مغل شاہراہ پر ٹریفک نظام کنٹرول کا فقدان، اسپتال ،ایمبولینس اور مواصلاتی خدمات دستیاب نہیں

مغل شاہراہ پر ٹریفک نظام کنٹرول کا فقدان، اسپتال ،ایمبولینس اور مواصلاتی خدمات دستیاب نہیں
اے آر ٹی او پونچھ سے چند پیسوں کی خاطر ڈرائیورنگ لائسنس جاری ہونے کا عمل بند ہونا چاہئے :عوام
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور انتظامیہ کی لاپرواہی کی وجہ سے آئے روز دلدوز سڑک حادثات رونما ہورہے ہیں۔جمعرات کو تاریخی مغل شاہراہ پر پیر کی گلی سے کچھ دوری پر واقعہ لال غلام علاقہ میں ٹیمپو حادثہ کا شکار ہوگئی۔ا س ٹیمپو میں قانونی طور دس مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جس میں 17مسافر سوار تھے۔ سرنکوٹ کے ایک کمپیوٹر سینٹر میں زیر تربیت نوجوان لڑکے اورلڑکیاں سیروتفریح پر جارہے تھے جب یہ حادثہ پیش آیا۔اس دلخراش سڑک حادثہ پر ہرسوں مذمت کی جارہی ہے۔ سوشل میڈیا پر تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کے لئے ذمہ دار کون۔ آخر کب تک یہ حادثات رونما ہوتے رہیں گے ، چند دنوں تک تعزیتی پیغامات ومذمتی بیانات کا سلسلہ جاری رہے گا پھر حالات وہی معمول کے مطابق چلتے رہیں گے۔ رواں ماہ پونچھ اور راجوری میں مختلف مقامات پر پیش آئے حادثات پر35سے زائد افراد کی جانیں تلف ہوچکی ہیں جبکہ درجنوں اپناہج ہوچکے ہیں ،کئی ریاست وبیرون ریاست کے کئی اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ہر حادثہ کسی نہ کسی کے لئے عمر بھر نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ جاتاہے ۔ہر ایک کو داغ مفارقت دے جاتاہے۔ جمعرات کو پیش آئے ٹیمپو حادثہ سے پورا سرنکوٹ مغموم ہے۔ مہولکین کا تعلق گاو¿ں دھندک، گونتھل، درابہ، فضل آباد، لٹھونگ ، سہڑی خواجہ سے ہے اور ان میں کئی کا تعلق ایک ہی کنبہ سے ہے۔اس حادثہ میں گاو¿ں گونتھل سے تعلق رکھنے والا 22سالہ سہیل احمد جنجوعہ بھی شامل تھا۔سہیل جس کے والد محکمہ ڈاک میں ملازم تھے، نے بڑی محنت ومشقت کو اپنے دو بچوں کی پروریش کی۔چند ہی برس ہوئے تھے کہ چھ نفوس پر مشتمل اس کنبہ کی مالی حالت بہتر ہوئی تھی۔سہیل احمد نے اہل ِ محلہ نے بتایاکہ مرحوم انتہائی قابل ترین لڑکاتھا ، مالی تنگدستی کو دور کرنے کے لئے چند سال سرنکوٹ میں کپڑے کی دکان پر کام کیا۔ کرکٹ کا بہت شوقین تھا ،فوج میں جانے کا اُس کو شوق تھا، جس کا بڑا بھائی بھی چند برس سے فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہاہے۔ سہیل احمد خا ن اِ ن دنوں کمپیوٹر کی تربیت حاصل کررہاتھا ۔اس حادثہ میں جاں بحق ہونے والے بیشتر لڑکے لڑکیوں کی عمر 20سے25سال کے بیچ تھی جنہوں نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھاتھا۔ متعدد افراد نے تسلسل سے رونما ہورہے حادثات کی وجہ بیان کرتے ہوئے بتایاکہ پونچھ اور راجوری میں ٹاٹا سومو ، ٹیمپو، طویرہ اور دیگر چھوٹی مسافر گاڑیاں چلانے والے بیشتر ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں، جس نے تھوڑا بہت اسٹرینگ ہینڈل کرنا سیکھ لیا وہی ڈرائیورنگ شروع کر دیتاہے۔ٹریفک پولیس غیر پیشہ وارانہ ڈرائیوروںکی مشرومنگ پر روک لگانے میں نہ صرف ناکام ہوئی ہے بلکہ ہفتہ وصولی کے نام پر انہیں انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ نصیر احمد نامی ایک نوجوان نے بتایاکہ جن ڈرائیوروں کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہیں، وہ بھی باقاعدہ قواعد وضوابط کے تحت ’ڈرائیورنگ ٹسٹ‘پاس کر کے حاصل نہیں کئے بلکہ جگاڑ چلا کر رشوت دیکر حاصل کئے ہیں۔ ان کے مطابق اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ (ARTO)دفتر پونچھ میںجگاڑ کے ذریعہ ڈرائیورنگ لائسنس جاری کرنے کے لئے ریٹس مقرر کئے ہیں جوکہ 4000, 6000اور8ہزار تک ہیں ۔بڑی کمرشیل یا مسافر گاڑی کے ڈرائیونگ لائسنس کی اجرائیگی کے لئے مبینہ طور دس ہزار روپے بھی وصول کئے جاتے ہیں۔ آج کل چونکہ آن لائن فارم بھرنا پڑتا ہے جوکہ بھرنے کے بعد ڈرائیورنگ ٹسٹ ضرور لیاجاتاہے لیکن جس نے پیسے دیئے ہوں ، وہ ٹسٹ پاس کرے یا نہ کرے ، ڈرائیورنگ لائسنس اُس کو مل جاتاہے۔ اے آر ٹی او دفتر پونچھ کے ایک ملازم نے رازداری کی شرط پر بتایاکہ اوسطاًمحض5سے10فیصد لوگ ہی ڈرائیورنگ ٹسٹ پاس کر پاتے ہیں، اِن کے مطابق اگر 40لوگ ڈرائیورنگ ٹسٹ دیتے ہیں تو اس میں بمشکل پانچ چھ ہی ایسے ہوتے ہیں جوٹسٹ پاس کرتے ہیں۔ذرائع کے مطابق لیکن بعد ازاں بیشتر ٹسٹ دینے والوں کو ڈرائیورنگ لائسنس جاری ہوجاتے ہیں بشرطیکہ انہوں نے پیسے دیئے ہوں۔اس کے علاوہ گاڑیوں کی Fitness کو بھی قواعد وضوابط پر عمل درآمد کئے بغیر چند پیسوں کی لالچ میں آکر ہری جھنڈی دے دی جاتی ہے۔ رفیق احمد ایک شخص کا کہناتھاکہ ”افسران میں انسانیت نام کی کوئی چیز تک نہیں رہی، اتنے بے حس ہوچکے ہیں اور ضمیر اِس حد تک مرچکا ہے کہ وہ خون تک پینے کو تیار ہیں، کم سے کم پیسے لیکر ڈرائیورنگ لائنس جاری کرتے وقت ایک بار تو سوچنا چاہئے کہ وہ عام لوگوں کو مارنے کا لائسنس کسی کو دے رہے ہیں“۔یوتھ نیشنل کانفرنس لیڈر عبدالقادر خان نے کہاکہ مغل شاہراہ پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کا کوئی مناسب انتظام نہ ہے، بفلیاز پل، چندی مڑھ ، سیلاں یا بحرام گلہ کے مقام پر اگر چند ٹریفک پولیس اہلکار کھڑے بھی ہیں، وہ گاڑی میں کتنی سواریاں بیٹھی ہیں، کتنی ہونی چاہئے، ڈرائیورپیشہ ور ہے یا نہیں، لائسنس ہے، فٹنس ہے یا نہیں، کوئی ا س پر کوئی دھیان نہیں دیاجاتا، کبھی جان پہچان پر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے یا پھر جس سے جان پہچان نہیں، اُس سے پیسے لیکر چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے حادثہ پر اپنے تاثرات ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ٹریفک پولیس اور محکمہ ٹرانسپورٹ کو قواعد وضوابط سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے، جب تلک ٹریفک پولیس قوانین کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سختی نہیں برتے گی، حادثات کا یہ عمل جاری رہے گا۔ مغل شاہراہ پر سفر کرنے والوں کا کہنا ہے کہ مغل شاہراہ پر اموات کی زیادہ شرح کی ایک بڑی وجہ وہاں پر نزدیک اسپتال کا نہ ہونا ہے، اگر کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو یاضلع اسپتال شوپیان یاپھر سب ضلع اسپتال سرنکوٹ زخمیوں کو لاناپڑتا ہے، جہاں منتقلی تک بیشتر زخموں کی تاپ نہ لاتے ہوئے چل بستے ہیں۔ مغل شاہراہ پر ایمبولینس نہیں، کوئی ٹریفک کنٹرول نظام نہیں اور ہی مواصلاتی خدمات ہیں، نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے بروقت حادثہ کی خبر تک بھی نہیں ملتی۔ اس بارے کئی بار ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ، گورنر انتظامیہ اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیاگیاکہ مغل شاہراہ پر مواصلاتی خدمات بہتر بنائی جائیں مگر اس طرف کسی نے بھی دھیان نہ دیا۔ ایڈووکیٹ شمس الدین شاز نے بتایاکہ چند ملازمین کو معطل کردینا مسئلہ کا حل نہیں، بلکہ وجوہات کی نشاندہی کر کے انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے دلدوز سانحات رونما نہ ہوں، گھروں کے چراغ گل نہ ہوں، کوئی ماں بیٹے سے، کوئی بہن بھائی سے، کوئی باپ بیٹی سے اور کوئی خاوند سے محروم نہ ہو۔سماجی کارکن سکندر نورانی کا کہنا ہے کہ ”پیر پنجال کے سیاسی لیڈران مغل شاہراہ پر ہوئے دلسوز حادثہ پر لوگوں سے معافی مانگیں اور فیس بک پر تعزیتی پیغامات دینے کے بجائے گورنر انتظامیہ پر پریشر بنائیں کہ جب ہم اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہم اپنے گھر بھرتے ہیں اور غریبوں مسکینوں کے حقوق کی ترجمانی کرنے کے بجائے آپنے آقاو¿ں کو خوش رکھنے کے لئے لبوں پر مہر لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔خدا راہ گورنر صاحب اب آپ اقتدار میں ہیں آپ مغل شاہراہ پر بڑے بڑے کھڈوں بلیک ٹاپنگ اکسیڈینٹل ہسپتال ایمبولینس اور نیٹ ورک کے بارے میں جلد اقدامات اٹھائیں“۔