لاک ڈاون اورمزدور

الطاف حسین جنجوعہ
9697857746
عالمی وباءکورونا کی روکتھام کے لئے بھارت میں 21روزہ لاک ڈاو ¿ن میں مزید3مئی تک توسیع کر دی گئی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے اِس توسیع کا اعلان کرتے وقت عوام کو درپیش گوناگوں مشکلات کا اعتراف بھی کیا تاہم کہا کہ اِس کے سوا کوئی چار ہ نہیں۔لاک ڈاو ¿ن سے زندگی کا ہرشعبہ اور ہرشخص متاثر ہوا ہے، ہر ایک کی مشکلات اپنی اپنی ہیں،آپ کسی سے بھی بات کریں تو لاک ڈاو ¿ن سے اُس پر کیا منفی اثرات پڑے، اِس کی ہر ایک کے پاس الگ الگ دلیل اورجوازیت ہے، ہر ایک کی اپنی دلچسپ اور دکھ بھری کہانی ہے لیکن میں یہاں صرف غریب اور یومیہ اجرت مزدور کی بات کرو ¿ں گا، جس کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں بیماری سے پہلے بھوکمری سے اُس کی موت نہ ہوجائے۔ بنیادی طور پر کوئی بھی ایسا انسان جو اپنی محنت کی ا ±جرت لیتا ہے وہ مزدور کہلاتا ہے۔ مزدور وہ محنت کش یا محنت فروش بھی ہے جو کسی فیکٹری یا صنعت میں کام کرتا ہے یا وہ انسان بھی جو گلی گلی صدا لگا کر اشیائے خوردونوش بیچتا ہے۔یہ طبقہ کس قدر متاثر ہوا ہے اس حوالے سے روزانہ ملک بھر سے دیکھنے ، پڑھنے اور سننے کو ملنے والی خبریں دل دہلا دینے والی ہیں، کس طرح لوگ ایک روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔ ایک ارب اور 30کروڑ کی آبادی کو گھروں میں محصور کر دیاجائے توظاہر ہے ، حالات سنگین ہوں گے اور سبھی کی مشکلات کا ازالہ کرنا حکومت کے بس میں بھی نہیں لیکن پھر بھی حکومت نے اپنی طرف سے راحت پیکیج کا اعلان کیا تاکہ غریب، کسان، مزدور، خواتین، یومیہ مزدور، بزرگوں، معذروں، بیواو ¿ں اور منظم شعبہ کے کارکنوں پر توجہ دی جاسکے۔
مزدوروں کی مشکلات پر بات کریں، اِس سے پہلے مناسب رہے گاکہ ’لاک ڈاو ¿ن ‘کے دوران راحت کے لئے حکومتی اقدامات کاذکر کرتے ہیں۔مرکزی سرکار نے غریبوں کی بہبودی کے لئے 1.70لاکھ کروڑ روپے کے امدادی پیکیج کا اعلان کیاہے ،اس کے تحت پردھان منتری کسان یوجنہ کے تحت 8.69کروڑ کسانوں کے کھاتوں میں پیسے ڈالنا،پردھان منتران یوجنہ کے تحت اگلے تین ماہ تک پانچ کلو اضافی گندم یا چاول اور ایک کلو دال دینا، منریگا کی اجرت 182یومیہ سے بڑھاکر202روپے کرنا، غریب، عمر رسیدہ، بیواو ¿ں اور معذور افراد کے کھاتہ میں ایکس گریشیا کے طور پر ایک ہزار روپے کی مدد، 20کروڑ جن دھن کھاتہ دار خواتین کے کھاتوں میں آئندہ تین ماہ تک پانچ پانچ سوروپے ماہانہ ،بی پی ایل طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین جنہیں اجولا اسکیم کے تحت گیس سلنڈرز دیئے گئے ہیں، کو آئندہ تین ماہ تک مفت گیس بھر کر دینا، سیلف ہلپ گروپ میں خواتین کو بغیر سود بیس لاکھ تک کے قرضہ جات دینا، وہ کمپنی، کارخانے یا ادارے جہاں ملازمین کی تعداد 100ہو اور اِس میں سے 90فیصد ماہانہ 15ہزار سے کم اجرت لیتے ہوں، کے پرویڈنٹ فنڈز کی رقم آئندہ تین ماہ تک دینا، بلڈنگ اینڈ ادر کنسٹریکشن ورکرز کے لئے 31ہزار کروڑ روپے دینے، کورونا وائرس مخالف لڑائی میں اپنی خدمات انجام دے رہے طبی ونیم طبی عملہ اور صفائی کرمچاریوں کو آئندہ تین ماہ تک پچاس لاکھ روپے انشورینس کور دینا شامل ہیں۔
جموں وکشمیر انتظامیہ نے بھی مرکز کے پیکیج کے تحت مستفیدین تک یہ مراعات اور رقومات پہنچانے کے اقدامات اُٹھانے کی بات کی ہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق وزیر اعظم کسان یوجنہ کے تحت جموں وکشمیر میں 6.8لاکھ کسانوں جبکہ پردھان منتری جن دھن یوجنہ کے تحت 8.47لاکھ خواتین کو مالی مدد فراہم کی جارہی ہے ۔پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا کے تحت اپریل اور مئی ماہ کی دوماہ کامفت پیشگی راشن 18 اپریل سے تقسیم کیا جانا ہے جس سے 72لاکھ مستحقین کو فائدہ حاصل ہوگا۔ 12.45 لاکھ مستحقین کومفت گیس سلنڈر بھر کر دینا، 6لاکھ طلباءکے لئے پری/ پوسٹ میٹرک وظائف ،1.7لاکھ رجسٹرشدہ مزدور / کنسٹرکشن ورکروں کو 1000روپے فی کس ادائیگی ،11.86لاکھ اَفراد کو منریگا رقومات تیزی سے اُن کے کھاتوں میں منتقلی کی جارہی ہے۔محکمہ اسکول تعلیم کی طرف سے مڈ ڈے میل کا خشک راشن اور آئی سی ڈی ایس کی طرف سے آنگن واڑی مراکز کے ذریعے بچوں کو غذائیت بھی تقسیم کی گئی ہے،اب یہ لوگوں تک کتنی پہنچی اور پہنچ رہی ہے، یہ طویل بحث کا موضوع ہے۔

