انتخابی میلہ 2019…. اجنبی چہروں کی گھر گھر آمد

انتخابی میلہ 2019….
اجنبی چہروں کی گھر گھر آمد
الطاف حسین جنجوعہ
7006541602
جموں وکشمیر سے لیکر کنیہ کماری اور آسام سے گجرات تک مذاہب، تہذیب تمدن، لسانیات، رہن سہن، موسم اور جغرافیائی لحاظ سے انڈیا میں حد درجہ تنوع ہے۔کہیں سردی ہوتی ہے تو کہیں کڑاکے کی دھوپ،کہیں خشک سالی تو کہیں سیلابی تباہی، حتی کہ بیشتر معاملات میں آپ کواُتار چڑھاو¿ دیکھنے کوملے گا۔ مذہبی اور تمدنی تہواروں کا بھی سلسلہ سال بھر انڈیا کے کسی نہ کسی کونے میں چلتا ہی رہتا ہے مگر ایکساتھ ملک بھر میں کچھ ہورہا ہو، وہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن واحد ایک موقع ایسا ہے کہ جب ملک بھر کے لوگ ایک ہی سُر اور تال میں ہوتے ہیں۔ وہ ہے عام انتخابات یعنی’لوک سبھا چناو¿، جن کو لیکرملک بھر میں ،اِس وقت سرگرمیاں عروج پر ہیں۔طول وعرض میں ہرجگہ انتخابی ریلیاں،جلسے جلوس، پریس کانفرنسیں، احتجاجی پروگرام، روڈ شوز کا اہتمام ہورہاہے۔پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں اشتہارات، ٹیلی ویژن چینلوں پر بحث وتمحیص اور سوشل میڈیا پر تبصرے وتنقیدجاری ہیں ۔عام انتخابات کا بخار سرچڑھ کر بول رہاہے۔ہرمحفل، مجلس، تقریب، پروگرام، میٹنگ میں آپ کو سیاسی موضوع یا اس سے متعلق معاملات پر ہی باتیں سننے کو ملیں گیں۔
عام انتخابات کو ’جمہوریت کا جشن‘اور میلہ بھی کہاجاتاہے۔10مارچ2019کوالیکشن کمیشن آف انڈیا کی طرف سے انتخابی کلینڈر جاری کرنے کے بعد چناو¿ی بگل بج چکا ہے۔جموں وکشمیر ریاست جہاں چار مراحل میں مشتمل انتخابات کا آغاز11اپریل سے جموں اور بارہمولہ نشستوں پر ووٹنگ سے ہورہا ہے، میں بھی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔گاو¿ں دیہات، قصبہ جات، شہروں میں ہرجگہ چہل پہل، گہما گہمی ہے۔ چونکہ پارلیمانی انتخابات کے بعداسمبلی انتخابات ہونے ہیں، اس لئے اب یہ انتخابی بخار جون کے آخیر تک جاری رہے گا۔ریاست کے اطراف واکناف میں کوئی جگہ نہیں بچے گی جہاں پر رہائش پذیر لوگوں کے پاس کسی نہ کسی صورت میں ’ووٹ مانگنے ‘والوں کی آوا جاہی نہ ہو۔گاو¿ں کے لوگ چونکہ سادہ طبیعت ،ملنسار اور جذباتی زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے ان کے جذبات کا فائیدہ اُٹھانے کے لئے بھی لیڈران دوران ’انتخابی مہم‘طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لیڈران نے جگہ جگہ اپنے ورکران کو کام پر لگا دیا ہے کہ پورے علاقہ کی ایک تفصیل پیش کی جائے، پچھلے پانچ برس کے دوران اموات ہوئی ہیں، کس کو کوئی دیگر طریقہ سے جانی ومالی نقصان ہوا ہے، کس کو کیا مشکل لاحق ہے،کوئی بیمار ہے وغیرہ وغیرہ۔لیڈران ووٹ مانگنے کے لئے جب دور دراز دیہات اور گاو¿ں میں پہنچتے ہیں، تووہاں پر گھروں میں موجود بزرگوں سے نہایت ہی ادب واحترام سے پیش آتے ہیں،کچھ تو بزرگوں کی سیوا میں بھی لگ جاتے ہیں۔ پھر ان کے پورے اہل خانہ کے بارے میں تفصیل سے پوچھتے ہیں کہ فلاح مشکل پریشانی کا کیا ہوا، اور ایسا باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ انہیں ان کے ہردکھ ودرد کی مکمل جانکاری ہے اور وہ انہیں حل بھی کریں گے۔