اسلام آباد میں دھمال پاکستانی دارلحکومت میں مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری،7افراد جاں بحق ،درجنوں زخمی

ایجنسیاں
اسلام آباد//پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم فیض آباد میں صورتحال بدستور کشیدہ ہے اور اتوار کو علی الصبح ایک بار پھر مظاہرین اور قانون نافذ کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہو چکی ہیں۔تحریک لبیک یارسول اللہ اور سنی تحریک کے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کو یہاں سے منتقل کرنے کے عدالتی حکم کی پیروی کرتے ہوئے ہفتہ کی صبح پولیس نے کارروائی شروع کی تھی لیکن دن بھر جاری رہنے والی مڈبھیڑ اور اس میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد شام گئے انتظامیہ نے آپریشن معطل کر دیا تھا۔اطلاعات کے مطابق اتوار کو مظاہرین نے مبینہ طور پر ایک کار اور پانچ موٹرسائیکلوں کو نذر آتش کر دیا اور پولیس کی طرف سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ایک بار پھر اشک آور گیس کا استعمال کیا گیا۔مظاہرین کی قیادت بدستور فیض آباد کے پل پر براجمان ہے۔ہفتہ کو وفاقی وزارت داخلہ نے امن و امان کو قائم رکھنے میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کیا تھا جو اسلام آباد میں حساس مقامات کی حفاظت پر مامور ہو گی۔تاہم ایسے میں ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ فوج اس معاملے پر کچھ ابہام پاتی ہے اور اس نے وزارت سے بعض امور کو واضح کرنے کا کہا ہے۔یہ خبریں اس ایک خط کی بنیاد پر سامنے آئی ہیں جو کہ فوج کی طرف سے وزارت کو لکھا گیا اور جس میں رینجرز کی تعیناتی کے لیے تحریری حکم نامے کے نہ ہونے کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ عدالت نے ‘آتشیں اسلحہ’ استعمال کرنے کی ممانعت کی ہے جب کہ فوج کو بلانے کا مقصد طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔اس خط کے بارے میں تاحال حکومت کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آزاد ذرائع سے تصدیق ہوسکی ہے۔مظاہرین کو متبادل جگہ پر منتقل کرنے یا منتشر کرنے کے لیے کیے جانے والے آپریشن کے بعد نہ صرف راولپنڈی، اسلام آباد بلکہ ملک کے تقریباً سب ہی بڑے شہروں اور بعض دیگر مقامات پر ان مذہبی جماعتوں کے حامیوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے اور اکثر مقامات پر ان کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں متعدد لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔تمام نجی نیوز ٹی وی چینلز کی نشریات اتوار کو دوسرے روز بھی بندر ہیں جب کہ انٹرنیٹ صارفین کی سماجی رابطوں تک رسائی بھی تقریباً مسدود ہے۔اتوار کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایک اجلاس طلب کیا جس میںوزیر داخلہ احسن اقبال وزیراعلیٰ پنجاب کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے علاوہ پولیس سربراہان کے علاوہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔اجلاس میں سنیچر کے روز دھرنا دینے والوں کے خلاف ہونے والی کارروائی میں قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی ناکامی کے محرکات کا بھی جائزہ لیا گیا۔پیمرا کے ڈی جی میڈیا جاوید اقبال نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ تمام نجی چینلز کی نشریات بحال کرنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے بقول پیمرا نے نجی چینلز کو نیا ضابطہِ کار بھی جاری کیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ روز سے فیض آباد دھرنے کے دوران حکومت نے نجی چینلز بند کر دیے تھے۔ادھر حکومت کی جانب سے بظاہر لائحہِ عمل میں تبدیلی لائی گئی ہے اور رینجرز نے فیض آباد پر ہراول دستے کا کام سنبھال لیا ہے۔اس کے علاوہ رینجرز کو فیض آباد کے اطراف میں کئی مقامات پر تعنیات بھی کر دیا گیا ہے۔ رینجرز اہلکاروں نے آئی جے پی روڈ، اسلام آباد ایکسپریس وے اور مری روڈ پر اپنی پوزیشنز سنبھال لی ہیں۔