پلوامہ کانزلہ جموں پر گرا کیوں؟ حکومت نہ دیدم حفاظت نہ دارم


ایم شفیع میر
7780918848

جموں سمیت دیگر ریاستوں میں زیر تعلیم کشمیری مسلم طلبہ و طالبات ، تاجرین وغیرہ پر پل پڑنے کی جنونی لہر کے خلاف17؍فروری ایتوار کو کشمیر اکنامک الائنس، کشمیرٹریڈرز فیڈریشن کی کال پر کشمیر بند ہو ا۔ ہڑتال کال کی حمایت ہائی کورٹ بار ایسوسی ا یشن سرینگر نے بھی کی تھی۔ بانہال میں بھی ایتوار کو اس حسا س مسئلے پر مکمل ہڑتال کی گئی۔ یہ بند گورنر انتظامیہ کو احتجاج کی زبانی پیغام تھا کہ کشمیریوں اور جموی مسلمانوں کو تحفظ دیا جاسکتا جن پر خواہ مخواہ پلوامہ حملے کا نزلہ گریا گیا ۔ ہڑتال کا یہ اقدام اس تعصب وتنفر کی بڑھتی ہوئی لہر کے خلاف عوامی ردعمل کہلاسکتا ہے ۔ مسلمانوںکو تنگ طلب کر نے کی شروعات 15؍ فروری سے ہی ہوئیں۔ قبل ازیں جنوبی کشمیر کے ہنگامہ خیز علاقہ پلوامہ میںجمعرات 14؍ فروری کو ایک خود کش حملے میں 49؍سی آر پی ایف اہل کار وںکی ہلاکت پر اپنا دکھ جتانے کے لئے 15؍فروری کوجموں چیمبر آف کامرس کی کال پر ہڑتال اور احتجاج ہوا،اور اس دوران جموں میں جابجا مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے یکایک تشدد بھڑکا یا گیا ۔ لطف یہ کہ کر فیو کے باوجود مشتعل ہجوموں نے جموں کے مختلف علاقوں مثلاً گوجر نگر ، پریم نگر، ریذیڈنسی روڈ، جانی پور ، سنجواں، جیول چوک وغیرہ میں جمع ہوکر درجنوں گاڑیوں کی بے تحاشہ توڑ پھوڑ کی ، کہیںکہیں گاڑیوں کو بھی نذر ِ آتش کر دیا، پتھراؤ بھی کیا جس کے نتیجے میں کئی ایک معصوم وبے قصور افراد شدید زخمی ہوئے ۔بلوائی ہجوم در ہجوم سنگھرش سمتی اور ہندو ایکتا منچ کی روایت کے عین مطابق تر نگا ہالہراتے ہوئے مسلم علاقوں میں گھس آئے اور پولیس کی موجودگی میں اپنا سارا ننگا ناچ ناچتے رہے ۔ ستم ظریفی یہ کہ جو فوج،نیم فوجی دستے اور پولیس آج تک کشمیر میں پتھر کے بدلے پیلٹ اور بُلٹ کا فارمولہ اپنا کر معتدبہ تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار گئی ، ان کو زخم زخم کر کے مفلوج ومعذوربنا گئی ،یہی پولیس بشمول سول انتظامیہ جموں میں تشدد پر آمادہ بلوائیوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہے ۔ ابترحالات کی یہ تصویر افسوس ناک ہی نہیں بلکہ انتظامیہ کو بھی صفائی کے کٹہرے میں کھڑا کر تی ہے ۔ جموں میں عینی شاہدین انگشت بدنداں ہیں کہ آخرپولیس نے بلوائیوں کو اتنی چھوٹ کیوں دی کہ ا نہوںنے یہاں مسلم آبادی والے علاقوں میں شر پسندی کی حدیں توڑ کر رکھ دیں اورثابت کیا کہ ریاست میں قانون کی حکمرانی نام کی بھی نہیں ، سیکولرازم قصہ ٔ پارینہ ہے، مسلم دشمنی کا بول بالا ہے، بھائی چارہ ایک بھولی بسری کہانی ہے جسے نہ کوئی سننا چاہتا ہے نہ سنانا چاہتا ہے ۔