یہ تو تھے حکومتی اعدادوشمار ، اب اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔بھارت کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں لوگوں کی بہبودی کے لئے سب سے زیادہ فلاحی اور ترقیاتی اسکیمیں چلاہی جارہی ہیں، حکومتی اعدادوشمار اور خزانہ عامرہ سے ہرسال واگذار ہونے والی خطیر رقومات کے اعدادوشمار آپ دیکھیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے مگر افسوس یہ کہ زمینی سطح پر اس خطیر رقم کا اثر اُتنا دکھائی نہیں دیتا۔ خزانہ سے 100روپے نکلتے ہیں تو زمینی سطح پر بمشکل 15تا20روپے خرچ ہوتے ہیں یا مستحق تک پہنچتے ہیں۔ کاغذی لوازمات اِس قدر پیچیدہ رکھے گئے ہیں کہ سارا عمل پورا کر تے کرتے اُتنی رقم تو مستفید کی جیب سے ہی خرچ ہوجاتی ہے۔ماضی کے تجربات اِس حوالہ سے تلخ ہی ہیں البتہ اُمید ہے کہ شاہد اس مرتبہ وباءکے خوف سے افسران، سرکاری ملازمین اور امدادی پیکیج کی تقسیم کاری عمل سے جڑے لوگ دیانتداری، ایمانداری اور تندہی سے اپنے فرائض انجام دیں گے اور یہ قلیل راحتی پیکیج متاثرین تک پہنچ جائے گی۔ سیاسی لیڈران، سماجی کارکنان، پنچایتی ممبران، سول سوسائٹی ممبران اور تعلیم یافتہ نوجوانوں پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اِس وقت کم سے کم یہ با ت یقینی بنائیں کہ اُن کے آس پاس محلہ /وارڈ میں جومستحقین ہیں، کیا انہیں حکومت کے امدادی پیکیج کا فائیدہ ملا، اگر نہیں تو انہیں درپیش آرہی مشکلات کو دور کرنے میں رہنمائی کریں۔گیس سلنڈر مفت بھرنے، مڈ ڈے میل اور آنگن واڑی کے راشن کی بچوں میں تقسیم کاری سے متعلق کئی شکایات ہیں ، جن کے ازالہ کی ضرورت ہے۔اُساتذہ اور آنگن واڑی ورکرز ہلپرز کو چاہئے کہ وہ بچوں کے اِس راشن کو امانت سمجھ کر تقسیم کردیں، زیادہ بچا کر گھر لانے کی کوشش نہ کریں ،یہ آپ کے اہل وعیال کے لئے مضرِصحت ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ یہ حق کسی اور کا ہے۔ آپ اگر حقدار تک حق نہیں پہنچائیں گے ، پھر بلامعاشرے میں کس اورسے توقع کی جاسکتی ہے۔اُمید پر دنیا قائم ہے ، نااُمیدی کفر ہے، لہٰذا ام بھی اچھے ہی اُمید ہی کرسکتے ہیں۔

