پہاڑی طبقہ کے مسائل اورخوابوں کے نئے سوداگر

پہاڑی طبقہ کے مسائل اورخوابوں کے نئے سوداگر
احوالِ پیرپنچال
الطاف حسین جنجوعہ
جوں جوں اسمبلی وپارلیمانی انتخابات کا وقت نزدیک آرہاہے مختلف سیاسی جماعتوں نے رائے دہندگان کو اپنے جال میں پھنسانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔اس کے لئے علاقہ، ذات پات، فرقہ ،مذہب، رنگ ونسل، امیرو غریب، سیاہ وسفیدکے کارڈ کھیلے جارہے ہیں اور جہاں جوپتہ فٹ بیٹھتا ہے اُسی کو بروئے کار لانے کی تگ ودد شروع ہوچکی ہے۔ پہاڑی طبقہ کے بھی اب کچھ نئے سوداگر میدان میں آگئے ہیں۔اس سے قبل بھی بیشتر سیاسی جماعتوں جس میں نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی، پینتھرز پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی وغیرہ شامل ہیں، نے اپنے انتخابی منشور میں پہاڑی طبقہ کے دیرینہ مطالبہ کو پورا کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن اقتدار ملنے کے بعد صدِ ق دلی سے اس طرف کسی نے بھی توجہ نہ دی۔ اگر کوئی پیش رفت کی بھی گئی تو اس میں اتنی خامیاں رکھی گئیں کہ بات آگے بڑھ نہ سکی۔ سال 2019لگتے ہی پچھلے کچھ روز سے پھر سیاستدانوں کو پہاڑیوں کی یاد ستانے لگی ہے ۔نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس لیڈران اس حوالہ سے اگر چہ ابھی خاموش ہیں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز کانفرنس لیڈران کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں جن کی نظریں پونچھ، راجوری اور کپواڑہ اضلاع جہاں پہاڑی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، پرمرکوز ہیں۔ اس حوالہ سے پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون، پی ڈی پی کوخیر آباد کہہ کر پیپلز کانفرنس میں شامل ہوئے عمران رضا انصاری نے گورنر ستیہ پال ملک سے ملاقات کی اور ان سے گذارش کی کہ پہاڑی طبقہ کو ملازمتوں میں تین فیصد ریزرویشن دینے سے متعلق جوبل راج بھون میں پڑا ہے، اس کو منظوری دی جائے۔ کچھ روز گذرنے کے بعد سابقہ پولیس آفسر راجہ اعجاز علی خان جنہوں نے بھی پی ڈی پی سے نکل پیپلز کانفرنس خیمہ میں پناہ لی ہے، نے راجہ شرافت علی خان کے ساتھ مل کر پہاڑی کلچرل اینڈ ویلفیئر فورم کے بینر تلے گورنر سے ملاقات کی۔کپواڑہ ضلع میں جہاں پیپلز کانفرنس کا اثر رسوخ کافی ماناجاتاہے، نے پہاڑی طبقہ کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اس معاملہ کو زور وشور سے اٹھانا شروع کیا ہے تو وہیں راجوری پونچھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کچھ سرگرم نظر آرہی ہے۔پونچھ سے پارٹی کے ایم ایل سی پردیپ شرما نے بھی گورنر سے ملاقات کی اور دوسرے روز ہی پریس کانفرنس میں دعویٰ کیاکہ انہوں نے پہاڑی طبقہ کے جائزہ مطالبہ کو پورا کرنے کے لئے کافی کام کیا ہے اور جلد یہ حل ہوجائے گا ۔ایک روز قبل ہی راجوری میں ایم ایل سی ایڈووکیٹ وبودھ گپتا نے بھی پریس کانفرنس کی اور کہا کہ بی جے پی پہاڑی طبقہ کے ساتھ انتخابات کے دوران کئے گئے ریزرویشن کے وعدے کوپوراکرنے کی وعدہ بندہے۔انہوں نے کہاکہ پہاڑی طبقہ کی اس مانگ کوجلدپوراکیاجائے گا۔ ٹھیک اسی روز جموں سے بی جے پی ترجمان اعلیٰ ایڈووکیٹ سنیل سیٹھی کا بھی ایک بیان پہاڑی طبقہ کے دیرینہ مطالبہ کے حق میں سامنے آیا جس میں انہوں نے ریاستی انتظامیہ سے مطالبہ کیاکہ پہاڑی طبقہ کو ریزرویشن دی جائے۔