بے روزگاری کاحل ہُنرمندی میں مُضمر!

طارق ابرارؔ/جموں
رابطہ نمبر9107868150:

دراصل ہُنر،روزگاراورنوجوان تینوں کاآپس میں گہراتعلق ہے یعنی یہ سبھی آپس میں Interconnected ہیں۔جیساکہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ موضوع بہت وسیع ہے اورمجھے خدشہ ہے کہ میں اس موضوع کے ساتھ انصاف کرپائوں گایانہیں البتہ اپنے شعوراورفہم وفراست کے مطابق انصاف کرنے کی بھرپور کوشش ضرورکروں گا۔
نوجوانوں کی اہمیت
سب سے پہلے میں بات کرتاہوں نوجوانوں کی ،اس میں کوئی شک نہیں کہ نوجوان کسی بھی ملک ، قوم ،طبقہ یاعلاقہ کیلئے اثاثہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ دماغی وجسمانی طورپرباقی عمرکے افرادسے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں ،ہمت ،جذبہ ،ذہانت ،قوت اوردیگرصلاحتیں ان میں کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہوتی ہیں۔نوجوان کٹھن حالات کاجواں مردی سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔یہاں یہ بات مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ کسی بھی قوم،ملک ،طبقے یاخطے کی ترقی کاانحصاراورضمانت اس کے نوجوانوں کی صلاحیتوں اورعمل میں مضمرہے۔
میرے نزدیک نوجوانوں کی مثال ایسے ہے جیسے کہ آسمان میں چمکتے ہوئے ستارے۔جس طرح آسمان میں بے شمارستارے ہوتے ہیں ،ان میں سے کچھ ستاروں کی چمک اتنی تیز ہوتی ہے جن کی روشنی سے زمین پربسنے والے انسان فیض یاب ہوتے ہیں جبکہ کچھ ستاروں کی چمک دھیمی بھی ہوتی ہے جن کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ پاتی۔بہرحال ستارے توآخرستارے ہوتے ہیں۔عین اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہرنوجوان کے اندر الگ الگ نوعیت کی صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں ۔کم یازیاد ہ صلاحیتیں ہونافطری بات ہے البتہ جن نوجوانوں میں صلاحیت کی کمی ہوتی بھی ہے توانہیں اسے عیب تصورنہیں کرناچاہیئے بلکہ اگروہ چاہیں توکسی کام کے ماہرہوکر یعنی ہُرمندبننے کیلئے محنت کریں تووہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکتے ہیں اورہُنرمندبن کراپنے ہُنرکی بدولت سماج میں باوقارمقام حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی میں بھی اپنی خدمات بہترطریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔اس موقعے پر حضرت علامہ محمداقبال رحمتہ اللہ علیہ کایہ شعرزبان پرآرہاہے کہ
عُقابی روح جب بیدارہوتی ہے جوانوں میں
نظرآتی ہے ان کواپنی منزل آسمانوں میں
