ہندوپاک کے مابین پانچویں جنگ کو ٹالنے کے لئے فوری اعلیٰ سطح پر سمٹ منعقد کرنے کی ضرورت

ہندوپاک کے مابین پانچویں جنگ کو ٹالنے
کے لئے فوری اعلیٰ سطح پر سمٹ منعقد کرنے کی ضرورت
بابو سنگھ
نیچر مین کائنڈ فرینڈلی گلوبل پارٹی14فروری 2019کو جموں وکشمیر ریاست میں جموں سرینگر قومی شاہراہ پر پلوامہ ضلع میں لیتہ پورہ کے مقام پرسی آر پی ایف کانوائے پر خود کش حملہ، جس میں 49سی آر پی ایف اہلکار جاں بحق اور کئی دیگر زخمی ہوگئے، کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ یہ ایک بزدلہ اوردہشت ناک حرکت تھی، ہم اس دلدوز سانحہ میں جاں بحق ہوئے اہلکاروں کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
سی آر پی ایف کانوائے پر خود کش دھماکہ اس سے قبل کبھی بھی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل قومی شاہراہ پر پیش نہیں آیا، خاص طور سے تب جب پولیس کے پاس خفیہ اطلاعات تھیں اور جس سے سبھی پیرا ملٹری فورسز کو باخبر کیاگیاتھا۔ خونین جنگی زون میں یہ ملٹری کی ایک بڑی بھول وچوک ہے، جہاں پر سال1988سے کم شدت کی شہری جنگ سیکورٹی فورسز اور جنگجوو¿ں کے درمیان جاری ہے۔ بڑی تعداد میں جموں وکشمیر کے نوجوان جنہیںترغیب دیکر ملی ٹینسی کے خطرناک راستے کو چننے پرمجبور کیاجارہاہے ،وہ سیکورٹی فورسز کی جھڑپ میں مارے جارہے ہیں جس سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اگر عادل نامی نوجوان حصولِ آزادی کے لئے اپنے آپ کو خود کش دھماکہ کی نذر کرسکتا ہے اور متعدد نوجوان بلاکسی خوف ذہنی طور مرنے کے لئے تیار ہیں۔یہ اُس سنگین امرکی طرف اشارہ ہے کہ کس قدرنوجوانوں میں اعلیحدگی پسندی کا رحجان اور غم وغصہ ہے جوکہ جموں وکشمیر میں آج کل دیکھاجارہاہے۔ ہمارا ماننا ہے اور مشورہ بھی ہے کہ کسی بھی حد تک طاقت اور ’جموں وکشمیر میں جبرکی پالیسی‘ اس غم وغصہ اور اعلیحدگی پن کو ختم نہیں کرسکتی۔
پلوامہ خود کش بم دھمامہ طالبان اور ایل ٹی ٹی ای طرز کی خطرناک ملی ٹینسی کے مرحلہ کی جموں وکشمیر میں آمد کا اشارہ ہے۔ اس کے یقینی طور پر خطرناک نتائج برآمد ہوں گے جوکہ سال1947میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہوئی تقسیم کے بعد سے ہی حساس سہ فریقی جموں وکشمیر کے سیاسی تنازعہ کو ہینڈل کرنے میں غلط سیاسی وملٹری پالیسیوں سے پہلے ہی ابتر ہے۔ ہمیں ماضی کی جنگوں اور سیاسی تنازعات سے تاریخی تجربات سیکھنے چاہئے ، خاص طور سے حالیہ امریکہ۔ طالبان ملٹری تنازعہ اور مذاکراتی عمل سے۔تاریخی تجربات اور موجودہ بین الانحصار عالمی سماجی حقیقت کے تناظر میں ہمیں ’جموں وکشمیر میں طاقت کی پالیسی‘کو ترک کرنے کی ضرورت ہے۔ اندروانی اور خارجی پہلوو¿ں کے سدباب اور بامعنی مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لئے ہمیں انتہائی صبروتحمل اور حکمت عملی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بجائے لوگوں کو مارنے اور ان کی آواز دبانے، مثبت طرز عمل سے ان کے دل ودماغ جیتے جاسکیں۔