عالمی سیاست کے بحران کا ذمہ دار مغرب

شہباز رشید بہورو
سیاست ایک ایسا طریقہ کار اورایک ایساادارہ ہے جس کے ذریعے انسانیت کو پرسکون ماحول فراہم کرنے کی ہر ممکن تدبیرکی جاتی ہے۔سیاست کی ضرورت بنی نوع انسان کو اسی لئے پڑی تاکہ انسانوں کے اس جم غفیر کو قابو میں لایا جائے ،انسانی معاشرے کو حفاظت کے اس حصار میں محصور کیا جائے جس میں انسان اپنی فطری احساسات کی حساسیت کو محفوظ رکھ سکے،جس میں انسان اپنے حقوق کی ترجمانی کے معقول ذرایعے پا سکے اور جس میں انسان کے جملہ پہلو ارتقاء پذیر ہوسکیں۔لیکن تاریخ کےاوراق پررقم شدہ بے شمار سانحات ہیں جن کی وحشت کے سبب خود تاریخ شرمسار اور مورخین اشکبار ہیں۔جس شعبہ سے انسان کی اتنی وسیع امیدیں وابستہ تھیں وہی شعبہ انسان کے لئے فرعون،چنگیزخان ،انگ سنگ سوئی،جارج بش،بشارالاسد،سیسی اور ان جیسے بے شمار ظالم و جابر بن کر ظاہر ہوا ۔دیگر شعبہ جات نے انسانیت کو بلندیوں پر پہنچایا ،اس کی حیاتیاتی ترفع میں ایک اہم رول ادا کیا اور ہر ممکن انسان کو فائدہ پہنچایا لیکن سیاست بیچاری ظالم لوگوں کے ہاتھ میں آ کے براہ راست عذاب و تعذیب کا کوڑا بن گئی اور اب اس کا نام ہی ظلم وزیادتی کا مترادف بن گیا ہے۔اس سیاست کے نام پر انسانیت کا خون کرنے والے بے شمار افراد نے اس مقدس زمین کے تقدس کو پامال کرکے اس جائے استقرار کو جائے عذاب بنادیا.فرعون،،نمرود،ٹائٹس،چنگیز خان،اٹیلا،تیمور،نادرشاہ،ہٹلر ،بش وغیرہ سب نے سیاست کے ادارے کو برائے امن قائم نہ رکھا بلکہ اس کو یکسر تبدییل کرکے برائے فسادکے طور پر لوگوں پر مسلط کیا۔
بیسویں صدی کے آغاز سے عالمی سیاست پر سکتہ کے دورے پڑے جس کی وجہ سے یہ روئے زمین انسان نما حیوانوں کی حیوانیت سے متاثر رہی ۔جنگ عظیم اول دوم اور دیگر جنگوں نے عام انسان کی ناک میں دم کرکےرکھااور انسانی سرگرمیوں کو مفلوج و معذور کردیا تھا۔چند لوگوں کی حرص وطمع اور ذاتی ذوق وشوق نے عالم انسانیت کو تباہی و بربادی کے اس بھنور میں پھنسایا کہ اب نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جیسے ہٹلر اور میسولینی کا ذاتی خواب انسانیت کے لئے عذاب بن گیا تھا اور ان کے ذاتی خواب کی تکمیل کے لئے لاکھوں معصوم لوگ بھینٹ چڑھ گئے ،جنگ عظیم اول و دوم ان ہی کی ذاتی خواہشات کا شاخسانہ تھیں ۔آج بھی کئی ملکوں،حکومتوں اورخفیہ اداروں کی ذاتی تمناؤں کا قرض مظلوم انسانیت اپنی جان دے کر اتار رہی ہے ۔بیسویں صدی میں عالمی سیاست کو چلانے والے دو ممالک امریکہ اور روس نے انسانیت کو جس درد و تکلیف سے دوچار کیا وہ اقوامِ عالم سے چھپا نہیں ہے ۔ان کی آپسی چپقلش سے دنیا پر چالیس سال تک سرد جنگ کے بادل منڈلاتے رہے اور پوری دنیا ہر لمحہ تباہی کے دھانے پر لاکر کھڑی کی گئی تھی۔1991میں روس کے ٹکڑے ہوتے ہی سرد جنگ کا خاتمہ ہونے کے ساتھ دنیا یک قبطی رہ جاتی ہے اور امریکہ پوری دنیا میں سپر پاور کاتعارف دے کر متعارف ہوتا ہے۔