اللہ تعالیٰ نے ہرنوجوان میں کوئی نہ کوئی خوبی یاصلاحیت رکھی ہوتی ہے لیکن بعض اوقات نوجوانوں کواپنی کچھ خوبیوں اورصلاحیتوں کا علم بھی نہیں ہوتاہے ۔کچھ خوبیاں پیدائشی طورپرہی کسی بچے میں ہوتی ہیں جبکہ بعض خوبیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کاعلم بعدمیں ہوتاہے ۔پوشیدہ خوبیوں کی طرف اس نوجوان کی طبیعت مائل ہونافطری بات ہے اوراس کے مزاج میں کسی خاص کام کوسیکھنے کی للک پیداہوجاتی ہے ۔یہاں میں یہ بات بھی اپنے معززسامعین وناظرین کوباورکرواناچاہتاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جس شخص سے کوئی خدمت یاکام لیناچاہتی ہے توا س شخص یعنی اُس نوجوان میں اس شعبے سے دلچسپی اوراس کام کوسیکھنے اورکام کرنے کاجذبہ بھی پیداکردیتی ہے۔بعض صلاحیتیں انسان میں نہیں ہوتی ہیں لیکن وہ دُنیامیں آنے کے بعداورجوانی کے دوران ان کو سیکھتاہے ۔یعنی سیکھنے سے بھی صلاحیت پیداہوسکتی ہے اورکوئی بھی شخص کوئی خاص کام کوسیکھ کرہُنرمندبن سکتاہے۔جوخوبی سیکھنے سے پیداہوتی ہے اُسے ہُنریاSkill کہاجاتاہے۔یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اگرکوئی بچہ پڑھنے کے بجائے کسی دوسرے کام میں دلچسپی رکھتاہے اوراس کی طبیعت ہُنرسیکھنے کی طرف مائل ہے توایسی صورت حال میںوالدین اوراساتذہ کایہ فرض بنتاہے کہ وہ اس بچے کی دلچسپی سے جڑے شعبے میں اس کوہُنرمندبنانے کیلئے کاوشیں کریں تاکہ اس نوجوان کی صلاحیتوں کافائدہ ملک ،قوم اورمِلّت کوپہنچ سکے۔
ہُنرکی تعریف اوراہمیت
اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہُنرمندنوجوان کون ساہوتاہے؟جونوجوان کسی کام یاپیشے میں مہارت تامہ حاصل کرلیتاہے تووہ ہنرمند کہلاتاہے ۔ان کاموں یاپیشوں میں مختلف نوعیت کے کام اورپیشے شامل ہیں مثال کے طورپرقلمکاری ،صداکاری، عوامی مقررّ،یوٹیوب پرڈاکیومنٹریزبنانا،کلب ہائوس پرپروگرام آرگنائزکرنا،سماجی کارکن بننا،بزنس مین یعنی بیوپاری بننا،کمپیوٹرآپریٹربننا ، لوہار،ترکھان،پلمبر ،الیکٹریشن، ،ڈرائیور، کھلونہ ساز، درزی، ، ٹائپسٹ ہونا،ڈیزائنراوردیگرایسے ہی بے شمارکام اورشعبے ہیں جنھیں نوجوان بطور پیشہ اپناکر اپنی زندگی بہتر ڈھنگ اورخودداری سے گزارسکتے ہیں۔
صرف روایتی تعلیم کاحصول اورہُنرنہ سیکھنے کے نقصانات
معزز سامعین وناظرین اب میں ہُنرکی اہمیت ،صرف روایتی تعلیم کاحصول اورہُنریعنی فنی تعلیم نہ سیکھنے کے نقصانات کے حوالے سے بات کرتاہوں ،جب کوئی نوجوان کسی ہنرکوسیکھ لیتاہے یعنی اس کاہاتھ جگن ناتھ ہوجاتاہے تواس کا ہنرمندہاتھ اس کا ذریعہ معاش بننے کے ساتھ ساتھ اس کو مقبولیت کے بام ِ عروج تک پہنچنے کابہترین ذریعہ بھی ثابت ہوسکتاہے ۔اس سلسلے میں میں آپ کوایک حکایت بتاتاہوں جس سے ہُنرکی اہمیت واضح ہوجائے گی اوراس بات کابھی اندازہ ہوجائے گاکہ بچوں کوروایتی تعلیم دلوانے کے ساتھ ساتھ انہیںSkill سکھانایعنی ہُنرمندبناناکتناضروری ہے۔اورہنرنہ سیکھنے کے کیانقصانات ہیں۔
