’سرکاری دفاتر وگاڑیوں سے ریاست کا پرچھم اُترگیا‘

’سرکاری دفاتر وگاڑیوں سے ریاست کا پرچھم اُترگیا‘
جموں وکشمیر مرکزی زیر انتظام میں لیفٹیننٹ گورنرکا سیکریٹریٹ ہیڈکوارٹرکہاں ہوگا…؟
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//وزیر اعظم ہند نریندر مودی قیادت والی قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے)حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کو حاصل نیم خود مختیار کے دفعہ370کی منسوخی اور ریاست کی تشکیل نو قانون کو منظور کرنے کے ساتھ ہی جموں وکشمیر کے اندر سیاسی، حکومتی وانتظامی سطح پر اُتھل پتھل مچ چکی ہے جس کو سٹریم لائن کرنے میں کم سے کم تین چار ماہ لگے گیں۔جموں وکشمیر کا اپنا آئین اب ختم ہوگیا ہے۔ فوری طور پر جو عملی طور اثر دیکھنے کو ملا، وہ یہ تھاکہ سول سیکریٹریٹ ، صوبائی کمشنر، ضلع ترقیاتی کمشنر اور دیگر سرکاری دفاتر جہاں جہاں بھارت کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کا پرچھم تھا، وہاں سے جموں وکشمیر کا پرچھم اُتار دیاگیاہے۔آئینی عہدوں پر تعینات افسران گورنر، ان کے صلاحکار وں ودیگر افسران کی سرکاری گاڑیوں سے بھی جھنڈے غائب ہیں۔ اسمبلی اسپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کل شام اپنی سرکاری گاڑی سے جموں وکشمیر کا جھنڈا اُتار دیا۔دفعہ 370کی منسوخی کے بعد اب انتظامی سطح پر بھی کافی تبدیلیاں رونما ہوں گیں،جموں وکشمیر کیڈر کے آئی پی ایس اور آئی اے ایس افسران کے علاوہ دیگر مرکزی سروس افسران بدستور اپنے پرانے رول کو جاری رکھیں گے جبکہ ان سروسز میں نئے تعینات ہونے والوں کو ’’اے جی ایم یوٹی(اروناچل، گوا، میزورام وفاقی علاقوں)‘‘کا کیڈر فراہم کیاجائے گا۔ جموں وکشمیر تشکیل نو بل 2019کے مطابق علاقائی سروس افسران تب تک اپنی موجودہ پوزیشنوں پر ہی بدستور کام کرتے رہیں گے، جب تک کہ نہ لیفٹیننٹ گورنر انہیں دو نئے وفاقی علاقوں، جموں کشمیر اور لداخ میں تعیناتی کے لئے نئے حکم نامے جاری کریں گے۔ اب جبکہ جموں وکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے، میں تمام ریاستی ملازمین اب یو ٹی ملازمین ہوں گے ، جوکہ سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل(CAT)کے تحت آئیں گے، اب جموں وکشمیر سول سروسز رولز ختم، جن کے تحت ہائی کورٹ میں رٹ عرضیاں دائرہوتیں تھیں جوکہ اب سینٹرل ایڈمنسٹریٹیو ٹریبونل میں ہوا کریں گیں۔بتادیں کہ جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں 60فیصد سے زائد معاملات ملازمت سے متعلق ہوتے تھے جوکہ اب ختم ۔عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے مطابق ہائی کورٹ کا حد اختیار CAT پر نہیں، اس فیصلہ کے مطابق صرف ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ میں رٹ دائر ہوسکتی ہے۔ اب جموں وکشمیر میں جتنے بھی سروس معاملات تھے، وہ CATکے پاس منتقل ہوجائیں گے۔ اب مرکز کا صارفین تحفظ قانونی بھی جموں وکشمیر میں لاگو ہوگیا ہے ، جس کے تحت ریاستی کمیشن کے بعد اپیل نیشنل کمیشن کے پاس جائے گی، ہائی کورٹ کا اختیار ختم۔احتساب کمیشن بھی ختم ہوگئی، دونوں چیئرمین اور ممبر کی نوکریاں ختم ہوجائیں گیں کیونکہ اب مرکزی زیر انتظام علاقہ میں ’لوک آیوکتہ‘تعینات کیاجائے گا۔ رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی)کی جگہ اب تعزیرات ِ ہند (آئی پی سی)نافذ ہوگا۔ اب سول پروسیجر کوڈ اور کریمینل پروسیجر کوڈ کااطلاق ہوگا۔ بتادیں کہ ملک بھر میں گئو کشی اور بھینس وغیرہ زبح کرنا جرم نہیں جبکہ جموں وکشمیر میں آر پی سی کی سیکشن298-Aکے تحت یہ جرم تھا جوکہ اب نہیں ہوگا۔ مطلب یہ کہ اگر جموں وکشمیر میں گئو یا بھینس کشی ہوتی تو وہ قانوناًجرم نہیں۔اس سے پہلے جموں یا سرینگر ہائی کورٹ میں جموں وکشمیر آئینِ کے تحت رٹ پٹیشن سیکشن103اور فوجداری عرضی561-Aسی آر پی سی کی طرز پر دائر ہوتی تھیں، جو اب ختم ہوگئیں، اب اس کی جگہ آئین ہند کی دفعات226اور227اور سینٹرل سی آر پی سی کی سیکشن482کے تحت عرضیاں دائرہواں کریں گیں۔لداخ مرکزی زیر انتظام اور جموں وکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ میں ریاستی قوانین بشمول گورنر کے بنائے ہوئے قوانین 165قوانین نافذ العمل رہیں گے۔ ریاست کے166قوانین ہیں جو ختم ہوجائیں گے ۔اب سوال یہ ہے کہ جموں وکشمیر جب جموں وکشمیر مرکزی زیر انتظام کے طور اپنا کام کاج پوری طرح سنبھال لے گی تو لیفٹیننٹ گورنر کا سیکریٹریٹ ہیڈکوارٹر کہاں ہوگا۔کیا یہ جموں میں ہوگا یا سرینگر میں یاپھر پرانے طرز پر ہی چھ ماہ جموں اور چھ ماہ سرینگر ہیڈکوارٹر رہے گا…؟۔اب انڈین رجسٹریشن ایکٹ جموں وکشمیر میں نافذ العمل ہوگا ، اب رجسٹریشن پنجاب ، دہلی یا کہیں اور ایس ڈی ایم کے پاس ہوگی اور اب جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس نہیں ہوگی۔سال 2015میں جب پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت بنی تو جب چوہدری لال سنگھ وزیر جنگلات بنے تو انہوں نے جنگلات اراضی سے جگہ جگہ قبائلی طبقہ جات کو نکالنے کیلئے مہم چلائی،کئی کی مارپیٹ بھی ہوئی لیکن اب جموں وکشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ میں’فارسٹ ڈیولرز(جنگلات حقوق کی تصدیق)بھی لاگو‘ہوگا ہے جس کے تحت اب قبائلی طبقہ جات جوکہ سال 2005سے قبل جنگلات کی اراضی پر قابض ہے، اُس کو وہاں پر رہنے، کھیتی باڑی کرنے اور جنگلات سے جڑی بوٹی نکالنے کا حق حاصل ہوگا،مطلب کہ اب جہاں جہاں گوجر بکروال یا دیگر قبائلی کے لوگ جنگلات کا استعمال کرتے تھے، یا جن کے قبضہ میں جنگلات اراضی ہے، انہیں وہاں سے نکالا نہیں جاسکے گا۔