پہلی بار سنگ زنی میں ملوث نوجوانوں کو راحت عفو عام کا اعلان کیس واپس لینے کا سلسلہ شروع مذاکرات کار نے اپنا کام مثبت انداز میں شروع کیا:وزیر اعلیٰ

سری نگر نئی دہلی//محبوبہ مفتی کی قیادت والی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی ) اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)مخلوط حکومت نے وادی میں نوجوانوں کے دل جیتنے کے لئے سنگ بازوں کو عام معافی دینے کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم یہ ’عام معافی‘ یا ’ایمنسٹی‘ صرف ایسے سنگ بازوں کے لئے ہیں جن کے خلاف پولیس تھانوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ ایف آئی آردرج نہیں ہوئی ہے۔ اس عام معافی کے تحت سنگ بازی کی وجہ سے پہلی بار جیل جانے والے نوجوانوں کے خلاف درج ایف آئی آرز واپس لے لی جائیں گی۔ ذرائع نے بتایا کہ سنگ بازوں کو عام معافی دینے کا اعلان مرکزی سرکار کے ’کشمیر نمائندے‘ دنیشور شرما کی سفارش پر کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عام معافی کا اعلان گذشتہ رات مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سلسلہ وار ٹویٹس میں کیا۔ انہوں نے کہا ’سنگ بازی کا پہلی بار ارتکاب کرنے والے نوجوانوں کے خلاف درج ایف آئی آر کی واپسی کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے سے مجھے انتہائی اطمینان مل گیا ہے۔ میری حکومت نے یہ عمل مئی 2016 میں شروع کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے گذشتہ برس کی بدامنی کی وجہ سے یہ سلسلہ رک گیا تھا‘۔محبوبہ مفتی نے کہا ’اعتماد سازی کے اس اقدام سے مرکزی حکومت کے جموں وکشمیر میں بیانیہ کو بدلنے اور پائیدار مذاکرات کے لئے مفاہمتی ماحول پیدا کرنے کے عزم کا اعادہ ہوا ہے‘۔ انہوں نے کہا ’یہ حوصلہ افزا ہے کہ مذاکرات کار (دنیشور شرما) نے اپنا کام مثبت انداز میں شروع کیا ہے۔ ان کی سفارشات کو دونوں مرکزی اور ریاستی حکومت سنجیدگی سے لے رہی ہیں‘۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایف آئی آرز کی واپسی سے نوجوانوں کو اپنی زندگیاں سنوارنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے ٹویٹ میں کہا ’یہ اقدام جواں سال نوجوانوں اور ان کے کنبوں کے لئے امید کی کرن ہے۔ اس سے انہیں اپنی زندگی دوبارہ سنوارنے کا موقع فراہم ہوگا‘۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دنیشور شرما نے گذشتہ ہفتے دہلی میں مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو جو ابتدائی رپورٹ سپردکی، اس میں دیگر متعدد سفارشات کے ساتھ ساتھ سنگ بازوں کو عام معافی دینے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا ’اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومت سے کہا کہ سنگ بازی کی وجہ سے پہلی بار جیل جانے والے نوجوانوں کے خلاف درج ایف آئی آرز واپس لے لی جائیں‘۔ ذرائع نے بتایا کہ اس پالیسی سے قریب 4500 نوجوانوں کو راحت ملے گی۔ انہوں نے بتایا ’اگرچہ کشمیر میں سنگ بازی کے واقعات کے سلسلے میں ہزاروں ایف آئی آرز درج ہیں، تاہم اس ایمنسٹی سے سنگ بازی کا پہلی بار ارتکاب کرنے والے نوجوانوںکو راحت ملے گی‘۔ انہوں نے بتایا کہ ایمنسٹی پالیسی پر عمل درآمد سے قبل تمام ایجنسیوں بشمول سیکورٹی فورس اداروں کے عہدیداران کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایمنسٹی کا اعلان مذاکرات کار دنیشور شرما کے دوسرے دورہ کشمیر سے محض تین روزہ قبل کیا گیا۔ ذرائع نے بتایا ’دنیشور شرما مذاکرات کے دوسرے مرحلے کا آغاز 24 نومبر کو جموں سے کریں گے۔ وہ 26 نومبر سے کشمیر میں رہیں گے اور قیام کے دوران جنوبی کشمیر کا دورہ کریں گے‘۔ کشمیر کے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق ’سنگبازوں کے لئے عام معافی کا اعلان مذاکرات کار کے دورہ کشمیر سے محض تین روزہ قبل کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مرکزی سرکار کشمیریوں کا دنیشور شرما پر بھروسہ قائم کرانا چاہتی ہے‘۔ انہوں نے بتایا ’دنیشور جی کشمیر کی صورتحال سے پوری طرح سے وقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ کشمیر میں سب سے زیادہ ناراض یہاں کا نوجوان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی زیادہ تر توجہات نوجوانوں پر مرکوز کردی ہیں‘۔ دنیشور شرما کا کہنا ہے ’یہ تو صرف شروعات ہے۔ میں نے کشمیر میں لوگوں سے ملنے کے بعد سفارشات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی اور حکومت نے اس پر غور کرنا شروع کردیا ہے‘۔ انہوں نے کہا ’میری بھاگ دوڑ کا مقصد یہ جاننا ہے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ اسی کے عین مطابق میں اپنی سفارشات پیش کروں گا‘۔ تاہم یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی حکومت نے سنگ بازوں کے لئے عام معافی کا اعلان کردیا۔ اگست 2011 ءمیں اس وقت کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی سنگبازوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ اس ایمنسٹی کے تحت سنگ بازی کے قریب 1200 مقدمات میں سینکڑوں نوجوانوں کے ایف آئی آر واپس لے لی گئی تھیں۔ ان میں سے بیشتر نوجوان ایسے تھے جن کے خلاف ایف آئی آر 2010 ءکی ایجی ٹیشن کے دوران درج کی گئی تھیں۔ عمر عبداللہ نے اس ایمنسٹی کا اعلان عیدالفطر سے محض کچھ دن پہلے کیا تھا۔ مرکزی سرکار نے گذشتہ ماہ دنیشور شرما کو ’مسئلہ کشمیر‘ کے فریقین سے بات چیت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس سے پہلے مرکز میں یو پی اے سرکار نے ’کشمیر‘ پر بات چیت کے لئے تین مذاکرات کاروں دلیپ پڈگاونکر، رادھاکمار اور ایم ایم انصاری کو تعینات کیا تھا۔ اگرچہ انہوںنے اپنی سفارشات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ وزیر داخلہ میں پیش کی تھی، تاہم قریب 6 سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ان سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ وادی میں گذشتہ برس 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے معروف کمانڈر برہان مظفر وانی کی ضلع اننت ناگ کے بم ڈورہ ککرناگ میں ایک مختصر جھڑپ کے دوران اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ہلاکت کے بعد وادی میں پتھر بازی کا ایک شدید مرحلہ شروع ہوا تھا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجودگی کے باعث برہان وانی کشمیر میں ایک گھریلو نام بن گیا تھا۔ وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی مظاہروں کی لہر کے دوران سیکورٹی فورسز کی کاروائی میں کم از کم 96 عام شہری ہلاک جبکہ 15 ہزار دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ 22 سالہ برہان وانی ضلع پلوامہ کے قصبہ ترال کا رہنے والا تھا۔ کشمیری عوام کے لئے حق خودارادیت کا مطالبہ کررہے حریت کانفرنس کے دونوں گروہوں کے سربراہان سید علی گیلانی و میرواعظ مولوی عمر فاروق اور جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے چیئرمین محمد یاسین ملک نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ وادی میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد علیحدگی پسند قیادت کی اپیل پر کم از کم 150 دن ہڑتال کی گئی تھی ۔ کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار مسلسل 133 دنوں تک ہڑتال کی گئی تھی۔ برہان وانی کی ہلاکت کے بعدپیلٹ گن یا چھرے والی بندوق کے سبب سینکڑوں کی تعداد میں عام شہری بالخصوص نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگئے جبکہ دیگر 14 کی موت واقع ہوئی۔ اگرچہ پیلٹ گن کے خلاف عالمی سطح پر اٹھنے والی آوازوں کے درمیان مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ستمبر کے اوئل میں سری نگر میں یہ اعلان کیا تھا کہ’ اب کشمیر میں چھرے والی بندوق کی جگہ پاوا شیلوں کا استعمال ہوگا‘ جس سے کسی کی موت نہیں ہوگی، لیکن باوجود اُس اعلان کے وادی میں احتجاجی مظاہرین کے خلاف چھرے والی بندوق کا استعمال بغیر کسی روک ٹوک کے بدستور جاری ہے۔ برہان وانی کی ہلاکت کے خلاف وادی بھر میں بھڑک اٹھنے والے شدید پرتشدد احتجاجی مظاہروں کے بعد سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا جس کو مختلف علاقوں میں 55 دنوں تک جاری رکھا گیا ۔ کشمیری علیحدگی پسند قیادت نے برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہفتہ وار احتجاجی کلینڈر جاری کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وادی میں 19 نومبر کو پہلی بار کوئی ہڑتال نہیں رہی تھی جب علیحدگی پسند قیادت نے دو روزہ ڈھیل کا اعلان کردیا تھا۔ یو اےن آئی