حیران کن امر ہے کہ یہ لیڈران اس سے پہلے کہاں تھے۔ انتخابات نزدیک آتے ہی کیوں انہیں پہاڑیوں کی یاد آئی۔ فروری2018میں پہاڑیوں کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں تین فیصد ریزرویشن دینے کے لئے بل قانون سازیہ سے دوسری مرتبہ پاس کر کے منظوری کے لئے راج بھون بھیجاگیاتھا جس پرپہلے گورنر این این ووہرہ نے پھر کچھ اعتراضات لگادیئے جنہیں اس وقت کے وزیر قانون وپارلیمانی امور عبدالحق خان نے جواب دیئے لیکن پھربھی دستخط نہیں کئے۔ بعد ازاں ستیہ پال ملک کی بطور گورنر تقرری ہوئی جنہوں نے پہ در پہ آرڈی ننس کے ذریعہ کئی قوانین پاس کئے۔ کئی بڑے پالیسی ساز فیصلے لئے مگر اس طرف انہوں نے بھی توجہ نہیں دی۔ اس مدت کے دوران کسی بھی سیاسی لیڈران نے پہاڑی ریزرویشن بل بارے کوئی بات کی اور نہ ہی اس معاملہ کو اُجاگر کیا۔اب الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے انعقاد کے لئے کی جارہی سرگرمیوں کے پیش نظر سبھی لیڈران نے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیئے ہیں اور اولین فرصت میں راج بھون کے دربار میں حاضری دینا شروع کی ہے۔قابل ذکر ہے کہ سال2014کے اسمبلی انتخابات کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے منشور میں بھی پہاڑیوں کو ایس ٹی درجہ دلانے کا معاملہ شامل تھا ، مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی مکمل اکثریت والی حکومت بھی موجود تھی لیکن پھر بھی اس مسئلہ کو حل نہیں کرایاجاسکا۔ گورنرراج یا صد ر راج کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ براہ راست ریاست کا کنٹرول مرکزی سرکار کے پاس ہے۔ اگر بھاجپا قیادت مخلص ہوتی تو گورنر سے بل پر دستخط کروائے جاسکتے تھے۔پاس جماعت کی نیت میں بھی کھوٹ نظر آرہا ہے اور لیڈران کے بیانات صرف عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ہیں۔اگر صدق دلی ہے تو پھر ریزرویشن بل کو منظوری نہ ملی۔ بھارتیہ جنتاپارٹی جموں وکشمیر کے ریاستی صدر راویندر رینہ جوکہ ضلع راجوری کے نوشہرہ اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے بھی رہے، بھی پہاڑی ہونے کادعویٰ کرتے ہیں، انہوں نے فروری 2018بجٹ اجلاس کےد وران اسمبلی میں پہاڑی طبقہ سے متعلق لمبی چوڑی جذباتی تقریر بھی کی تھی ، انہوں نے تو یہ تک کہاتھاکہ موجودہ گورنر ہمارا آدمی ہے ۔ انہوں نے گورنر کی نوٹس میں یہ معاملہ کیوں نہیں لایا۔اقتدار ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں کیاجارہا، صرف اخباری بیانات اور پریس کانفرنسوں سے مسئلہ کا حل نہیں ہے۔عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ بی جے پی جوکہ اس مرتبہ پیرپنچال سے پونچھ اسمبلی حلقہ اور راجوری حلقہ پر فتح حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے، اس لئے اس مسئلہ کو اُچھالاجارہاہے۔ اگر واقعی پارٹی قیادت میں اس حوالہ سے اخلاص ہے تو ابھی بھی وقت ہے کہ التوا میں پڑے بل کو منظوری دلائی جائے۔آخر کب تک لوگوں کو بیوقوف بنایاجائے گا، کب تک ان کا سیاسی مفادات کی خاطر جذباتی استحصال کیاجائے گا کیونکہ یہ عمل زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا…………!!
٭٭٭٭
نوٹ :مضمون نگار پیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]