمختاری کو بحال کرنے کے لئے کچھ ٹھوس ، بامعنی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔حالیہ دنوں بینک نے اُن اُمیدواروں کی سلیکشن لسٹ کالعدم قرار دے دی جنہوں نے پروبیشنری افسرز اور بینکنگ ایسو سی ایٹس کے لئے اپلائی کیاتھااور ایسا آر بی آئی کی زیرنگرانی لئے گئے امتحانات کے دو سال بعد کیاگیا۔ اس غیر قانونی فیصلے سے لاکھوں اُمیدوار انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس کارروائی سے بینک کو بیرونی مداخلت کا سامنا ہے جو بینک کے مفادات اور مقامی نوجوانوں کی روزی روٹی کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے۔خارجی مداخلت کے ایک اور معاملہ میں بینک نے اِس کے مختلف کاروباری یونٹوں میں انتہائی لگن کے ساتھ کام کرنے والے تقریباً2800ملازمین کی تنخواہیں روک دی ہیں جوکہ اُن کے اہل خانہ کے ساتھ سنگین ناانصافی ہے۔ یہ ملازمین پچھلے کئی سالوں سے جے کے بینک میں کام کر رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کو اعلی عہدوں پر ترقی دی گئی ہے۔ اپنی تنخواہوں کو روکنے سے یہ ملازمین اپنے اہل خانہ سمیت سماجی بدنامی کا شکار ہوگئے ہیں اور عملی طور پر وہ ذہنی صدمے سے دوچار ہیں۔جموں و کشمیر حکومت کو بینک کے کام کاج میں انٹی کرپشن بیورو کی غیر ضروری مداخلت کو دور کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر اس مقبول ترین مالیاتی ادارے کی ساکھ بُری طرح متاثر ہوگی۔
6۔ زرعی اور باغبانی شعبوں کی احیائے نو
اگرچہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں نے وقتاًفوقتاً زراعت اور باغبانی شعبوں کی ترقی کے لئے کئی پیکیجز کا اعلان کیا ہے لیکن موثرعملی میکانزیم کی عدم موجودگی سے کاشتکار وں اور کسانوں تک امداد نہیں پہنچ رہی۔جموںو کشمیر ایک زرعی ریاست ہے جس میں زراعت وباغبانی کیلئے جامع پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں فصل انشورینس اسکیمیں اور کم از کم امدادی قیمت کی فراہمی شامل ہو۔اس کے لئے مرکزی حکومت کو محکمہ زراعت وباغبانی کے توسط سے براہ راست باغبانوں اور کسانوں کے ساتھ رابطہ کر کے ایک شفاف عمل کو متعارف کروانا ہوگا ۔ایسی اسکیمیں متعارف کروائی جائیں جس سے باغیچوں کو ترقیاب کرنے کے علاوہ سیب کے درختوں کی شجرکاری کو بڑے پیمانے پر ہاتھ میں لئے جانے کی ضرورت ہے۔ زیادہ فصل دینے والے پودوں کو متعارف کرنے کیلئے خصوصی نرسریوں کی تشکیل اہم ضرورت ہے تاکہ ہندوستان میں کسانوں کی آمدن کو 2022تک دوگنا کرنے کے وزیراعظم کے نظریہ کو عملی جامہ پہنایاجاسکے۔ اس عمل کا آغاز کرنے کے لئے پہلے باغبانی شعبہ کو برف باری سے ہوئے نقصان کا ازالہ کیاجانا چاہئے جوکہ پچھلے تیس برسوں میں ہوے والاسب سے زیادہ نقصان تھا۔ ہمیں ٹرانسپورٹ قیمت پر بھی سبسڈی دینی ہوگی۔ گذشتہ سال متعارف کی گئی مارکیٹ انٹروینشن اسکیم مکمل طور ناکام رہی ہے۔ اس کا پہلے اچھے سے منصوبہ بنانا چاہئے تھا، ہمیں سامان کی وصولی پر فوری ادائیگی کی جانی چاہئے۔ اسی طرح حکومتِ ہند کے فلیگ شپ پروگرام پردھان منتری آتما نربھر بھارت اسکیم کے دائرہ میں جموں وکشمیر میں سبھی ضاع میوہ جات اور سبزیوں کو لانا ہوگا۔ اس طرح جموں و کشمیر کے لاکھوں باغبانوں ، کسانوںاور سبزیوں کے کاشتکاروں کو جو ٹماٹر ، پیاز اور آلو کے علاوہ دیگر پھل وسبزیوں کا کاروبار کرتے ہیں کو ، بنیادی طور پر COVID کی وجہ سے کم فروخت ہونے اور نقصانات کا ازالہ کرنے کامرکزی سپانسر شدہ اسکیم کے تحت فائیدہ حاصل حاصل ہوسکے۔ علاوہ ازیں کسانوں نے کے سی سی کے تحت جو قرضہ جات لئے ہیں ، انہیں معاف کرنا پڑے گا کیونکہ انہیں باغات ،کھیتوں اور فصلوں کو ہوئے بھاری نقصان کوبرداشت کرنا پڑا ہے۔
7۔ صنعت وحرفت شعبے کو امداد
جموں و کشمیر صنعتی پالیسی 2016 میں اگرچہ بہت خامیاں تھیں لیکن پھر بھی یونٹ ہولڈرز کو درپیش جغرافیائی اور معاشی حدود کو دیکھتے ہوئے مائیکرو ، چھوٹے ، درمیانے اور بڑے سمیت مقامی صنعتی یونٹوں کو کچھ تحفظ اور مراعات حاصل تھیں۔حکومت نے مسابقتی کارکردگی کو حاصل کرنے کے لئے جوقیمت مقرر کی ہے ،اُس کا اطلاق جموں و کشمیر یونٹ ہولڈرز پر نہیں کیا جاسکتا جو ملک کے باقی حصوں میں اپنے ہم منصبوں سے مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر کے تمام مائیکرو ، چھوٹے ، درمیانہ اور بڑے صنعتی اداروں کے ساتھ ایسا ہی ہے ۔ملک کے باقی حصوں میں صنعتی یونٹ ہولڈرز خام مال کی دستیابی ، سستی مزدوری ،لاگت ، بلاتعطل بجلی کی فراہمی اور مستقل ورکنگ الاو¿نس کے معاملے میں بہت آگے ہیں۔اس کے برعکس ، جموں و کشمیر یونٹ کے حامل افراد ایک سال میں صرف کچھ مہینوں کے لئے کام کرتے ہیں اور زیادہ تر وقت خاص طور پر وادی کشمیر میں یہ یونٹ بند ہی رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر یونٹس کے پاس محدود مارکیٹ ہے اور ان کا زیادہ انحصار سرکاری ٹینڈروں پر ہے۔ جب صنعتی پیرامیٹرز میں بہت زیادہ فرق ہے تو حکومت ِ ہند کو جموں و کشمیر یونٹ ہولڈرز کا ملک کے باقی حصوں سے موازنہ نہیں کرنا چاہئے۔ مراعات میں توسیع دینے میں حکومت کو جموں و کشمیر یونٹ ہولڈرز کو ترجیح دینی چاہئے بصورت دیگر مقامی یونٹ ہولڈروں کے پاس جموں و کشمیر کے دونوں صوبوں میں اپنے یونٹس بند کرنے پڑیں گے جس سے لاکھوں ہنرمند اور غیر ہنر مند نوجوانوں کو بے روزگار ہونا پڑے گا۔ موجودہ یونٹوں کو سی جی ایس ٹی اور ایس جی ایس ٹی کی واپسی کے ساتھ ساتھ موجودہ پالیسی کے مطابق کاروباری افراد ٹرانسپورٹ سبسڈی بھی دی جانی چاہئے۔
8۔اہم معاشی شعبہ جات پر پڑے لا ک ڈاو¿ن اثر کا ازالہ
سب سے پہلے ہم جموں وکشمیر انتظامی کونسل کا کویڈ وباءسے پید ا ہوئی اقتصادی مندی سے نپٹنے کے لئے اقدامات اُٹھانے کی سراہنا کرتے ہیںتاہم وقت کی ضرورت ہے اُن تمام اہم معاشی شعبہ جات کے اسٹیک ہولڈرز کو راحت فراہم کی جائے جنہوں نے کسی قسم کا قرضہ نہیں لیا ہے۔جموں و کشمیر کی معیشت پہلے ہی متعدد عوامل خاص طور سے امن و امان کی صورتحال کی وجہ سے مندی کا شکار رہی ہے۔ یہ مایوس کن معاشی منظرنامہ 5 اگست ، 2019 کے بعد سے ابتر ہوگیا ۔اب اسے کویڈ19وبائی مرض کی وجہ سے صنعتوں ، سیاحت ، زراعت ، باغبانی ، دستکاری ، نقل و حمل ، ہوٹل کی صنعت اور دیگر تمام شعبوں میں زبردست پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔یہ بات بھی انتہائی مایوس کن ہے کہ حکومت ِ ہ ند کی طرف سے ملک بھر میں تباہ حال معیشت کی بحالی کے لئے اعلان کردہ 20ہزار کے خصوصی پیکیج میں ہی جموں و کشمیر کی صنعتوں اور دیگر کاروباری طبقہ کو شامل کیاگیاہے۔ مرکزی وزارت خزانہ کو جموں و کشمیر کے کاروباری برادری کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنا چاہئے اور اس پرآشوب خطے میں کاروباری سرگرمیوں کو بحالی اوراگست 2019 سے لاک ڈاون دور مدت کے ازالہ کے لئے اعلیحدہ سے پیکیج پر غورکیاجانا چاہئے۔ جموں صوبہ میں سیاحت اور اس سے وابستہ شعبوں خصوصا ہوٹل کی صنعت وشنو دیوی یاترا کی معطلی سے مکمل طور پر بند ہے۔ جموں کے زرعی شعبہ خصوصا باسمتی کی کاشت کرنے والے کسانوں کا بھی یہی حال ہے جو موجودہ صورتحال کی وجہ سے ایک بہت بڑا مالی پریشانی کا شکار ہوگئے ہیں۔کوروناوباءنے مزید تمام اقتصادی شعبوں کو نچوڑ کر رکھ دیا ہے جن کی بحالی حکومت ِ ہند کی سنجیدہ مداخلت سے ہی ممکن ہے ۔ اس کے لئے حکومت کو چاہئے کہ 2019-20اور2020-21کیلئے زراعت ، باغبانی ، سیاحت ، ہوٹل ، اور جموں و کشمیر کے دیگر صنعتی و کاروباری شعبوں کے قرضہ جات معاف کئے جائیں اور انہیں کم از کم 30 فیصد سرمایہ کاری تک نرم قرضے فراہم کیے جائیں۔ حکومت کو چاہئے جموں اور سرینگر کے ایم ایس ایم ای یونٹ ہولڈروں کے زیر التوا واجبات واگذار کرے ۔ محکمہ بجلی کے ذریعہ مرکزکی سوبھاگیا سکیم کے تحت 100 کروڑ۔ اسی طرح ، دیگر ایم ایس ایم ای یونٹ ہولڈرز کے پاس مختلف سرکاری محکموں ، پی ایس یو کے ، خاص طور پر ایس آئی سی او پی کے پاس تقریبا 250 کروڑ روپے بقیہ ہیں۔ مالی ترغیبات ، ٹیکس سے چھوٹ ، کسانوں کے قرضوں کی معافی اس سلسلے میں اعتماد سازی کے کچھ بڑے اقدامات ہوسکتے ہیں۔
9۔ سیاحت اور ملحق سیکٹر کا احیائے نو
سیاحت اور اس سے جڑے شعبہ جات بشمول ہوٹل، دستکاری، ٹور آپریٹرز، ہاو¿س بوٹ مالکان، شکاراوالے ریاست کی معیشت میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اگست 2019سے مارچ2020تک سود معاف کئے جانے کی ضرورت ہے، دو سال تک قسطوں کی ادائیگی کو بھی منجمد کیاجانا چاہئے۔ قرضہ ادائیگی کی مدت میں توسیع کر کے اس سے دس برس کیاجائے۔ سرمایہ کاری کے لئے آسان شرحوں پر قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنایاجانا چاہئے۔ نئی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے جموں و کشمیر کے مختلف خطوں میں ٹوراز کلسٹر / دیہاتوں کے قیام کے لئے سیاحتی پالیسی بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی سیاحت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ثقافتی سیاحت کو فروغ دینے کے لئے گھریلو قیام پر توجہ دی جائے۔ سیاحت اور اس سے منسلک صنعت کو صنعتی پالیسی کے تمام فوائد کے ساتھ ساتھ ’صنعت کی حیثیت‘کی گرانٹ / توسیع بھی اس اہم شعبے کی مجموعی ترقی کے لئے ایک اہم ثابت ہوگی۔
10۔انٹرنیٹ کی بحالی
مرکزی زیر انتظام جموں وکشمیر کے تمام خطوں میں 4 جی انٹرنیٹ رابطے کی بحالی کو اولین ترجیح پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ فور جی پر عائد پابندی کو تقریباً ایک سال مکمل ہونے کو ہے۔۔ موبائل انٹرنیٹ پر بلا جواز پابندی سے جموں و کشمیر میں لوگوں خصوصا طلباءاور تاجر برادری کو بے حد تکلیف کا سامنا کرنا پڑہے ۔ حکومت کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی ہوگی اور تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ پر عائد پابندی کو ختم کرنا چاہئے تاکہ لوگ جدید دور کے ڈیٹا اور ٹیلی مواصلات کی سہولیات سے فائدہ اُٹھاسکیں۔