ایک دفعہ ’’ صرف ونحو کا ایک عالم، ایک کشتی میں سوارہوکرسفر کر رہا تھا کہ اُس نے ملاح سے پوچھا کہ ’’صرف و نحو‘‘ سے بھی کچھ واقفیت ہے؟جیساکہ اکثرعالم اپنارُعب ودبدبہ بنانے کیلئے کسی شخص سے کوئی نہ کوئی سوال کرتے رہتے ہیں۔ ملاح نے جواب دیا کہ نہیں،مجھے صرف ونحوکے بارے میں کچھ بھی پتہ نہیں۔اس پر عالم یعنی پڑھے لکھے شخص نے افسوس کے ساتھ کہا کہ’تم نے اپنی آدھی زندگی گنوا دی‘۔ اس پرملاح خاموشی سے کشتی کھینچتا رہا ۔کچھ ہی وقت کے بعد دریا میںاچانک طُغیانی آ گئی۔ کشتی برُی طرح ڈولنے لگی ،عالم یعنی تعلیم یافتہ شخص کا خوف کے مارے برُا حال ہو گیا۔ اب ملاح نے اس سے پوچھا ۔تمہیں تیراکی سے بھی کچھ واقفیت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیںمیں تیرنانہیں جانتا۔ ملاح نے کہا افسوس کہ ’تم نے اپنی ساری زندگی گنوا دی‘۔ اتنے میں کشتی اُلٹ گئی ،ملاح جِسے عالم شخص جاہل کہہ رہاتھاوہ تیرتا ہوا کنارے پر پہنچ گیا اوراپنے آپ کوعالم سمجھنے والا علم کا ماہر اپنی بے ہنری سمیت غرقاب ہو گیا۔ یہاں یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ ’ہنر کے بغیر صرف روایتی تعلیم ہمیشہ ہی کام نہیں آتی‘۔اس لیے نوجوانوں کوچاہیئے کہ وہ اپنے اندرہُنرکوپیداکرنے کیلئے مختلف قسم کےSkill Development Courses میں داخلہ لے کراپنی ترقی کی راہوں کواستوارکریں۔
چند مثالیں
ایک دفعہ کاواقعہ ہے کہ ایک لڑکے نے کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بجلی فٹنگ کاکام سیکھ لیا،اوراس نوجوان نے ملازمت نہ ملنے پر بجلی فٹنگ کے کام کوزندگی بھرکے لیے بطورہُنراستعمال کیااوراسی میں نام کمایا۔جب وہ لڑکاکالج سے روزلیٹ آنے لگاتواس کی والدہ کوفکرلاحق ہوئی کہ میرابیٹادیری سے کیوں آتاہے ؟۔ایک دِن ماں نے بیٹے سے پوچھا۔بیٹاتم روزانہ سکول سے لیٹ کیوں آتے ہو؟۔بیٹاکہتاہے ماں !۔میں کالج سے فارغ ہو کر بجلی کا کام سیکھنے جاتا ہوں۔ ماں خفاہوکرکہتی ہے بیٹا! تم یہ کیا فصول کام کر رہے ہو؟۔ ہم آپ کو پڑھنے کے لیے کالج بھیجتے ہیں اور تم کام سیکھ رہے ہو۔ کل سے تم صرف پڑھو گے کام نہیں سیکھو گے۔لیکن بیٹے نے ماں کوبغیربتائے پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام سیکھنابھی جاری رکھا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پڑھ لکھ کر فارغ ہوگیا۔اس نے انگلش مضمون میں ماسٹرڈگری مکمل کرلی ،اس کے بعداسے یہ اُمید تھی کہ اسے اچھی نوکری مل جائے گی۔وہ روز اپنی ڈگریاں لے کر کسی نہ کسی دفتر جاتا ۔اس نے مختلف محکموں میں نوکری کے فارم لگائے لیکن اس کے باوجوداسے کوئی ملازمت نہیں ملی۔وہ بہت مایوس ہوا۔اور اس نے آخر کارمجبور ہو کر بجلی فٹنگ کا کام شروع کر دیا،جوبہت خوب چلا،جس کی بدولت وہ اپنے گھر والوں کا سہارابن گیا۔غوروفکرکی بات ہے کہ یہ سب کچھ ممکن کیسے ہوا؟۔دراصل ہنر سیکھنے کی وجہ سے ایساممکن ہوا۔کیونکہ اس لڑکے نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھا ہوا تھا۔اس لیے وہ فاقہ کشی سے بچ گیا۔
