اپنی پارٹی بھاجپا کی بی ٹیم نہیں،میں عوام کا خادم ہوں

اپنی پارٹی بھاجپا کی بی ٹیم نہیں،میں عوام کا خادم ہوں
’اسٹیٹ ہڈ کی بحالی، جموں وکشمیر میں انتخابات کی پیشگی شرط ہونی چاہئے‘

جموں وکشمیر اپنی پارٹی صد ر الطاف بخاری نے انگریزی خبر رساں ادارہ IANSکے ساتھ جموں وکشمیر کے سیاسی، سماجی، اقتصادی ، انتظامی امور اور نئی دہلی کے کردار متعلق تفصیلی بات چیت کی جس میں موصوف نے دو ٹوک الفاظ میں کہاکہ نئی تشکیل شدہ پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ جموں وکشمیر میں انتخابات کے لئے اسٹیٹ ہڈ کی واپسی پیشگی شرط ہونی چاہئے تاکہ تاکہ لوگ اپنے فیصلے خود لے سکیں۔دیگر بھی کئی امور پر موصوف نے کھل کر بات کی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے انٹرویو کے چند اقتباسات پیش ہیں….

سوال: آپ کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ آپ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم ہیں اور کشمیر کے لوگوں کو سیاسی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں؟
جواب : آپ کسی کی بی ٹیم بن جاتے ہیں جو خود ہی اقتدار میں ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ بی جے پی کشمیر میں موجود بھی ہے سوائے اُس کے جوہم ٹیلی ویژن پر شام کو سنتے ہیں۔ زمینی سطح پر میں اُنہیں اتنا مضبوط نہیں دیکھ رہا ہوں ، لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ ہماری اے ٹیم ہوں یا ہم ان کی بی ٹیم ہوں۔ وہ ایک قومی پارٹی ہے اور ہم ایک علاقائی پارٹی لہذا ان کے اور ہمارے درمیان بہت فرق ہے۔ آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ میں بی جے پی سے نہیں بلکہ حکومت ہند سے بات کر رہا ہوں۔ الطاف بخاری کا سودے بازی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ میں کچھ بھی سرنڈر نہیں کررہا ہوں۔میں جموں و کشمیر میں موجودہ گڑبڑ کے لئے کانگریس ، این سی ، پی ڈی پی اور بی جے پی کو یکساں طور پر ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
سوال: ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ کشمیر میں دہلی کے آدمی ہو، کیاآپ اِس سے اتفاق کرتے ہیں؟
جواب: موجودہ تناظر میں، میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اگر مجھے کشمیر میں دہلی کا آدمی کہاجائے۔ ہر کشمیری کشمیرمیں دہلی کاآدمی بننا چاہے گا ، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی دہلی بھی کشمیریوں کو چاہتی ہے۔
سوال: آپ دفعہ370اور35-Aکی منسوخی کو جموں وکشمیر کے لئے فائیدہ یا نقصان سمجھتے ہو؟
جواب: یہ سوال ہی نہیں کہ یہ نقصان نہیں ہے۔ جموں و کشمیر کا ہر باشعور فرد اسے نقصان سمجھتا ہے۔ یہ زلزلہ ہے ، نقصان ہے ، لیکن زلزلے کے بعد زندگی چلتی ہے۔ آگ ہے ، لیکن اس کے بعد ہمیں اپنی زندگیوں کو دوبارہ تعمیر کرنا ہوگا۔
سوال: آپ پی ڈی پی سے اعلیحدہ کیوں ہوئے؟