ہندوپاک کی جامع ترقی، جنوبی ایشیاءاور عالم انسانیت کی بہتری کے لئے جموں وکشمیر اور ہندوپاک کے مابین دیگر تنازعات کو حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پلوامہ خود کش کار دھماکہ پر ملک کے اطراف واکناف سے شدید رد عمل دیکھنے کو ملا ہے ۔پلوامہ حملہ کے جو سنگین اثرات کشمیری عوام پر تشدد، انہیں ہراساں کرنے اور گالی گلوچ کے علاوہ پاکستان کے خلاف سخت ترین غم وغصہ اور نفرت کی صورت میں دیکھنے کو ملے ہیں۔ جموں میں فرقہ وارانہ تشدد، کشمیریوں پرحملے، نجی گاڑیوں کو نذ رآتش کرنے اور جانی پور کالونی میں ملازمین پر فرقہ وانہ حملوں، ملک بھر میں کشمیری طلبہ کو ہراساں کرنے اور ان پر حملوں کے بعد خود وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اِ س کا احساس ہوا اور انہوں نے لوگوں سے کشمیری عوام کو بطور شہری تحفظ دینے کی اپیل کی۔ کشمیریوں کا سماجی بائیکاٹ، آرمی جنرل کی طرف سے کشمیری ماو¿ں کو ان کے نوجوانوں کو مارنے کی دی گئی دھمکی، آسام کے گورنرتیتھاگاٹ رائے کی طرف سے کشمیری مصنوعات کا بائیکاٹ کال، بڑے پیمانے پر جموں وکشمیر کے لیڈران کی گرفتاریاں، سندھ طاس آبی معاہدہ کے تحت پاکستان کی طرف بہنے والے مشرقی دریاو¿ں کے پانے کو روکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ سندھ طاس آبی معاہدہ کے تحت95فیصد پانی مشرقی دریاو¿ں کاپانی پہلے ہی ہندوستان استعمال کرتا آرہاہے جبکہ پانچ فیصد پانی سیلاب اور اپنا ڈھانچہ نہ ہونے کی کمی کی وجہ سے استعمال نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے ساتھ کرکٹ عالمی کپ میچ نہ کھیلنے کی دھمکی، پاکستانی فنکاروں سے کام نہ کرنے اور انہیں کام نہ کرنے دینے کی دھمکی، سب کچھ پلوامہ حملہ کے بعد ہوا ہے۔ اس فرقہ وارانہ مہم ، نفرت، تعصب کو جانبدارانہ میڈیا کی مدد سے اتنی ہوا دی گئی کہ عوام کا غم وغصہ ساتویں آسمان پر دیکھنے کو ملا۔ ہم نے شرمناک طریقہ سے ہندوستان کی اپوزیشن جماعتوں اور سیاسی لیڈرشپ کوفرقہ وارانہ ماحول کے دباو¿ میں سرینڈر ہوتے بھی دیکھا جنہیں ایسا نہ کرنے پر ووٹ بنک کھونے کا بھی خطرہ تھا۔
یہ یقینی طور پر ایک لمحہ فکریہ اور تشویش کن سیاسی صورتحال ہے۔ امن پسند عام لوگ، امن کارکنان، مثبت سوچ رکھنے والے لوگ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ خارجی طور پر ہم ہندوپاک کے مابین جنگ کی سطح تک پہنچ چکے ہیں جبکہ اندرونی فرقہ وارانہ شہری جنگ کا خطرہ منڈلا رہاہے۔ ہم پرزور طریقہ سے اس فرقہ وارانہ پاگل پن اور جنگی جنون کی مذمت کرتے ہیں۔عزت مآب گورنر جموں وکشمیر اور حکومتِ ہندکو ضروری اقداما ت اٹھانے چاہئے تاکہ دھمکیوں،حملوں اور سماجی بائیکاٹ کے واقعات کو روکاجاسکے۔