افسوس اس بات کا ہے کہ مفاد پرست سیاست دانوں نے جموں میں ہندو مسلم بھائی چارے کو زک پہنچانے والوں کے اس طوفان ِ بدتمیزی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر لی ہے ۔ یہ انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے کہ شر پسنداور فسطائی ذہنیت والے غنڈوں کو جموں کی مسلم بستیوں میں منظم انداز میںدھاوا بول کر صوبے کے پُر امن ماحول میں زہر گھول دینے کا موقع دیا گیا۔ 15؍فروری کی صبح کوجب یہاں بیمار ذہن شرپسند وں نے مسلم دشمنی کی آگ میں جل بُھن کر مسلم آبادیوں کا رُخ کیا تو ان رہائشی بستیوں میں رہنے والے انسانیت نواز ہندو ؤں کو داد دینی چاہیے جنہوں نے عقل ودانش اور انسانی اصاف کا ثبوت دیا اور بلوائیوں کو سمجھا بجھا کر ان کے دلوں میں فرقہ واریت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کافی کوشش کی ۔ وجہ ظاہر ہے کہ جو لوگ انسانوں کی دنیا میں رہتے بستے ہوں، اُن کا رویہ بھی انسانوں کی طرح ہی مہذبانہ ہوگااور جو لوگ حیوانوں کی دنیا میں وحشتوں کی غذا اور نفرتوں کی ہوا پر پلتے ہوں ، وہ وقتاً فوقتاً اپنی حیوانیت پر اُترہی آتے ہیں۔ اس نازک گھڑی میں جموں کے گوجر نگر ، پریم نگر، تالاب کھٹیکاں، سنجواں وغیرہ میں رہ رہے ہندوئوں کی معاملہ فہمی اور انسان ودستی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ کم ازکم انہوں نے دکھایا کہ واقعی یہ لوگ ایک ہاتھ مہذب اور ودسرے ہاتھ اپنے مذہب کے حقیقی پیروکار ہیں ۔ انہوں نے بجرنگ دل ، شوسینا،بھاجپا اور آرایس ایس کے حامیوں کی طرف سے مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچانے و الی شرپسندانہ حر کات کی شدید الفاظ میں مذمت بھی کی۔ اس بیچ ایک جانب جہاں پورے جموں میں تادم تحریرآپسی بھائی چارہ دائو پر لگا ہوا ہے، وہاں دوسری جانب ہمارے کرم فرما سیاست کار ان مشکل ترین گھڑیوں میں کوئی قابل ِستائش کام کر نے کے بجائے صرف بھڑکائو بیان بازی کئے جارہے ہیں۔جموی سیاست دان چاہیے وہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتے ہوں، سب کی منشا ء حسب عادت یہی تھی کہ پلوامہ فدائی حملے کے بہانے اس بار مسلمانوں کو خوب ستایا جائے ،ان کی مار دھاڑ کی جائے ۔ عملی طوروہی ہوا جو ان مکار ، دغا باز، بداخلاق اور انسانیت سے عاری سیاست دانوں کی سیاسی مرضی یا مجبوری تھی۔ صوبہ جموں کو اپنی جاگیر سمجھنے والے جموی ان سیاست سوداگروں کی سیاست کٹھوعہ سے کنک منڈی تک محدود ہے ،جہاں انہوں نے فسطائیت اور مردم آزاری کے گودام بنائے رکھے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ کشمیری مسلمان شرپسندوں کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں اور یہ نام نہاد سیاست دان اپنی ڈھائی ضلع طول وعرض والی سیاسی دوکان میں بیٹھے بلوائیوں کے پاگل پن کا نظارہ بھی کرتے رہے اور تائید بھی کر تے رہے۔