امریکہ نے اپنی پوزیشن سنبھالتے ہی فرعونی رویے سے مجبورمسلم دنیا کو اپنے نشانے پر لیا اور مسلم دنیاپر خوفناک جنگیں مسلط کیں۔امریکہ کو اپنی طاقت کے اظہار کے لئے نشانہ چاہئے تھا جس پر وار کر کے وہ دنیا کو یہ دکھاتا کہ میری فوجی اور سائنسی طاقت اس معیار کی ہے جس کے لئے گیارہ ستمبرایک افتتاحی قدم تھا۔گیارہ ستمبر کے بعد گویا پوری دنیامیں صرف ایک خطرہ باقی رہ گیا جوصرف مسلم دنیا کا تھا۔افغانستان اور پورے مشرقی وسطی کو جنگوں کے دلدل میں دھکیل کر مغرب نےانسانیت کا جوہر دفن کر دیا۔ مغرب کے اس جارحانہ اور ظالمانہ اقدام کے پیچھے قصر سفید کے فرعون کا قائدانہ رول اسے واقعی ایک لٹیرے کے طور پر سامنے لاتا ہے جوجہاں جاتا ہے وہاں اپنے خونی پنجے گاڑ کر اس ملک کو نوچتاہے اور اس کی معاشی اور معاشرتی خال نکال کر اسے بیکھاری بنانے پر تل جاتا ہے۔ویت نام ،افغانستان اور مشرق وسطی میں امریکہ نے لاکھوں لوگوں کا قتلِ عام کرکے خود کو تہذیب انسانی کا دشمن مقررکیا ہے ۔
جدید دور میں سیاسی ڈھانچہ ظلم و استبداد کی زنجیروں سے بنا ہوا ایک قفس ہے جس سے باہر نکلنا انسانیت کے لئے فرعون کے چنگل سے آزاد ہونے کے مترادف ہے۔دنیا بھر کی حکومتیں مٹھی بھر لوگوں کے لئے بازیچہ اطفال بن کر رہ گئیں ہیں۔انہیں جس طرح دل چاہے وہ اس دنیا کی ایسی تیسی کر لیتے ہیں۔کہیں پر کسی مخصوص طبقے کو تلوار کی نوک پر رکھا جارہا ہے اور کہیں پر معاشرے کے صالح طبقہ کو زندان کے اندھیروں میں ڈال کر ان کی بصارت ان سےچھین لی جارہی ہے ،ان کی ذہانت کو ذہنی توازن متاثر کرنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے اور ان کی نوجوانیوں کومجنونانہ پن کی نذر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔ اس پورے دنیا میں چند افراد ہیں جنہوں نے دوبارہ سے ایک سفاک ٹولی منظم کر کے انسانیت کا ناک میں دم کر رکھا ہے ۔عوام الناس کی زبانوں پر قفل ڈال کر انہیں جان بوجھ کر گونگا بنایا جارہا ہے،جانوروں سے بھی کم تر مقام دے کر انہیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑا جارہا ہےاور لباس اورٹوپی بدل کر لوگوں کو مسلسل دھوکہ دیا جارہا ہےکہ ہم تمہارے خیرخواہ ہیں ۔
عالمی سیاست کی اس ہنگامی اور شورش زدہ صورتحال کے لئے صرف مغرب زمہ دار ہے جس نے جنگ ِ عظیم دوم کے بعد 55میلین لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔عالمی شہرت یافتہ امریکی دانشور نوم چومسکی اور انڈری والٹچک کی کتاب “آن واسٹرن ٹررازم فرام ہیروشیما ٹو ڈرون وار فئیر” کی تمہید میں انڈری والٹچک لکھتے ہیں ۔” زمین کے تمام برِاعظموں پر ظالمانہ تنازعوں ،حملوں اور جنگوں کا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سارا ہنگامہ مغرب کےجغرافیائی سیاسی اور معاشی مفادات کا مرہونِ منت ہے۔ ”
یہ مغرب سےواردشدہ اقوام تھیں جنہوں نےدنیا کو نوآبادیاتی وبا سے متاثر کیا اور پوری دنیا کو اس سفاکانہ حربے کا جدید تصور دیا ۔آج بھی دنیا نیئو کلونیئلازم کے پنجرے میں محصورمغرب کی غلامی میں گرفتار ہے ۔