جواب: میں پی ڈی پی سے الگ نہیں ہوا، مجھے پارٹی قیادت سے مختلف امور پر اختلافات تھے، میں نے آزادانہ طور، صاف گوئی سے خیالات رکھے، دراصل میرے اختلافات ذاتی نوعیت کے بھی نہیں تھے۔میرے اختلافات اُن پالیسیوں سے تھے جوکہ محبوبہ جی آگے لیکر چل رہی تھیں۔ مفتی صاحب کے انتقال کے وقت اُن کا جونقطہ نظر تھا۔ اگر انہیں بی جے پی سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی تو مفتی صاحب کی موت کے فوراً بعد ہی انہیں یہ کام کرنا چاہئے تھا۔ تین ماہ تک انتظار نے انہیں مقامی اور قومی قیادت کی نظر میں ایک کمزور لیڈر بنا دیا۔ پھر جب انہوں نے وزیر اعلی کا عہدہ سنبھالا اور تمام انتظامی فیصلے جو بنیادی طور پر جولائی 2016 کے بحران کے دوران لئے گئے تھے۔ اُس صورتحال جس میں تقریبا 200 افراد ہلاک ہوئے ، سے نپٹنے کے لئے موصوفہ نے جوطریقہ اختیار کیامجھے اس سے اختلاف تھا۔ بالآخر انہیں مجھے برداشت کرنا پڑا جب تک وہ حکومت میں رہیں۔ ایک اچھے لیڈر کی طرح وہ بھی کامیابیوں کا سہرا لے رہی ہے ، اچھے رہنما کی طرح اسے بھی پی ڈی پی کی ناکامی کا بھی کریڈٹ لینا ہوگا ۔ اس بارے میں کوئی ذاتی بات نہیں ہے۔ میں پہلی بار ایم ایل اے تھا اور اس کے والد نے مجھے وزیر بنایا اور بعد میں انہوں نے مجھے وزیر تعلیم بنا دیا۔ جب میں نے این سی اور کانگریس سے ہاتھ ملانے کا سوال اُٹھایا تو وزیر اعلی کے عہدے کے لئے میرا نام تجویز کیا۔ وہ ذاتی طور پر مجھے اور کیا دے سکتی تھی۔ میں محبوبہ جی سمیت مفتی صاحب کے پورے خاندان کابہت احترام کرتا ہوں۔
سوال: آپ جموں وکشمیر کے لئے حصولِ مقاصد کی بات کرتے ہیں، یہ حصولِ مقاصد کیا ہیں؟
جواب: دیکھیں، دفعہ370اور35-Aکی منسوخی سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کم سے کم موجودہ نسل کی زندگیوں میں تو نہیں ہوسکتی، تو میں کہتا ہوں کہ ہم ریاست کا درجہ فوری واپس حاصل کریں ، ہمیں رہائش ، زمین ، ملازمتوں پر اپنے حقوق حاصل ہوں۔ آئیے ہم ترقی ، تعلیم ، صحت کے امور اور ہر چیز پر اپنی منصوبہ بندی کرنے لگیں۔ آج ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو ہماری طرف سے فیصلے لے رہے ہیں جو ثقافت ، تاریخ اور ہمارے مسائل کے بارے میں اے بی سی بھی نہیں جانتے۔ اس سے پہلے پچھلے سال 5 اگست کو موجودہ صورتحال میں ہم اپنی ریاست کھو بیٹھے۔ ہمیں ملازمتوں ،رہائشی اور زمین پر اپنے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ پھر ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ آج لوگ جن چیزوں سے نمٹ رہے ہیں وہ ہمارے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ یہاں کے لوگوں کو ہی منصوبہ بندی کا انچارج ہونا چاہئے اور ترقی کی رفتار کی نگرانی کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس بہت قابل مقامی افسران ہیں جنہیں فیصلہ سازی، منصوبہ بندی کے اہم منصب سے ہی ہٹا دیاگیاہے۔
سوال: آپ نے حالیہ دنوں ڈومیسائل قانون پر تحفظات کا اظہار کیاتھا، وہ تحفظات کیا ہیں؟
جواب: ڈومیسائل بنانے سے متعلق مدت بارے ہمیں تحفظات ہیں۔ ہم ملازمتوں پر ہمارے حق کے تحفظ کے لئے مرکزی وزیر داخلہ کا شکر گزار ہیں۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہر اس فرد کے لئے جو باہر سے جموں و کشمیر میں کام کرتا ہے اور اس کے لئے ڈومیسائل بننے کے لئے کم سے کم کوالیفائی میعاد 25 سال ہونی چاہئے۔ اراضی ملکیت سے متعلق پالیسی ابھی آنا باقی ہے۔ کوئی نوآبادیاتی نہیں ہونا چاہئے۔ غیرزرعی اراضی کو غیر اقامتی افراد کوخریدنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ اس بات کی حد مقرر ہونی چاہئے کہ ایک شخص کتنی اراضی خرید سکتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی آنے دیں، پھر اُس پر ہم بحث کریں گے۔