انسانیت یا مانوتا کس بلاکا نام ہے، ا س پر ان کاکوئی ایک بھی شبد زبان پرنہیں آیا۔ البتہ اگر کسی نے کوئی بھڑکاؤ بیان دیا بھی تو وہ فرقہ پرستانہ سیاست کر نے والے رویندرینہ کا تھا ۔ان کی ذہنیت سے شاید ہی ریاست کا کوئی فرد بشر نا واقف ہو اور یہ کہ وہ بھڑکاؤ بیان بازی میں بڑے مشہور ہیں۔رویندر رینہ ہندو مسلم بھائی چارے کے ویسے ہی بیر رکھتے ہیں جیسے گاندھی کے ساتھ ناتھو رام گوڈسے کی دشمنی تھی۔ جو لوگ گوڈسے کو اپنا سیاسی گرو مانتا ہوں ، وہ کس قدر انسانیت کے علمبرار ہو سکتے ہیں، یہ بات محتاج تشریح نہیں۔
ا س دور میں گوڈی میڈیاایک منافع بخش انڈسٹری بن چکی ہے جو رات دن ملکی مفاد کو پر موٹ کر نے کی بجائے تعصبات اور تنگ نظریوں کا پاٹھ پڑھ رہا ہے ۔ جموں کے حالیہ واقعات کے بارے میں بھی بکاؤ میڈیا کا یہی کردار رہا ۔اس کی من گھڑت رپورٹیں انصاف پسند عوام کو ایک آنکھ نہ بھائیں لیکن اگر ارباب ِ حل و عقد ان کو صحیح ماننے لگ جائیں تو سمجھ لیجئے کہ ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جس میںمیڈیا خود جمہوریت کے لئے خطرے کا الارم بناہوا ہے۔ ایسے ہی رپورٹروں نے پریم نگر، گوجرنگر، کھٹیکاں تالاب میں بلوائیوں کی کھلی مسلم دشمنی دیکھ کر بھی بھائی چارے کو زک پہنچانے والی اورسماج میں نفرت کا زہر گھولنے والی خبریں، تصویریںاور رپوٹیں منظر عام پر لاکر ایک خاص مسلم دشمن ایجنڈے کی آبیاری کی نہ کہ پیشہ ٔ صحافت کی اعتباریت اور صداقت کا بھرم قائم رکھا ۔ یہ چیز صحافت جیسے ذمہ دار شعبے پر بدنما داغ دھبہ ہے کہ بکاؤ میڈیا نتائج سے بے نیازہوکر آگ پر پانی ڈالنے اور آتشیں جذبات کو ٹھنڈا کر نے کی بجائے جنونیوں کو اور زیادہ خون کا پیاسابنانے اور ان کے سیاہ دلوں میں بدلے کی بھاؤنا جگانے کی نامراد کوششیں کرے۔اگر سماج میں میڈیا کو سچ میںبھائی چار ے کو قائم کرنا اورا سے تقویت دینا مقصودہے تو صحافت سے جڑے لوگوں کو این ڈی ٹی وی کے رویش کمار جیسا بننا ہوگا اورا ن لوگوں کو چاہیے کہ وہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو بچانے کے لئے فتنہ پرور ذہن رکھنے والی کالی بھیڑیوں کو ننگا کریں، وگرنہ آج کے مفاد پرست زعفرانی صحافی سماج میں بھائی چارے کو ختم کر کے دم لیں گے لئے اور ان کی زبان اور قلم سے ہمیشہ زہر ہی اگلے گا۔
جموں میں پیش آئے افسوس ناک مسلم دشمن واقعات پر تجزیہ کار کف ِافسوس مل ر ہے ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ اگر سیاسی سوداگروں نے شرپسندوں اور بلوائیوں کو روکنا تو ودر ان کی بدتمیزیوں پر کوئی لب کشائی نہ کی تو ناقابل معافی جرم ہی سہی مگر پھر بھی اس قابل نفرین طرزعمل کو اُن کی سیاسی مجبوری سمجھا جاسکتا ہے، لیکن ا س سے زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ ریاستی انتظامیہ اس تمام گھمبیر صورت حال کو دیکھتے بھالتے بھی خاموش ہی نہ رہی بلکہ بلوائیوں کی دھماچوکڑیوں سے آنکھیں بند کر کے انہیں گویا تشدد اور تخریب کی آگ بھڑکا نے کی اجازت بھی دی۔ حالانکہ گورنر ستیہ پال ملک کی سربراہی والی حکومت میں جس طرح پلوامہ حملہ ایک بہت بڑا سنگین واقعہ سمجھا جاتاہے، بالکل اُسی طرح شرپسندوں کا جموں کی مسلم آبادیوں پر پولیس کی موجودگی میں بلا روک ٹوک دھاوا بولنا، تخریبی کارروائیاں کر نا، مارکٹائی کر نا بھی ایک بہت بڑا واقعہ سمجھا جانا چاہیے۔ گورنر ملک کشمیر اور اہل کشمیر کے بارے میں کبھی کبھی غیر روایتی بیان دے کرکے کشمیر میں پا ئی جارہی سیاسی بے چینی پر دلی اور ریاست کے اقتداری سیاست دانوں کی خبر تک بڑی خوبی سے لیتے ہیں کہ نامساعدحالات کے متاثرہ عوام کو بسااوقات لگتا تھا کہ کوئی ہے جو اُن کے دُکھ درد کو سمجھتاہے ، مگر آج کی تاریخ میں تلخ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی ناک کے نیچے پلوامہ کانزلہ جموں میںمسلمانوں گرایا جارہاہے ،ان کو یشان و ہراسان کیاجارہاہے ، بلوائی اور شرپسند پوری آزادی کے ساتھ تخریبی کارروائیاں کر تے ہیں ،کشمیرکے دربار مو مسلم ملازمین کے سرکاری کوارٹروں میں گھس کر شرپسند چن چن کر ان کی گاڑیاں نذرآتش کرتے ہیں اور حالات اتنی گھمبیرتا اختیار کر تے ہیں کہ سیکرٹریٹ ملازمین یونین کے صدر غلام رسول میر حکومت کو علانیہ خبردار کر نے کی ضرورت محسوس کر تے ہیں کہ اگر ہمیں تحفظ نہ دیا گیا تو ہم واپس کشمیر لوٹیں گے۔ گورنر انتظامیہ کے لئے یہ بات کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں کہ حکومت کے دست وبازو کہلانے والے ملازمین خود کو غیر محفوظ سمجھ کر جموں سے بھاگ کھڑا ہونے کا انتباہ دینے پر مجبور ہورہے ہیں۔اس سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے کہ جموں کامقامی مسلمان یا کشمیری مسلمان کس قدرعدم تحفظ شکار اور نفسیاتی پسپائی سے دوچار ہیں ۔ اس وقت بھی جموں میں کرفیو لگاہوا ہے اور کشمیری مسلمان خود کو گھروں میں محصور کر کے بالمعنیٰ جیل خانے میں گزر اوقات کر رہے ہیں۔ کیا یہ صورت احوال گورننس کی ناکامی نہیں سمجھی جائے گی ؟
اس ناگفتہ بہ صورت حال کو آنے والے انتخابات سے جوڑا جائے تو سمجھ میں یہی آتا ہے کہ سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی سی آر پی ایف جوانوں کی افسوس ناک ہلاکت پر سوگ منانے سے زیادہ سیاست کر رہے ہیں ۔ ا سپر مستزاد یہ کہ ریاستی گورنر ستیہ پال ملک کے ابتدائی بیان کے مطابق پلوامہ میں ہوا حملہ کچھ حدتک انٹلی جنس کی ناکامی کا نتیجہ ہے ۔ نیز سوال یہ بھی ہے کہ ریاستی پولیس نے اگر سی آرپی ایف سمیت فورسز اور خفیہ ا یجنسیوں کو پہلے ہی مطلع کیا تھا کہ کچھ لاوا اندر ہی اندر پک رہاہے تو حفظ ماتقدم کی اسٹریٹجی کیوں وضع نہ کی گئی ؟ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ کی ایک خبر کے مطابق گورنر ملک کا یہ بھی کہناتھا ہم یہ قبول نہیں کر سکتے کہ انٹلی جنس ناکام ہوگئی ہے۔ ہم ہائی وے پر گھوم رہی دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کی پہچان کرنے میں ناکام رہے۔ ہمیں یہ بات قبول کرنی ہوگی کہ ہم سے بھی غلطی ہوئی ہے۔میں یہ بات قبول کرسکتا ہوں کہ خودکش حملہ آور کافی حد تک مشکوک لوگوں کی فہرست میں تھا۔ملک صاحب کی یہ بھی گفتنی تھی کہ ہم نے پنچایتی انتخاب اور بلدیاتی انتخاب کرائے لیکن ا س دوران کسی ایک پرندے کوبھی گزند نہ پہنچی، لیکن جناب گورنر صاحب سے یہ سوال تو کیا جاسکتاہے کہ اگر اتنے بڑا کام انہوں نے کر دکھایاتو جموں میں جوطاقتیں حالات کو مسلسل خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور مسلم کمیونٹی کے خلاف نفرت کا ماحول کھڑا کرتی جارہی ہیں، اُن کی نشاندہی کرکے امن شکنی کے جرم میں انہیں سلاخوں کے پیچھے کیوں دھکیلانہیں جاتا ؟ کیا جموں میں نہتوں پر اپنا دبدبہ قائم کر نے والے ان شرپسندوں اور فتنہ بازوں کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی جوا زنہیں بنتا؟ یہ غنڈوں کو کھلی آزادی دینا اور قاعدے قانون کا خاموش تماشائی بننا کسی گیم پلان کی طرف اشارہ تو نہیں دیتا ؟
سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا پلوامہ کے حملہ کو روکنا جموں کے عام مسلم شہریوں کی ذمہ داری تھی…؟کیا یہاں مسلمانوں پر کئے گئے حملے فاشزم کا منہ بولتا ثبوت نہیں ہیں…؟آج تین روز سے جموں اور کشمیر کا مسلمان عالم ِاضطراب میں پڑا ہوا ہے ، اُمید یہ تھی کہ جموںکی ڈوگرہ مہا سبھا،ڈوگرہ سوابھمان سنگٹھن،بھارتیہ جنتا پارٹی ، کانگریس، نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی ،پینتھرز پارٹی او دیگر سیاسی گروپس کے لیڈران کی طرف سے جموں میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کا بازار گرم کرنے والے شرپسندوں کی مذمت ہی نہیں کی جائے گی بلکہ انہیں چتاؤنی دی جائے گی کہ اگر انہوں نے امن وقانون کی صورت حال کو بگاڑنے سے احتراز نہ کیا تو اُن کا جینا محال کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ا ن لیڈروںسے یہ توقع تھی کہ یہ متاثرین کی ڈھارس بندھاتے ،ا ن کو احساس ِ تحفظ دیتے ، اُن کی مشکلات کم کر دیتے ۔ پلوامہ حملہ کے دن یہ لیڈر اونچے سُروں میں بول رہے تھے لیکن اب جموں کی اس وحشت ودہشت پر بھی دوایک لفظ کھل کر نہ بولیں ، بلوائیوں کے مذموم ارادوں میں رکاوٹ بن کر نہ دکھائیں تو یہی باور ہوگا کہ یہ سب کچھ ووٹ بنک سیاست کا چمتکار ہے اور یہ پارلیمانی الیکشن کے لئے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی ایک سوچی سمجھی چال ہے۔
[email protected]