یہاں میں جموں کے ایک نوجوان کی سچی مثال بھی بتانامناسب چاہتاہوں جسے میں ظاہروباطن دونوں طر ح سے جانتاہوں ۔اُس نوجوان نے 20سال کی عمرمیںبارہویں جماعت کے بعد2007میںفنی تعلیم حاصل کرنے کافیصلہ لیتے ہوئے اُردواورانگریزی ٹائپنگ کاکام سیکھ لیا۔دوران ٹریننگ ہی اسے ووٹرفہرستوں کی کمپیوٹرکاری کاکام 3ہزارروپے ماہانہ پرمل گیا۔دس ماہ تک یہ کام چلنے کے بعداُس کوجموں کی ایک مقامی اخبار’’تسکین ‘‘میں بطورٹائپسٹ ملازمت مل گئی ،اُردوٹائپنگ کے کام میں مہارت کی وجہ سے اس کی ترقی اخبارکے ڈیزائنرکے طورپرہوگئی ۔یعنی وہ لڑکادواڑھائی سال اخبارہذاکے صفحے ڈیزائن کرتارہا۔ڈیزائننگ کے کام کے دوران ہی اس نے لکھنے کافن بھی سیکھ لیاپھر2010میںایک دوسری اُردواخبار’’اُڑان ‘‘نے اس کے لکھنے کی صلاحیت کوبھانپتے ہوئے اسے جموں شہرکے نامہ نگارکی حیثیت سے ملازمت پررکھ لیا،تین سال نامہ نگاری کے ساتھ اخبارکے صفحات ڈیزائن کرنے کی اضافی ذمہ داری بھی انجام دی اوراس کے بعداس کی ترقی سب ایڈیٹرکے طورپرکردی گئی۔اس منصب پررہتے ہوئے اس نے اخبارکیلئے عوامی اہمیت کی حامل نہ صرف درجنوں سٹوریز(Stories)لکھیں بلکہ سُلگتے عوامی مسائل پربھی خوب قلم چلایااور2015تک یعنی پانچ سال کے عرصے میں 100 سے زائد کالم بھی لکھ ڈالے۔اس کے بعداس کی تقرری جموں وکشمیرکے سب سے بڑے اُردواخبارروزنامہ ’’کشمیرعظمیٰ ‘‘میں بطورسب ایڈیٹرہوئی جہاں 5سال تک اپنی ذمہ داریوں کوخوش اسلوبی سے انجام دیا۔اب اس نوجوان کے اُردوکالموں کی 1 کتاب ، گوجری اورپنجابی تراجم کی دوکتابیں منظرعام پرآچکی ہیں اوراُردوکی 4 مزیدکتابیں اورپہاڑی ترجمے کی 1کتاب عنقریب منظرعام پرآنے والی ہیں۔ٹائپنگ اورلکھنے کے ہُنرنے اس نوجوان کونہ صرف ایک صحافی ،کالم نگاراورترجمہ نگاربنایابلکہ اس کی مفلسی کوبھی دورکیااوراسے سماج میں باعزت مقام دلوایا،یایوں کہاجائے توبے جانہ ہوگاکہ ہُنرنے اس نوجوان کی زندگی ہی بدل کررکھ دی ۔
ہُنرمندہونے کے فائدے
اب میں آپ کوہُنرمندہونے کے فائدے بتانے کی کوشش کروں گا۔جب کوئی ہنر وفن انسان میں رچ بس جاتاہے تواُس میں خودبخودمشکلات سے لڑنے کااعتمادبھی پیداہوجاتاہے۔ کچھ لوگ ساری عمرڈگریوں کے حصول کی جدوجہدمیں رہتے ہیں لیکن اْنہیں ڈگری حاصل کرنے کے بعدبھی بے ہنر ہونے کے سبب بے روزگاری کاکرّب برداشت کرناپڑتاہے۔کم ہمت ، کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت ومشقت سے کام لیتے ہیں اورہنرمندی کواپنے اندرسمولیتے ہیں اُن میں بردباری ،سماجی اعتباریت آجاتی ہے بہ نسبت اُن لوگوں کے جومحنت سے دوربھاگتے ہیں ۔