سی آر پی ایف اہلکاروں پر پلوامہ حملہ نے جنگی جنون اور فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر دیا ہے جس سے اندرونی ملی ٹینسی جنگ اور کاو¿نٹر انسرجنسی کو نئی بلندی پر پہنچایا ہے جس سے ہندوستان اور پاکستان پانچویں دور کی جنگ کی اور بڑھ رہے ہیں جوکہ نوکلیر جنگ کے ہولوکاسٹ میں بھی تبدیل ہوسکتی ہے۔ہندپاک نیوکلیئر جنگ سے100کروڑ سے زائد لوگ مرسکتے ہیں اور اس سے جموں وکشمیر، ہندوستان، پاکستان اور جنوبی ایشاءمیں بالخصوص اور دنیا میں بالعموم ناقابل تصور تباہی ہوگی۔
فرقہ وارانہ سیاسی ذہنیت، جنگی جنون اور یرغمالی رویہ ،جموں وکشمیر کی غلط پالیسیاں، سال1947سے ہندوستان اورپاکستا کے درمیان سفارتی سطح پر ہاٹ کولڈ وار اور سہ فریقی متنازعہ جموں وکشمیر متعلق مرکزی سرکار کا غیر حقیقی رویہ، چند اہم وجوہات ہیں جوکہ ہندوستان اورپاکستان کے درمیان جنگی صورتحال ہے۔یہ ہندوستان ور پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہے جوکہ جدیدمعیشت کے طور ترقی کر رہے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ زائد معیاد بنیادی نظریہ کی تجدیدہو ،نظرثانی ہوا اور اس پردوبارہ سوچا جاسکے۔ عالمی حقائق اور تلخ تاریخی تجربات سے دونوں ممالک کو سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
سہ فریقی جموں وکشمیر تنازعہ سال 1947میں فرقہ وارانہ بنیادپر ہندوستان کی تقسیم اور 1947میں قبائلی حملہ کا نتیجہ ہے۔ در اصل جموں وکشمیر بنیادی اور اصولی فریق ہے اس سیاسی تنازعہ کا لیکن 1947سے پاکستان کا اس میں شامل ہونے سے یہ ہندوستان، پاکستان اورجموں وکشمیر کی عوام کے درمیان ایک سہ فریقہ سیاسی تنازعہ بن گیاہے۔جموں وکشمیر میں ملی ٹینسی سال 1988میں شروع ہوئی جوکہ ہندوستان پاکستان کی لگاتار یلغار اور ظلم وجبرکانتیجہ ہے جس نے جموں وکشمیر کی عوام کو مکمل طورالگ تھلگ کردیا۔ہندوپاک کی مخاصمتی سیاست اور جموں وکشمیر کے متعلق غیر حقیقی پالیسیوں سے صورتحال تشویش کن ہے اور عدم اعتماد بہت بڑھ گئی ہے۔
جموں وکشمیر کی طرف سے ملی ٹینسی کا راستہ، انڈین سٹیٹ کی طرف سے جموں وکشمیر تنازعہ پر کاو¿نٹر انسرجنسی کاراستہ اور ہندوپاک جنگ کا راستہ خودکشی کے مترادف اور غیر انسانی ہیں۔جنگ ،ملی ٹینسی اور کاو¿نٹر انسرجنسی کاراستہ جموں وکشمیر کے سہ فریقہ تنازعہ کے بنیادی نیچر کے خلاف ہیں، جنگ، ملی ٹینسی اور کاو¿نٹر انسرجنسی سے جموں وکشمیر کے مسئلہ کو حل کرنے کا طریقہ بہت خطرناک ثابت ہوا ہے۔یہ عالمگیریت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ہمارا مشورہ ہے کہ دونوں انڈین ایسٹابلشمنٹ، ہندوستانی عوام ، پاکستانی ایسٹابلشمنٹ اورپاکستانی عوام تشدد کا راستہ ترک کر یں اور جنگ، ملی ٹینسی میں مسئلہ کا حل تلاش کرنا چھوڑ دیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا جنگ بھی بند کرنے کی ضرورت ہے۔عوام سے عوام کا رابطہ اور معنی خیز مذاکراتی عمل ہی سیاسی تنازعہ کا بہترین حل ہے۔ بڑھتی عالمگیریت ملکوں اور ریاستوں میں امن، دوستی ،تال میل، یکجہتی کی مانگ کرتی ہے۔ اس وقت مل جل کر عالمی چیلنج، گلوبل وارمنگ، موسمی تبدیلی اور دیگر مسائل کے خلاف لڑائی لڑنے کی ضرورت ہے جوکہ مجموعی طور پر بقاءانسانیت کے لئے ناگزیر ہیں،۔