سوال: آپ صنعت وتجارت کے لئے تحفظ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کس قسم کا تحفظ ہونا چاہئے؟
جواب: صنعت کو تحفظ درکار ہے، ہم ملک کے سرے پر ہیں، اگر ہم پیداواری ریاست بنتے ہیں تو باقی ملک مارکیٹ ہے۔ جوبھی صنعتیںقائم ہوں وہ مقابلہ کرنے کے اہل ہونی چاہئے، اگر کوئی کٹھوعہ میں صنعت قائم کرتا ہے اور دوسرا کرناہ میں انڈسٹری لگاتار ہے تو دونوں دہلی میں مقابلہ کرنے کے اہل ہونے چاہئے۔ اگر کٹھوعہ میں صنعتکار کو بطور ایکس سبسڈی ملتی ہے تو کرناہ میں اِس کو ایکس پلس ملنی چاہئے، جب تک صنعت کو تحفظ نہیں ملتا، یہ ترقی نہیں کرپائے گی۔ تجارت اور صنعتی تحفظ سبھی کے لئے ہونا چاہئے۔
سوال: جموں وکشمیر میں سیاحت وباغبانی کے احیا ءنوکے لئے آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے؟
جواب: سیاحت کی احیاءنوبہت ضروری ہے، لوگوں کو اپنی جائیدادوں کو برقرار رکھنے کے لئے سود کے بغیر یکمشت قرضہ جات فراہم کئے جانے چاہئے۔ کم سے کم پچاس فیصد قیمت کو تین سال تک بردداشت کرنا چاہئے تاکہ وہ جموں وکشمیر میں سیاحت کی بحالی تک اپنی جائیدادوں کواچھے ڈھنگ میں رکھنے کے اہل ہوں۔ ہوائی کرایوں کا تحفظ کرنا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ لوگ یہاں آنے سے زیادہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے پہلے تو باغبانی شعبے کو برف باری کی وجہ سے ہوئے نقصانات کی تلافی کی جائے ، جو 30 سالوں سے بدترین تھا۔ ہمیں ٹرانسپورٹ لاگت پر سبسڈی دینا ہوگی۔ پچھلے سال متعارف کی گئی ’مارکیٹ انٹروینشن اسکین‘سراسر ناکامی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی پہلے سے کی جانی چاہئے اور ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ سامان کی وصولی پر ادائیگی فوری طور پر کی جاتی ہے۔ جموں سرینگر قومی شاہراہ انتہائی حالت خستہ ہے۔ مجھے بدقسمتی سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس سڑک کی تجدید ومرمت مرکز کے حد ِ اختیار میں ہے لیکن حکومت ہند اس معاملے میں بالکل ناکام ہوگئی ہے۔ مغل شاہراہ کو پھلوں اور سبزیوں کی آمدورفت کے متبادل راستے کے طور پر استعمال کیاجانا چاہئے ۔یہی صورتحال باسمتی پیدا کرنے والے آر ایس پورہ کسانوں کی ہے جوکہ سخت پریشان حال ہیں۔
سوال: یہ کہاجاتا ہے کہ الطاف بخار ی صرف وہی مطالبات اُجاگر کرتے ہیں جومرکزی قیادت انہیں اُٹھانے کو کہتی ہے؟
جواب: میں اپنے دوستوں اور ناقدین سے گذارش کرتا ہوں کہ لوگوں کی مشکلات کو سنجیدگی سے لیں، اگر میں کسی مشکل کا حل نکالنے میں کامیاب ہوا، تو میں اس کاکہوں گااور اگر ناکام رہا تو بھی کہوں گا۔ میں اپنے ہم وطنوں سے کہتا ہوں کہ وہ مسائل حل کریں۔ میں سیاستدان نہیں ، عوام کی خدمت کے لئے ہوں۔ اگر سیاستدانوں کے پاس بہتر آئیڈیاز ہیں تو میں اُن کی پیروی کرنے کے لئے تیار ہوں۔
سوال: آپ وزیر اعظم اور مرکزی وزیر داخلہ سے ملتے رہے ہو، کیا آپ مانتے ہیں کہ وہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو درپیش مشکلات کو حل کرنے میں سنجیدہ ہیں؟