ہرنوجوان کوسمجھناچاہیئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کوکسی نہ کسی صلاحیت سے ضرور نوازاہے جس کوبروئے کارلاکروہ اپنی روزی روٹی کماسکتاہے ۔بیشترلوگوں میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ہم کسی کام دھندے کے نہیں ۔ہم کم نصیب ہیں ۔یہ ایک قسم کی نفسیاتی بیماری اورمن کے بے بنیاد ڈرکاکھلااظہارہے جوآدمی سے یہ کہلواتاہے کہ میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔
لہٰذا نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر ضرور حاصل کریں۔ یہاں میں یہ بات بھی کہناچاہتاہوں کہ ہمیں ان لوگوں کوبھی ہُنرسکھانے میں اپناکردارنبھاناچاہیئے جومعذورہیں۔اگرہم ایسے لوگوں کابھی دھیان رکھیں گے جن کاکوئی خیال نہیں رکھتاتویقینااللہ تعالیٰ آپ کاخیال ضروررکھے گا۔یہاں کسی بھی شخص کے ذہن میں یہ سوال اُبھرسکتاہے کہ ایک شخص کوبیک وقت کتنے کام یاہُنرآنے چاہئیں۔میرایہ مانناہے کہ صرف ایک ہی ہُنرنہیں آناچاہیئے بلکہ کم ازکم 10 طرح کے کاموں میں انسان کومہارت تامہ حاصل ہونی چاہیئے کیوں کہ آج کل کے دور میں ہنر کے بغیر انسان کا زندگی بسر کرنا اگرنا ممکن نہیں تودشوارضرورہے۔ہنر چاہے کیسا بھی کیوں نہ ہو؟۔ انسان کو بھوکا نہیں مرنے دیتا۔ ہنر سے انسان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اوراس کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے اورساتھ ہی باہنرشخص معاشرے اورملک کی ترقی میں اپناکرداربہ آسانی انجام دینے کااہل بھی ہوجاتاہے ۔
اختتامیہ:آج ہمارے سماج میںایسے بے شمار نوجوان ہیں جن کے پاس تعلیمی قابلیت توہے لیکن پھربھی وہ بے روزگارہیں۔ شایدوہ کسی ہنرکوحاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔جس شخص کے پاس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی نہ کوئی ہنرہوگاتواُسے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتایعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہاتھ کاکمال یعنی کسب اس کے لئے سونے پہ سہاگہ والی بات ثابت ہوگی ۔ضرورت اس امرکی ہے کہ روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم کی طرف بھی والدین ،اساتذہ اورحکومت کوتوجہ دینی چاہیئے ۔ہمارے سامنے یوٹیوبرقاسم علی شاہ ،سندیپ مہشوری، علی اعوان ، ڈاکٹرجاویدراہی ،سویڈن میں مقیم ڈاکٹرعارف محمودکسانہ، آسٹریلیامیں مقیم ڈاکٹرنگہت نسیم ،انیس الرحمان خان اورادھمپورکے نواب دین کسانہ کوہی لے لیں جنہوں نے موٹیویشنل سپیکر،یوٹیوبر،کالم نگاراورفکشن رائٹرکی حیثیت سے کس قدرعزت ،شہرت اوربلندیوں کولے لیں۔ اپنی گفتگوکااختتام نواب دین کسانہ صاحب کے ان اشعارسے کرناچاہتاہوں
تُوہُنرمیں کمال پیداکر ہُنرتُجھے بندۂ کمال کردے گا
مُفلسی درسے تیرے بھاگے گی ہُنرتُجھے مالامال کردے گا