تعلیمی نظام اور کرونا وائرس!!

یاسر حسین ہرگاہ (گلزار ؔ)
____________________
یہ خطا ہی تو ہے گلزارؔ کہ جس کے عوض
منہ چھپائے‌پھرتے ہیں ہم اک دوسرے سے

کوڈ 19 یا کرونا وائرس جس نے اپنا سفر ملک چین سے شروع کیا اور لگ بھگ دنیا کے سبھی ممالک کا دورہ کیا۔ اٹلی،اور امریکہ جیسی عالمی طاقتوں کو زیر کر کے رکھ دیا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مادرِ وطن ہندوستان کے ساتھ بھی کافی دوستانہ تعلقات قائم کئے۔ ایک معقول ذرائع کے مطابق یہ وائرس پوری دنیا سے کم و بیش آدھ کروڑ انسانوں کے مالکِ حقیقی سے ملنے کا ذریعہ بنا۔اور کم و بیش سوا کروڑ یا دو کروڑ لوگ ایسے ہیں جو ابھی بھی چین کی تیار کردہ کشتی کرونا وائرس میں سوار ہوکر موت و حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔اس موضوع پر تو بس ماہرین ہی تفصیلاً گفتگو کریں گے کہ اس کی حقیت کیا ہے اور اس کے بڑھنے،گھٹنے یا پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔ چونکہ اس ضمن میں بندۂ ناچیز لاعلمی اور عدم فہمی کے سوا کچھ نہیں جانتا ہے۔ ہاں یہاں سے میں اپنے موضوعِ مقصود کا تعلق پھر سے آپ کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کروں گا۔ اس عالمی وبائی بیماری سے دنیا کے سبھی شعبہ جات متاثر ہوۓ تو وہیں شعبہ تعلیم کا متاثر ہونا کوئی اجنبی بات تو نہیں مگر ہاں قابلِ غور اور قابل فکر بات ہے۔ اس بات میں میں اجنبیت اس لیے نہیں مانتا کیوں کہ بہرحال دنیا کی ہر ذی روح اور بے روح چیز پر اس وبا کے بل واسطہ یا بلاواسطہ اثرات رونما ہوۓ اور وہ اثرات اور اس کے نفع و نقصانات تو عیاں ہیں کہ ایک ترقی یافتہ ملک کی جی،ڈی،پی اتنی کمزور پڑ گئی کہ تاریخ رقم ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنا وطن تو گویا حالتِ جنگ سے گزر رہا ہو اور کوئی اس کا حامی نہیں کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سفینۂ جہاں اب بس ڈوبنے ہی کے قریب ہے۔ اور اس سفینہ کا ملاح بے بس و بے کس پڑا صرف اور صرف خداوندعالم ہی کو پکار پکار کر کہہ رہا ہو کہ خدایا مجھ میں اب سکت نہیں بس تو ہی کوئی فیصلہ بھیج دے۔
ہاں لیکن قابل غور بات اس لیے ہے کہ اگر دنیا کے تمام تر شعبہ جات کو اپنے شر اور خیر سے یہ وبا اب نواز‌ چکی ہے تو کیوں صرف تعلیمی شعبے کے ساتھ اس کو لین دین میں اتنا وقت لگا۔ اور فکر مندی اس بات کی ہے کہ جب تک یہ مہلک وبائی بیماری شعبہ تعلیم کے ساتھ مزاکرات اور باہمی صلاح کے لے تب تک قوم کے مستقبل کا کیا ہوگا؟ وہ پیارے پیارے ننھے ننھے پھول وہ ولی اور اکبر والے اسباق کہاں سے سکھیں گے؟۔ تہزیب کیسے میسر ہوگی؟ اور کیسے ہمارے اس دور کے بچے اگلے دور کے بچوں کو یہ سمجھا‌پائیں گے کہ “بیٹا محنت اور لگن سے پڑھو” بورڈ یا یونیورسٹی کا امتحان پیچیدہ ہوتا ہے جب کہ وہ خود اس دوکان سے کبھی گزرے ہی نہیں ہوں گے بلکہ‌ یہ کہئیے کہ وہ تو اس راہ پر کبھی با رخ کھڑے بھی نہیں ہوۓ ہوں۔
