ہمارے بچے ہمارا مستقبل


محمد ناظم القادری جامعی
رب ذوالجلال کی بے شمار نعمتوں, نوازشوں اور احسانات میں ایک نعمت بے بہا اولاد ہے,اس نعمت کی قدرومنزلت ان جوڑوں سے معلوم کریں جو جوڑے اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں,وہ اس بیش قیمت نعمت کےحصول کی خاطر اپنا قیمتی وقت اور مال ودولت کاانبار تک لٹادیتے ہیں, اور کریں بھی کیوں نا؟کیوں کہ اولاد خالق کائنات کا سب سے گراں قدر تحفہ ہے,یہ ایسا تحفہ ہے جس کے متعلق اللہ کے مقدس انبیا ء کرام نے دست دعا دراز فرمایا, جس کاذکر سورۂ والصفت میں کچھ اس طرح ہے”الہی !مجھے نیک اولاد دے”اللہ کا فرمان عالیشان جاری ہوا”تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی, ایک لائق عقلمند لڑکے کی.(والصفت, ١۰۰)
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ اولاد مالک کائنات کی دی ہوئی گراں بہا نعمت ہے.لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں اولاد ایک عظیم عطیہ ہے وہیں پہ آزمائش بھی چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی نشاندہی کچھ اس طرح فرمائی ہے:”تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ ہی ہیں, اور اللہ کے پاس بڑاثواب ہے.(تغابن, آیت:١٥)
مذکورہ آیت کا مضمون تو تمام مسلمانوں کو خاص وعام شامل ہے,سارے مسلمان مخاطب ہیں.اور سب کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ مال اور اولاد آزمائش اور امتحان کا ذریعہ اور سبب ہیں.بایں وجہ روز قیامت والدین سے اولاد کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی کہ انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت کیسی کی,اولاد رب کی امانت ہوتی ہے.لہذا امانت میں خیانت حرام ہے.بچوں کو درست تربیت دینا ازحد ضروری ہے.کیوں کہ انسان کمزور پیدا ہوتا ہے,اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے, وہ بےسروسامان ہوتا ہے, اسے نصرت وحمایت درکار ہوتی ہے,وہ لاشعوری کے مرحلے طے کررہا ہوتا ہے, عقل آموزی کی ضرورت ہوتی ہے.وقت ولادت عموما ہربچہ جن چیزوں کا محتاج ہوتا ہے.وہ جسمانی اور ذہنی نشوونما ہے.اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ صحیح پرورش کریں.کیوں کہ بچے کی پہلی تعلیم گاہ ماں کی گود ہوتی ہے.وہ اپنی حیات نو کا پہلا سبق وہی سیکھتا ہے.سائنس کی جدید تحقیقات نے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ بچے کی ذہنی, اخلاقی اور جسمانی تربیت کا اصل مقام اسکول اور کالج نہیں بلکہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے.بچہ بہت ساری باتیں اپنے والدین اور گھر کے افراد سے سیکھتا ہے,ان کے اطوار وعادات نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو بعد میں اس کی شخصیت کا جز بن جاتے ہیں.گھرکےافرادکے طرز عمل سے وہ محبت, ہمدردی کے جذبات یا پھر خود غرضی ,بےایمانی اور نفرت جیسی امراض مہلکہ کا شکار ہوتا ہے,اگر والدین اور گھر کے دیگر افراد مہذب, تعلیم یافتہ, خوش اطوار وخوش اخلاق ہو تو اس گھر میں بچے کی تربیت بھی احسن طریقے سے ہوگی۔