اتوار کے روز ہونے والا اجلاس میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ اس معاملے پر سویلین اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقات ہوئی ہے۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مظاہرین کے ساتھ ایک مرتبہ پھر مذاکرات کیے جائیں۔ تاہم ابھی تک اس اجلاس میں یہ طے نہیں ہوا تھا کہ ان مذاکرات کو کیسے شروع کیا جائے گا کیونکہ دھرنا دینے والوں کے قائدین کا کہنا ہے کہ سنیچر کے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے مظاہرین پر دھاوا بولنے کی وجہ سے فی الوقت حکومت کے ساتھ اس معاملے پر مذاکرات نہیں ہوں گے۔سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کے حوالے سے حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارتِ داخلہ کے احکامات پر سنیچر کو سوشل میڈیا کی تین ویب سائٹس فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ملک میں بند کر دیا گیا تھا اور تینوں ویب سائٹس فی الوقت غیر معینہ تک بند رہیں گی۔پیمرا نے سنیچر کی دوپہر کو اسلام آباد میں دھرنے کے خلاف کارروائی کی براہ راست کوریج پر نجی نیوز چینلز کو بند کر دیا تھا لیکن ان نیوز چینلز کی ویب سائٹس پر لائیو کوریج آ رہی تھی تاہم بعد میں حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہویب سائٹس پر لائیو کوریج کو بھی بند کیا جا رہا ہے۔دوسری جانب مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں جبکہ اسلام آباد کے مضافاتی علاقے روات میں مظاہرین نے پولیس کی ایک چیک پوسٹ کو آگ لگا دی ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے مظاہرین کے خلاف کی جانے والی کارروائی کی شدت میں سنیچر کی شام سے کمی آئی ہے۔ پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے مقام کے قریبی علاقوں میں تو موجود ہے لیکن پولیس اہلکار اس طرح اکھٹے نہیں ہیں جس طرح وہ سنیچر کی صبح دھرنا دینے والوں کے خلاف متحرک تھے۔ امدادی کارکنوں نے بتایا کہ اب تک سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے چھ افراد راولپنڈی جبکہ ایک شخص پنڈی بھٹیاں میں ہلاک ہوا ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے ترجمان کے مطابق ہسپتال میں دھرنے کے خلاف آپریشن کے بعد سے 168 زخمیوں کو لایا گیا جن میں سے 52 کے علاوہ باقی تمام کو گھر روانہ کیا جا چکا ہے۔ زخمیوں میں سے 64 کا تعلق پولیس سے، 53 کا تعلق ایف سی سے جبکہ 51 شہریوں کو بھی ہسپتال طبی امداد کے لیے لایا گیا۔دوسری جانب راولپنڈی کے بینظر بھٹو ہسپتال کے ترجمان نے بتایا کہ دن بھر میں ان کے پاس 41 زخمیوں کو لایا گیا ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے سنیچر کو ایک موقع پر کہا کہ ’انھوں (فیض آباد پر دھرنا دینے والے مظاہرین) نے انڈیا کے ساتھ رابطہ کیا تو کیونکر کیا، ہم یہ بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ لوگ اتنے سادہ نہیں ہیں۔پی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ ‘ملک میں انتشار پھیلانے میں ایک جماعت ملوث ہے۔ اس نے دو شہروں کے لاکھوں افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کوشش ہے کہ کم سے کم نقصان کے ساتھ جگہ کو خالی کرایا جائے’۔اس سے پہلے ان کا کہنا تھا ’حکومت دھرنے والوں کے ساتھ ہر وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ حکومت اسلامی احکامات اور ناموس رسالت کی پاسبان ہے۔ ہم ختم نبوت کے عقیدے کے محافظ ہیں۔ دھرنا دینے والوں کی سرگرمیوں سے ملک کا نام بدنام ہورہا ہے۔ دھرنے دینے والے اتنے سادہ نہیں ہیں‘۔فیض آباد آپریشن اور اس کے بعد پاکستان بھر میں جاری ردعمل کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں پوری کرنے میں مشکلات کاسامنا رہا۔ مظاہرین صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں جیو نیوز کے رپورٹرز طلحہ ہاشمی اور طارق ابوالحسن مظاہرے کی کوریج کے دوران پتھراو¿ کی زد میں آکر زخمی ہوئے جبکہ اسلام آباد میں مری روڈ پر سما ٹی وی کی ایک ڈی ایس این جی کو نذر آتش کر دیا گیا۔