پلوامہ حملہ کے بعدخطرناک جنگی جنون اور فرقہ وارانہ ماحول سے پیداشدہ صورتحال کے تناظر میں نیچر مین کائنڈ فرینڈلی گلوبل پارٹی وزیر اعظم ہند سے اپیل کرتی ہے کہ حتمی المکان تحمل برتاجائے اور پاکستان جوکہ اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہے کہ ساتھ ملٹری تنازعہ کا راستہ اختیار نہ کیاجائے۔ جنگ اور ملٹری تنازعہ سے سے پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم ہوجائے گا اور اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔ جنگی جنونیوں کے مشورہ کے بجائے ڈپلومیٹک راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان سے بھی اپیل ہے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کو سمجھیں اور مخلصانہ طور انسدادِ دہشت گردی کے لئے تعاون کرنا چاہئے۔ عراق، سیریا ، افغانستان اور وسطی اشیاءمیں تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لئے استعمال ملٹری کے نتائج برے نکلے ہیں جس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہئے۔
یہ ایک تلخق حقیقت ہے کہ ملی ٹینسی اور مسلح لڑائی جوکہ غیر ریاستی عناصرچلارہے ہیں اور ہندوستانی ریاست کی طرف سے کاو¿نٹر ملی ٹینسی نے شاہد ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کو بری طرح متاثر کیاہے۔
نیچر مین کائنڈ فرینڈلی گلوبل پارٹی دونوں ممالک کے وزر اعظم یعنی نریندر مودی اور عمران خان سے اپیل کرتی ہے کہ فوری طور پر اعلیٰ سطح پر ہندوپاک سمٹ بلائی جائے تاکہ موجودہ جنگی صورتحال سے نپٹاجاسکے۔ پلوامہ حملہ کے متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے لئے مل کر دونوں تحقیقات کے لئے طریقہ کار اختیار کریں۔ فائربندی کے لئے دونوں سطح پربات چیت ہو، حکومت عملی اپنائی جائے کہ کس طرح سہ فریقہ تنازعہ جموں وکشمیر کو حل کیاجاسکتا ہے۔
تنازعہ جموں وکشمیر کے حل کے لئے ہماری نظرمیں یہ روڈ میپ ہے کہ جموں وکشمیر ریاست کے دونوں منقسم حصوں کو ملا کر ’گریٹر اٹانومس فیڈرل سٹیٹ‘بنائی جائے اور ہندوستان پاکستان کنفیڈریشن کے تحت وفاقی اسمبلی اور علاقائی اسمبلیاں ہوں۔ اس روڈ میپ کے علاوہ، اگر کوئی ایسا حل جوہندوستان، پاکستان اور جموں وکشمیر کے عوام کے مفادات میں ہو اور تینوں فریق، اس پر متفق ہوجائیں، بھی قابل قبول ہوگا۔ دوسرے مرحلہ میں نیچر مین کائنڈ فرینڈلی انڈوپاک کنفیڈریشن کی تعمیرمساوات کی بنیاد پر کی جائے۔ تیسرے مرحلہ میں نیچر مین کائنڈ فرینڈلی ساو¿تھ ایشین کنفیڈریشن کی بنیاد رکھی جائے۔ ہندوپاک کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعہ ہی کیاجائے۔ یہ سہ تنازعہ فریقی جموں وکشمیر کے ایک قابل عمل راستہ ہے ۔ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر اور جنوبی ایشیاخطہ میں دیرپاقیام امن، تعمیر وترقی، خوشحالی کے لئے دونوں مملکوں کے سربراہان کو اس مسئلہ کے حل کو یقینی بناناہوگا۔
٭٭٭٭٭٭
9419000204
نوٹ:مضمون نگار نیچر مین کائنڈ فرینڈلی گلوبل پارٹی کے بانی چیئرمین ہیں۔