11۔ قومی شاہراہ اور اندروانی روابط کی بحالی
جموں سرینگر قومی شاہراہ پر ٹریفک کو منظم کرنے اور جاری توسیع کام میں سرعت لائے جانے کی انتہائی ضرورت ہے۔ سڑکوں کے بند رہنے کی وجہ سے لوگوں کو طبی سہولیات کے حصول میں بھی مشکلات درپیش ہیں، خاص طور سے اودھم پور تابانہال تک شاہراہ کی خستہ حالی باعث پریشانی ہے۔ چونکہ جموں اور سرینگر کے درمیان رابطہ کا واحد ذریعہ یہ شاہراہ ہے۔ اس شاہراہ پر گاڑیوں کی آمدورفت کو منظم طور بحال رکھنے کے لئے جامعی پالیسی متعارف کروائے جانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح مغل روڈ کو ایک متبادل شاہراہ کے طور پر قائم کئے جانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ٹنل کی تعمیر ناگزیر ہے تاکہ یہ سڑک بارہ ماہ قابل آمدورفت بنی رہے۔ کرناہ سے رابطہ کو بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے اس کے لئے مجوزہ سادھنا ٹاپ ٹنل کی تعمیر ضروری ہے۔ اسی طرح پیر کھیوں گلی ٹنل کو بھی منظور کر کے کپواڑہ تا کیرن رابطہ سال بھر کھلا رکھنے کو یقینی بنایاجائے۔ ٹنل کی تعمیر سے کپواڑہ اور کیرن کے درمیان 60کلومیٹر مسافت کم ہوگی اور یہ مسافت محض3.5کلومیٹر رہ جائے گی جس سے چار گھنٹوں کا سفر چند منٹو میں طے ہوگا۔بانڈی پورہ گریز شاہراہ کو سال بھر کھلا رکھنے کیلئے بھی ٹنل تعمیر کئے جانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کشتواڑ اننت ناگ روڈ پر سنتھن ٹاپ کے مقام پر ٹنل کی تعمیر کا کام فوری طور شروع کیاجائے۔ اسی طرز پر جموں وکشمیر میں اندرونی رابطہ سڑکوں کی حالت کو بہتر بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ یکساں تعمیر وترقی یقینی بنائی جاسکے۔ جموں وکشمیر شاہراہ کے خستہ حال رہنے کی وجہ سے اکثر بند ہونے کے نتیجہ میں فضائی کرائے، خاص کر موسم سرما میں آسمان کو چھوتے ہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ ان کرایوں پر کنٹرول رکھے اور فضائی مسافروں کو سرکار کی طرف سے رعایت فراہم کی جائے۔
12۔جیالوجی اور کان کن
سرگرمیوں پر مقامی افراد کے حقوق کا تحفظ
گذشتہ ایک سال سے جموں و کشمیر میں کان کنی اور کھدائی کی سرگرمیاں ٹھپ ہیں جس وجہ سے بلاواسطہ اور بلواسطہ طور اِس کاروبار سے وابستہ لاکھوں کنبہ جات پریشان حال ہیں۔ کن کان اور خام مال اُٹھانے کی سرگرمیوں پر روک لگانے سے نہ صرف چھوٹے اور درمیانے درجے کے خام مال کے پروسیسنگ یونٹ بند ہیں بلکہ لاکھوں مقامی کنبہ جات روزگار سے محروم ہوگئے ہیں جس سے تعمیراتی سامان کی قیمتیں بھی آسمان چھو رہی ہیں۔ چونکہ مقامی وسائل پر پہلا حق دعویٰ جموں و کشمیر کے مقامی باشندوں کا ہے ، لہٰذا حکومت کو چھوٹے معدنی وسائل پر مقامی لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے طریقہ کار وضع کرنا چاہئے۔ مذکورہ بالا کے پیش نظر ہمارا مطالبہ ہے کہ سرینگر میں اتھوجان ، پانتھہ چوک، ، شیلیگوف زیوان ، زیون بالا ، خانموہ کے علاوہ صوبہ جموں میں کٹھوعہ، سانبہ، ریاسی، اکھنور، ڈوڈہ اور کشتواڑ میں مقامی لوگوں کو کان کنی اور قلیل مدتی پرمٹ کی بنیاد پر خام مال اُٹھانے کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح پنچایت راج ایکٹ کے مطابق پنچایتوں کو بارہمولہ ، کپواڑہ ، بڈگام ، بانڈی پورہ ، گاندربل اور اننت ناگ اضلاع کے دیہی علاقوں میں خام مال نکالنے اور اُٹھانے کے عمل کی اجازت دینے کا اختیار دیاجائے۔ جموں و کشمیر کے باقی ماندہ معدنی بلاکس کی حد بندی کی جائے اور اور آٹھ کلومیٹر کے دائرہ میں یہ سٹون کریشرز یونٹ کے لئے نوٹیفائی کی جائے اور اس طرح حدبندی شدہ بلاکس میں سے کم از کم 50 فیصد مقامی اسٹیک ہولڈرز کے لئے مختص رکھے جائیں۔
13۔تعمیری سرگرمیوں کی بحالی
5اگست 2019سے ترقیاتی سرگرمیوں پر جمود طاری ہوگیا ہے، ان کو پوری یونین ٹیرٹری مین فوری طور بحال کرنا ناگزیر ہے۔ اسی طرح ترقیاتی ڈھانچے کا قیام عمل میں لایاجائے تاکہ یہاں کے لوگ ان سے استفادہ حاصل کرسکیں۔
14۔بینکروں کی تعمیر
کرناہ، اوڑی اور پونچھ میں فائرنگ کی زد میں آنے والے لوگوں کے لئے پختہ بینکروں کی تعمیر حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے کیونکہ لگاتار فائرنگ کی وجہ سے یہ سرحدی علاقہ جات کافی حساس ہیں جس کے نتیجہ میں آئے روز جانی ومالی نقصان ہوتا ہے۔ اگر چہ اعلیٰ سطح پر فوری کارروائی کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن زمینی سطح پر اِس کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا۔ المیہ یہ ہے کہ بینکروں کی تعمیر کا حساس معاملہ بھی خامیوں سے پاک نہیں ہے
15۔ پہاڑی قبیلہ کی ریزرویشن میں آمدنی شق کو ہٹایاجائے
طویل جدوجہد کے بعد حکومت نے پہاڑی بولنے والے قبیلہ کو ملازمتوں میں چار فیصد ریزرویشن دی ۔ قبیلہ کے طور تسلیم کئے جانے پر طبقہ نے ریاست بھر میں اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور جشن منایاتاہم حال ہی میں جاری کردہ نوٹیفکیشن جس میں اس قبیلہ کوریزرویشن کے لئے انکم سلیب طے کی گئی ہے ، جس سے بنیادی مقصد ہی فوت ہوجاتاہے اور یہ نوٹیفکیشن زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے ۔لہٰذا حکومت کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے پہاڑی بولنے والی طبقہ جات کو ریزرویشن سے متعلق فوائد حاصل کرنے کے لئے انکم سلیب سے متعلق نوٹیفکیشن واپس لینا چاہئے۔
16۔ سیاسی کارکنان کے سیکورٹی معاملات
اس سنگین مسئلے کو چھ ماہ کے وقفے کے بعد بھی حل کیاجاناباقی ہے۔ بانڈی پورہ میں حالیہ وحشیانہ اور بیہمانہ ہلاکتوں کے بعد بلالحاظ سبھی سیاسی کارکنوں چاہئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، عدم تحفظ کا شکار ہیںجنہیں ذلیل وخوار کر کے ماضی کی طرح بیچ راہ چھوڑ دیاگیاہے ۔صف ِ اول کے سیاسی کارکنان کی رہائش گاہوں سے سیکورٹی ہٹاکر انہیں ذلیل و خوار کیاگیا۔ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں سیکورٹی کورسے مستقل طور پر محروم ہیں۔ اس لئے وہ سرینگر میں رہنے پر مجبور ہیں جس سے سیاسی عمل جس کے بارے میں بہت باتیں کی جارہی تھیں، وہ رک گیا ہے ۔ اس مسئلے کا دیر پا حل نکالنے کی ضرورت ہے