حکومت نے منظم شعبہ کے ورکروں کی بات تو امدادی پیکیج میں کئی ہے لیکن غیر منظم شعبہ کے ورکرز اِس سے محروم رہے ہیں جن کی بھارت میں شرح ،سال 2006میں انٹرنیشنل لیبر یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق 82فیصد ہے۔سال 2011-12میں کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری(CII)کے بھارت میں مزدور طبقہ پر ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 1.79ملین کان کنی، 52.49ملین مینوفیکچرنگ، 1.21ملین بجلی وپانی سپلائی، 48.92 ملین تعمیرات ، 50.17 ملین ہوٹل وریستوران، 6.31 ملین تعلیم اور2.68ملین ورکرز صحت شعبہ غیر منظم زمرہ میں کام کر تے ہیں۔ نیشنل اسٹیٹکس کمیشن نے غیر منظم سیکٹر پر اپنی ایک رپورٹ میں اِس طبقہ کا ملکی پیداوار میں49.94فیصد حصہ بتایاگیا،حالیہ ایک رپورٹ میں یہ شرح 45 فیصد بتائی گئی ہے ، مختصر یہ کہ کوئی بھی رپورٹ اُٹھاکر آپ پڑھیں غیر منظم شعبہ سے جڑے محنت کشوں کی ملکی ترقی میں حصہ داری انتہائی اہم اور خاص ہے۔ ’کورونا لاک ڈاو ¿ن میں یہ اسی سیکٹر کے لوگ زیادہ متاثر ہیں۔

اِس غیر منظم شعبہ میں چونکہ ایک بڑھا طبقہ تعمیراتی کاموں سے جڑا ہے، جوکہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، اِن کے کام کی نوعیت عارضی ہوتی ہے، آجر اور ملازم کے تعلق کی نوعیت بھی عارضی اور کام کے اوقات بھی غیر معینہ ہوتے ہیں۔ ان مزدوروں کو فراہم کردہ بنیادی مراعات اور بہبودی سہولیات بھی ناکافی ہیں۔ اُن کے اندراج کی غرض سے مرکزی حکومت نے بلڈنگ اور دیگر تعمیراتی مزدور (روزگار کی باضابطگی اور ملازمت کی شرائط)ایکٹ1997نافذ کیا ۔ اسی کے تحت جموں وکشمیر میں سال 2007کو قانون لایاگیا ایک ایس آر او 232کے تحت تحت ’ جموں اینڈ کشمیر بلڈنگ اینڈ ادر کنسٹریکشن ورکرز ویلفیئر بورڈ‘کا قیام عمل میں لایاگیا ۔بورڈ کے ساتھ رجسٹرڈ ورکروں کے لئے کئی مراعات رکھی گئی ہیں ، جیسے کے بچوں کی پڑھائی کے لئے اول تا پانچویں جماعت تک سالانہ 2500روپے، چھٹی سے آٹھویں تک 3500، نویں سے دسویں 4500، گیارہویں سے بارہویں تک چھ ہزار، گریجویشن کے دوران 10ہزار اور پی جی کورس پر 15ہزار روپے کی امداد، ایک سالہ پیر میڈیکل یا آئی ٹی آئی کا ڈپلومہ کرنے پر10ہزار، تین سالہ ڈپلوامہ پر30ہزار اور ڈگری کورس پر50ہزار روپے کی امداد د۔ خواتین ورکرز کو زچگی پر پانچ ہزار روپے، رجسٹرڈ ورکرو کی موت پر دو لاکھ ، زخمی ہونے پر5ہزار، عارضی معذوری پر10ہزار، مستقل معذور ی پر75ہزار اور موزی بیماری کے علاج کے لئے1لاکھ روپے کی مدد رکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ’محافظ اسکیم‘بھی چلائی جارہی ہے جس کے تحت ورکر کی قدرتی موت پر گھرکے نامزد کردہ فرد کو2لاکھ روپے، حادثاتی موت پر4لاکھ، ورکروز کی معذور پر1لاکھ، مستقل معذوری پردو لاکھ روپے کی امداد کا پرویژن ہے جبکہ ورکرسمارٹ اے ٹی ایم کارڈ پر وہ دس ہزار روپے تک کا قرضہ لینے کا بھی مجاز رہتاہے۔