یوں ہی اپنی اولاد کاروشن وخوش آئند مستقبل کے ہر والدین مشتاق ہوتے ہیں.اور کوئی بھی والدین ایسے نہیں ہوں گے جو اس الزام کو تسلیم کرلیں کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہیں, حالانکہ کہ سچائی یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دشمن ہوتے ہیں.بچوں کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں.اگر چہ ظاہری اعتبار سے محبت کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے بایں طور کہ جب بھی ان کے بچوں کے ساتھ چھوٹا یا بڑا الزام ناانصافی کرتے ہیں تو اس وقت وہ انتقام کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں ,لیکن وہ خود بڑی بڑی ناانصافیاں اپنی اولاد سے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مثلا:آج کے اس پرفتن دور میں نونہالوں کے ہاتھ میں موبائل فون تھمانا گویا انھیں زہر ہلاہل دینے کے مترادف ہے.لیکن آج شاید ہی ایسے والدین ملیں گے جو اپنی اولاد کو موبائل فون سے دور رکھتے ہوں,نوبت بایں جا رسید کہ بچہ اگر رورہا ہو تو خاموش کرنے کےلیے موبائل ہی کا سہارا لیتے ہیں, کارٹون, گانے, سیریل اور فلمیں وغیرہ لگاکر اپنے آپ کو بچے سے آزاد کرکے خود بھی اسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں,حالاں کہ ایسے وقت میں بچے کوان کی سخت ضرورت ہواکرتی ہے.بچے پالنا بڑاکام نہیں ہے, یہ کام پرندے اور چوپائے بڑے اچھے انداز میں صدیوں سے کرتے آرہے ہیں ,بڑاکام بچوں کی تربیت ہے ,تربیت توجہ اوروقت مانگتی ہے۔
آج صورت حال یہ ہے کہ اینڈرائڈ انقلاب کے حالیہ دور میں موبائل فون نے جب ہمارے پڑھے لکھے باشعور اور سنجیدہ طبقہ کوبھی اپنی تہذیب و تمدن کو فراموش کراتا جارہا ہے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عہدطفولیت میں موبائل فون کا چلن ان کی اخلاقی تربیت میں کس قدر رکاوٹیں پیداکرسکتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ شرافت,تمیز اورادب واحترام کا قلع قمع ہوتا جارہا ہے.اس لیے انھیں موبائل فون سے دوررکھنا بے انتہا ضروری ہے۔
بچوں کی شخصیت کا بھی احترام ضروری ہے,لیکن افسوس صد افسوس! بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں,ناخواندہ تو درکناربہت سے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس صفت سے محروم وتہی قسمت نظر آتے ہیں,انھیں گالیاں دیتے, ڈانٹتے ڈپٹتے اور جھڑکتے رہتے ہیں, بات بات پر ٹوکتے ہیں,ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں, انھیں نالائق, کام چور, بے وقوف اور گدھا کہہ کر پکارتے ہیں,یہ لعن وطعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثر انداز ہوتی ہے.اس طرح کے وتیرے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین کے خلاف گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے جو آخری عمر تک دور نہیں ہوتی.گویا ہم اپنے بچوں کی توہین کرکے مستقبل کے لیے توہین کے اسباب پیداکرلیتے ہیں.۔
بچوں پر اچھی تربیت کا گہرا اثر پڑتا ہے,ہمارے بچے ہمارا مستقبل ہے لہذا ان کے حقوق کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے, معاشرے میں انھیں نمایاں مقام دلانے کے لیے صحیح تعلیم و تربیت اور اچھی پرورش کی بے حد ضرورت ہے.بچوں کے ساتھ شفقت بھرا رویہ بھی ان کی صلاحیتوں میں مثبت تبدیلیاں لاتا ہے. بچوں کی تربیت سے قبل والدین کا بااخلاق وبامروت ہونا ضروری ہے کیوں کہ بچہ قول سے کم اور عمل سے زیادہ سیکھتا ہے.