17۔ ڈیلی ویجرز ور دیگر کم تنخواہ دار ملازمین کی ریگولر آئزیشن
ہزاروں نیڈ بیسڈ ، کیجول لیبرز، ڈیلی ویجرز ورکرز، این وائی سی ، ایچ ڈی ایف کارکنان ، کنسالیڈیٹیڈ ، ہنگامی طور پر تنخواہ لینے والے ملازمین ، آئی ٹی آئی اور ہنر مند کارکنان ، دو دہائیوں سے مختلف محکموں میں کام کرنے والے کنٹریکٹ اور ایڈہاک تقرریوں کو اب بھی اپنی ملازمتوں کی مستقلی کا انتظارہے۔ یہ کارکنان موجودہ حکومت کے موقف کو جاننا چاہتے ہیںکیونکہ سابقہ دورِ حکومت میں اُن کی ریگولر آئزیشن کا عمل شروع کیاگیا تھا اور سبھی محکمہ جات کے سربراہان سے کہاگیا تھاکہ وہ اہل وکرروں کی فہرست مرتب کر کے بھیجی جائے جنہوں نے متعلقہ محکموں میں مستقل طور دس سال تک اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ حکومت کو اس معاملہ پر وضاحت پیش کرنی چاہئے کہ اِس نے آخر مستقلی سے متعلق کیا موقف اختیار کیا ہے۔
18۔ایس آر او202کو ہٹایاجائے
جموں وکشمیر اپنی پارٹی مرکزی وزیر داخلہ اور جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کو مبارک باد پیش کرتی ہے اور سراہنا کرتی ہے کہ نئے بھرتی قواعد میں ایس آر او202کی شق کو کالعدم قرار دیاگیا لیکن ملازمین کا یہ مطالبہ ہے کہ مذکورہ ایس آر او کے بھرتی ہوئے تھے اور لگاتا ر پانچ سال سے کام کر رہے ہیں، کوہوئے نقصان کا ازالہ کیاجائے۔ نئے بھرتی عمل میں پروبیشن مدت پانچ سے گھٹا کر دو سال کرنا کافی نہیں، حکومت کو اُن ملازمین کے ساتھ بھی انصاف کرنا چاہئے جوکالعدم قرار دیئے گئے ایس آر اوکے تحت 2015سے وقتاًفوقتاً بھرتی ہوئے ہیں۔اسی طرح ایس آر او 202 کی ترمیم شدہ کے پیش نظر حکومت کی جانب سے آسامیوں کو واپس لینے اور پھر سے ایڈورٹائزمنٹ نکالنے سے ان لاکھوں امیدواروں میں انتشار اور مایوسی پیدا ہوگئی ہے جونوکری پانے کی عمر کی پار کر چکے ہیں۔حکومت کو ایس آر او 202 کی مکمل منسوخی کے مطالبہ کو ماننا چاہئے کیونکہ اس ایس آر او کی سخت دفعات جموں و کشمیر کے ملازمین اور بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے مفاد کے لئے انتہائی نقصان دہ ہیں۔
19۔سرینگر میں اعلیحدہ کیٹ بنچ قائم کیاجائے
حکومتِ ہند کو سرینگر میںاعلیحدہ سے سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل(کیٹ)بنچ قائم کرنا چاہئے تاکہ لاکھوں ملازمین کے ساتھ انصاف ہوجوکہ انصاف کی حصولی کے لئے جموں میں آکر اپنی ملازمتوں سے متعلق مقدمات کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ حکومت اور حکومت کے ماتحت اداروں کے خلاف سروس معاملات اور بھرتی شرائط سے متعلق تنازعات کے موثر اور فوری تصفیہ کے لئے سرینگر میں الگ سے بنچ کا قیام ضروری ہے۔ ہم عوامی مطالبہ کو قبول کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو چندی گڑھ انتظامی ٹریبونل کے دائرہ اختیار سے باہررکھنے اور جموں میں ٹریبونل کا ایک بنچ قائم کرنے کیلئے نے مرکزی وزارت داخلہ کی سراہنا کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ ناساز گار موسم اور دشوار گذار خطہ کو مدنظر رکھتے ہوئے سرینگر میں سی اے ٹی کا الگ بنچ قائم کیا جائے۔