ذرا سوچئے اگر پوری دنیا اس وبا سے دوستی اختیار کر چکی ہے اور اس وبائی سفینہ میں سوار رہتے ہوۓ ہوۓ بھی خود کو محفوظ سمجھ رہے ہے۔ دنیا کے تمام تر شعبہ جات اس مہلک بیماری کرونا وائرس کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملاتے ہوۓ‌ آگے بڑھ رہی ہے۔ تو کیوں صرف شعبہ تعلیم سے اس بیماری کی ان بن ہے۔ شعبہ تعلیم کیوں اس سے دوستی نہیں کر پارہا ہے۔ دنیا کی بے شمار آبادی اسپتالوں میں خلط ملط ہے ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔ دنیا کے انسانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سے آج بھی بازار رات اور دن آباد ہیں وہ بے خوف و بے خطر ہیں۔ کئی لوگ شادیوں ،ناچ گانوں کے اڈوں پر اور دیگر مقامات پر اپنے اپنے کاروبار کو مل جل کر بخوبی انجام دے رہے ہیں کیا ان کے یہاں کرونا وائرس سے بچنے کی کوئی احتیاطی تدابیر و تراکیب ہیں؟ جو بازار آج بھی رات دن بارونق ہیں کیا ان کے پاس احتیاطی تدابیر ہیں۔جی ہاں اگر ان سب کے پاس تدابیر و تراکیب ہیں تو محکمہ تعلیم کے لیے وہ لاگو کیوں نہیں ہوتیں۔ کیا بازاروں کی رونق سے زیادہ بچوں کا مستقبل اہم نہیں ہے؟
گلی کوچوں اور کرکٹ گراؤنڈ کی رونقیں بحال ہوئیں ۔نجی و اعلیٰ ادارے شد و مد کے ساتھ رواں دواں ہیں ذندگی کی ہر شۓ پُرامن طریقے سے اپنی اپنی جگہ پر واپس آکر دوبارہ سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ یہ خوش نصیبی اور خداوند زوالجلال کی کرم نوازی ہے۔ تمام طریقے اور تمام سلیقے خوش اسلوبی کے ساتھ بحال ہوچکے۔ حالانکہ ایک وقت تو ایسا بھی تھا جب اپنے گھر میں رہتے رہتے بھی اپنے گھر والوں سے ملنے جلنے میں بھی انسان دقت محسوس کرتا تھا۔ باہر والوں سے ہم سب مشکوک انداذ میں ملتے تھے۔ہاتھ ملانا گلے ملنا تو کوسوں دور کسی کی طرف آنکھ بھر کے دیکھنے کا تصور بھی نہیں تھا۔ بڑی بڑی طاقتیں بے بس و بے حس ہو کر رہ گئیں تھیں۔ ؀
ہم کیسی زندگی جیے جارہے ہیں
اپنی ہی سانسیں پیے جارہے ہیں
ہم سبھی کے سبھی مجرم ہیں لیکن
انگلی اوروں کی سمت کیے جارہے ہیں
گلزارؔ یہ کسی خطا ہم سر زد ہوئی
مصافحہ کے جرمانے لئیے جارہے ہیں
سبھی سپر پاور ممالک مل کر بھی مقابلے کی کوئی چیز نہیں جوڑ پاۓ۔ کسی بھی قسم کا دفاعی سازوسامان درکار نہیں آیا۔ اٹلی،امریکہ،چین،روس،پاکستان اور ہندوستان جیسی ایٹمی طاقتوں کو یہ مخلوقِ خدا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر گیا۔ اور پھر دو سال یا اڈھائی سال کے وقفے میں تمام فرمابرداروں اور نافرمانوں کو یہ بات سمجھا‌گیا کہ ہاں واقعی دنیا کی تمام تر طاقتیں اور صلاحتیں ہیچ، بے سود، اور عارضی ہیں۔اب جب کہ سبھی سلاسل اپنی پٹری پر واپس آچکے ہیں۔ لیکن کیوں صرف تعلیم کا شعبہ اس وبا سے دوستی نہیں کر پارہا ہے۔ کیا گزشتہ دو سال کا عرصہ تعلیمی میدان کے نقصان کے کافی نہیں ہے؟ کیا تعلیم کا شعبہ ابھی مزید نقصان کا متحمل ہے؟ کیا ابھی اس بات کی گنجائش ہے کہ شعبۂ تعلیم کو نظر انداز رکھا جاۓ۔ شعبہ تعلیم کے علاوہ باقی سبھی شعبوں نے اپنے نفع اور نقصان کو سمجھا بھانپا اور فوراً فکر میں آکر نقل و حرکت شروع ‌کی مگر افسوس صد افسوس شعبۂ تعلیم ابھی تک کرونا وائرس ہی کی چادر اوڑھے ہوۓ ہے۔ شعبہ تعلیم نے ابھی تک تمام نفع اور نقصانات کو بے فکری کی چادر سے ڈھانپے رکھا ہے۔ ضرورت اور سخت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب فکر مند ہوجائیں کمر بستہ ہوکر ہم شعبہ کو نیند غفلت سے جگائیں تاکہ مستقبل کسی بھی قسم کے شر سے محفوظ ہوسکے۔ اور اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہمارے پاس پھولوں کے بیج بو کر بھی کانٹوں سے زیادہ کچھ نہیں اگے گا۔
گلوں کے متلاشی کھاروں کا بیوپار نہیں کرتے
محنت کے کسی لمحے کو وہ بے کار نہیں کرتے
جنہیں اونچی اڑان بھرنی ہو اے گلزارؔ
وہ ایک خطا ایک بار کرتے ہیں بار بار نہیں کرتے

پتہ:چالر۔ چلی پنگل۔ ڈوڈہ جموں و کشمیر الھند