جواب: ہاں میں وزیر اعظم صاحب اور ہوم منسٹر صاحب سے ملتا رہا ہوں، وہ ہمارے مسائل حل کرنے کے اہل ہیں، انہوں نے ہمیں بغور سنا، اگر وہ نہ سنتے تو ، میں وہ بھی کہتا، پرائم منسٹر پورے ملک بشمول جموں وکشمیرکے پرائم منسٹرہیں، مرکزی قوانین لکھن پور تک ختم نہیں ہوسکتے۔اگر جنگلات میں رہنے والوں کو جموں وکشمیر کے باہر حقوق کا تحفظ حاصل ہے تو جموں وکشمیر میں بھی یکساں طور نافذ العمل ہونا چاہئے۔ سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل(CAT)کا بنچ سرینگر میں ہونا چاہئے اور کوئی بھی اِس کو روک نہیں سکتا۔ یومیہ اجرت ملازمین مشکلات کا شکار ہیں، انہیں بغیر کسی شرط مستقل کیاجانا چاہئے جوکہ دہائیوں سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس کا اطلاق جموں وکشمیر بینک ملازمین پر بھی ہونا چاہئے جو بغیرکسی غلطی کے معزولی کا سامنا کر رہے ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں محکمہ اطلاعات و تعلقات عامہ میں تعینات افراد کو ہٹا دیا ہے جن کی تقرری مناسب طریقہ کار اور گائیڈلائنزکے مطابق عمل میں لائی گئی تھی۔ انہیں کیوں ہٹایا گیا؟ انہیں واپس لیاجانا چاہئے۔ جموں و کشمیر صوبوںکے مسائل مشترکہ ہیں اور اب کوئی بھی دونوں خطوں کو تقسیم نہیں کرسکتا۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں موجودہ افسرشاہی نظام عوامی توقعات پر کھرا نہیں اُتر رہا؟
جواب: ہرگز نہیں، آپ دربار موو¿ کی ہی مثال لیں، یہ ایک تاریخی ضرورت ہے کہ جموں اور سرینگر کے درمیان مکمل دربار موو¿ ہو، جموں میں چند دفاتر رکھنا اور کچھ کو کشمیر منتقل کرنا غلط فیصلہ ہے، میں نے اِس متعلق متعلقہ حکام سے بات کی ہے، یہ کہاجاتا تھاکہ دفعہ370ہماری ترقی میں رکاوٹ ہے، لیکن اِس کی منسوخی کے بعد ترقی کا کوئی ایک کام ہواہو مجھے اِس کی مثال دیں۔اِس کا مطلب ہوا کہ یہ قوانین نہیں، لیکن اِس کو لاگو کرنے والے افراد واقتا ً اہم ہیں۔
سوال: آپ یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ آپ دوسرا بخشی غلام محمد بننا چاہیں گے، ایسا کہنے کا آپ کا مطلب کیاہے؟
جواب: جب میں بخشی غلام محمد جیسا بننے کی بات کرتا ہوں تو ، میر ا مطلب اُن کا ترقیاتی ماڈل ہے کیونکہ کوئی ترقیاتی ماڈل یہاں کامیاب نہیں ہوا جتنا بخشی ماڈل نے کیا۔ اصل میں ہمارا پہلا مقصد ہی یہی ہونا چاہئے تبھی ہم اپنی ترقی کا موازنہ دیگر ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوںکے ساتھ کرسکتے ہیں۔ میں بڑی ذمہ داری سے کہ رہا ہوں کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ قومی شاہراہ یا بانہال ٹنل کی ہی حالت دیکھ لیں۔
سوال: آپ کا جموں و کشمیر کی عوام کے لئے کیا پیغام ہے؟
جواب: میں لوگوں سے کہنا چاہوں کہ ہمیں اپنے نظریات واختلافات سے اوپر اُٹھ کر سوچنا چاہئے، ہمیں ریاست کا درجہ واپس حاصل کرنا ہے، جب ہم ریاست کا درجہ حاصل کر لیں گے تو فوری اُس کے بعد الیکشن ہونے چاہئے۔ انتخاب کا انعقاد کرنے کے لئے اسٹیٹ ہڈ کی واپسی پیشگی شرط ہونی چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭٭
مترجم :الطاف حسین جنجوعہ