جموں وکشمیر میں بورڈ تو بنا لیکن ورکروان کے اندراج پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، اگر کسی ورکرنے اندراج کرانے کا عمل شروع کیاتو کنسٹریکشن اینڈ ادرز ورکرز ویلفیئر بورڈ میں کاغذی لوازمات اور رشوت کا اتنا چلن تھاکہ اُس نے تھک ہارکر اندراج کا ارادہ ہی ترک کرڈالا۔ جموں وکشمیر میں تعمیرات واِس سے منسلک کاموں سے جڑے مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، آبادی کا ایک بڑھا حصہ اِس غیر منظم سیکٹر سے منسلک ہے مگر مذکورہ بورڈ اندراج بہت کم کا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق رجسٹرڈ ورکروں کی تعداد محض1.6لاکھ ہے، جس وجہ سے ورکروں کی اکثریت متذکرہ مراعات سے فائیدہ اُٹھانے سے محروم ہیں۔کورونا وائرس وباءہمیں بہت سبق سکھارہی ہے، یہ بھی ہمیں سیکھ لینا چاہئے ، آئندہ محنت کشوں کے اس طبقہ پر خاص توجہ دی جائے ، ایسے ورکروںکے اندراج کے لئے پنچایتی سطح پر خصوصی کیمپ لگائے جائیں اور کاغذی پیچیدہ پن کو کم سے کم کر کے ایسے حالات کے لئے ورکر کو محفوظ کیاجائے۔اس طبقہ میں زیادہ ناخواندہ ، سادہ لوح لوگ ہوتے ہیں، جنہیں حکومت کی اسکیموں اور اُن سے فائیدہ حاصل کرنے کی جانکاری نہیں ہوتی، اس لئے انہیں انتظامی وحکومتی سطح پر خاص ہمدردی اور توجہ دینی ناگزیر ہے۔

بات مزدور کی ہورہی ہے تو بیرونِ ریاست درماندہ مزدوروں کی بات نہ کریں تو زیادتی ہوگی۔لاک ڈاو ¿ن سے ہندوستان بھر میں الگ الگ ریاستوں کے مزدور پھنس کر رہ گئے ہیں۔ جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے ایسے مزدوروں کی تعداد چار ہزار سے زائد جوکہ ہماچل پردیش، راجستھان، پنجاب، دہلی، ہریانہ میں اِس وقت مشکل حالات سے گذر رہے ہیں،کھانے کو سامان اور نہ ہی رہنے کو ٹھکانہ ہے۔ یہ لوگ دن کام کرتے تھے اور رات کھانے کا بندوبست کرتے تھے ، مگر اب سب کچھ ٹھپ ۔جموں وکشمیر انتظامیہ نے بیرون ریاست کے ایسے 138طلاب اور 31239مزدوروں کوامداد پہنچانے کا بیڑا اُٹھایا ہے مگربیرون ِ ریاست ہمارے مزدور فاقہ کشی پر مجبور ہیں، ہماچل میں تو اِن مزدوروں کی مارپیٹ بھی کی گئی۔ درماندہ مزدوروں کے لئے نئی دہلی میں ریذیڈنٹ کمشنر دفتر میں جوہلپ لائن قائم کی گئی تھی وہ بھی بھدامذاق ثابت ہوئی ہے، اول تو کوئی فون اٹھاتا نہیں، اگر غلطی سے اٹھابھی لیا تو جوشکایت کی جاتی ہے اُس پر کارروائی نہیں ہوتی۔جموں وکشمیر انتظامیہ کو چاہئے کہ ضلع سطح پر ایسے افراد کے لئے مخصوص ہلپ لائن نمبر مختص کی جائے، جہاں درماندہ مزدوراز خود یاپھر اہل خانہ اُن کے بارے میں بتا سکیں۔ لاک ڈاو ¿ن میں اگر اُن کی گھر واپسی ممکن نہیں تو کم سے کم متعلقہ ریاستوں کی حکومت اور متعلقہ ضلع انتظامیہ سے رابطہ کر کے وہاں تو مزدوروں کے طعام وقیام کا انتظام کیاجائے ، آخر یہ ہمارے شہری ہیں، حکومت اُن کے تئیں ذمہ داری سے منہ نہیں پھیرسکتی !

بقول علامہ اقبالؒ

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

نوٹ:کالم نویس روزنامہ اُڑان کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں

ای میل:[email protected]