وہ اپنے والدین اور قریب موجود دیگرافراد کو جوکچھ کرتے دیکھتا ہے وہی اپناتا چلاجاتا ہے, لہذا سب سے پہلے والدین کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ آنے والے کل میں اپنے بچوں کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں, جس کے لیے انھیں خود عملی نمونہ بننا ہوگا. ہمارے یہاں عموما زیادہ ترتوجہ بچوں کے اچھا کھانے, اچھا پہنانے اورمہنگے تعلیمی اداروں میں داخلہ کروانے پر ہی مرکوز رہتی ہے, حالاں کہ اصل فکر شخصیت کی بنیادی ستونوں پر ہونی چاہیے۔
جس طرح والدین کا اولاد پر کچھ حقوق مرتب ہیں بعینہ والدین پر بھی اولاد کے کچھ حقوق ہیں.والدین پر اولاد کے جوحقوق امام اہلسنت فاضل بریلوی المعروف بہ اعلی حضرت علیہ الرحمۃ نے بیان فرمائے ہیں, ان میں چند ملاحظہ ہو:”زبان کھلتے ہی اللہ اللہ,پھرپورا کلمہ سکھائے, جب تمیز آجائے تو ادب سیکھائے, کھانے, پینے, بولنے, اٹھنے, بیٹھنے, چلنے, پھرنے, حیا, لحاظ, بزرگوں کی تعظیم, ماں باپ, استاد اور بیٹی کو شوہر کی اطاعت کے طرق (طریقے)وآداب بھی بتائے,قرآن مجید پڑھائے, استاد نیک, صالح, متقی صحیح العقیدہ سن رسیدہ کے سپرد کرےاوردخترکونیک پارسا عورت سے پڑھائے, بعد ختم قرآن ہمیشہ تلاوت کی تاکیدرکھے, عقائد اسلام وسنت سیکھائے کہ لوح سادہ فطرت اسلامی وقبول حق پر مخلوق ہے. (یعنی چھوٹے بچے دین فطرت پر پیدا کئے گئے ہیں یہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں )لہذا اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا, حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی محبت وتعظیم ان کے دل میں ڈالے کہ اصل ایمان وعین ایمان ہے, حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے آل واصحاب واولیاکی محبت عظمت کی تعلیم کرے کہ اصل سنت وزیور ایمان بلکہ باعث بقائے ایمان ہے, سات برس کی عمر سے نماز کی تاکید شروع کرنے, علم دین خصوصاً وضو, غسل,نمازاورروزہ کے مسائل توکل, قناعت, زہد, اخلاص, تواضع, امانت, صدق, عدل, حیا, سلامت صدورولسان وغیرہاخوبیوں کے فضائل,حرص طمع, حب دنیا, حب جاہ, ریا, عجب, تکبر, خیانت, کذب, ظلم, فحش, غیبت, حسداورکینہ وغیرہابرائیوں کے رذائل پڑھوائے.(فتاوی رضویہ)اگر عصر حاضر کا جائزہ لیاجائے, تو حال کچھ زیادہ اچھا نظر نہیں آتا, فی الوقت مؤثر ترین عوامل میں ماں, مدرسہ, میڈیا اورمعاشرہ شامل ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری درست طریقےپر نبھانے کو تیار نہیں,ماں کی زیادہ توجہ بچے کی جسمانی نشوونما پر, اسکول کی توجہ نصاب مکمل کروانے پر, میڈیا کی زیادہ توجہ معاشی دوڑ آگے بڑھانےپر مبذول ہے۔
یاد رکھیں!آج ہم جس مقام یا منصب پر فائز ہیں کل ہمارے بچے ہونگے.جتنے بھی پیغمبران عظام اس خاک دان گیتی پر مبعوث ہوئے انسان سازی ہی کے لیے کہ ایک انسان کی تربیت سے پورے جہاں کی تربیت ہوسکتی ہے.ہمیں چمن اسلام کے غنچوں کو درست تعلیم وتربیت سے کھلاکر اسی چمن کو سجانے ونکھارنے کاآلہ بناناہے.
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاہیں اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی توفیق رفیق عطا فرمائے. آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ والہ و سلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارالعلوم منظر اسلام شاہ پور نگر حیدرآباد