زیادہ ترلوگ اس فریب کاری کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔دور دراز علاقوں میں ایسے ایسے اجنبی چہروں سے بھی لوگوں کا پالا پڑ رہاہے جنہیں گاو¿ں کے لوگوں نے اس سے قبل کبھی دیکھا نہیں ۔کچھ لیڈر ان اس استعماری حربے کے دوران جانکاری نہ ہونے کی وجہ سے دھوکہ بھی کھاجاتے ہیں اور کبھی کبھار شرمندگی بھی اُٹھانا پڑتی ہے ۔گذشتہ برس نومبر۔ دسمبر ماہ میں ہوئے پنچایتی انتخابات کے دوران ایک دلچسپ واقع پیش آیا جس میں ایک حلقہ سے بطور سرپنچ سابقہ افسر موصوف نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، تو وہ مہم پر جب گاو¿ں میں نکلے توایک گھر میں پہنچے، وہاں نوجوان سے حال چال دریافت کیا اور پھر کہااپنی والدہ کو بلائیں ان سے بات کرنی ہے، اِس نوجوان نے جواب دیا وہ تو چار برس قبل اللہ کو پیار ہوگئی تھیں،آپ کبھی گاو¿ں آئے نہیں، اس لئے آپ کو جانکاری نہیں۔
دور دراز گاو¿ں میں رہائش پذیر لوگوں سے درخواست ہوگی کہ آجکل مہمان نوازی چونکہ بڑھ گئی ہے۔لہٰذا گھر پرکافی مقدار میںکھانڈ، چائے، بیکری،دودھ،مشروبات وغیرہ کا معقول اسٹاک دستیاب رکھیں کیونکہ صبح5بجے سے لیکر شام11یاکبھی کبھار12بجے تک بھی آپ کے گھر’ووٹ مانگنے کی خاطر‘مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہے گا۔ علاوہ ازیں اجنبی نمبرات سے فوج بھی آئیں گے ، تعریف وتوصیف، قصیدہ گوئی کے علاوہ آپ سے ووٹ طلب ہوگا۔ آپ کو ایسے لیڈران خود آپ کی گھروں کی دہلیز پر کھڑے نظر آئیں گے جن سے ملاقات کیلئے آپ کو جموں یا سرینگر جانا پڑتا تھا اور وہاں بھی گھنٹوں انتظار کے بعد صرف ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تھا۔ آپ کو ایسے امیدوار بھی دہلیزپر ملیں گے چھ برس یا تین برس قبل آپ کے ہاں آئے تھے، بڑے بڑے خواب دکھائے تھے اور پھر واپس مڑھ نہ کردیکھا۔ ایسے لیڈران جوکہ ایئرکنڈیشن گاڑیوں کے بغیر چلنابھی گوارہ نہیں کرتے ، وہ بھی پیدل گاو¿ں میںدورڑتے ،بھاگتے نظر آئیں گے، سانس پھولی ہوگی، پسینے سے جسم شربور ہوا ہوگا۔ نہ بارش کی فکر، نہ دھوپ ، بھوک وپیاس کا احساس، اُنہیں صرف ڈراُس کرسی کے چھین جانے کا ہوتا ہے، جس کی بدولت پچھلے پانچ ا برس تک جنہیں دھوپ، بارش، برف ، بھوک وپیاس جیسے مشکلات کا احساس نہ ہوا۔
انتخابی ماحول پر کافی مزاحیہ شاعری، تبصرے بھی ہورہے ہیں۔ ایک بڑی دلچسپ ویڈیو اِ ن دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے جس میں انتخابات کی بڑے بہترین عکاسی کی گئی ہے کہ محکمہ پارلیمانی امور سے545آسامیاں نکالی گئی ہیں ، جن کی تقرری کے لئے درخواستیں طلب کی جارہی ہیں۔اہلیت یہ ہے کہ اُمیدوار ان پڑھ ہونا چاہئے، کار اور محافظ مفت میں ملیں گے، اوپر کی کمائی (کمیشن اور رشوت خوری)کے علاوہ لاکھوں میں تنخواہ ہوگی، دیگر مراعات اعلیحدہ سے۔ عمر کی کوئی حد مقرر نہیں،چاہئے 80ہویا87برس ،چاہئے بستر علالت پر، مگرجھوٹ بھولنے میں مہارت ہو، بدمعاش ہو، دو چار مقدمات درج ہوں، مذہب، فرقہ، ذات پات، علاقہ کے نام پر لوگوں کو اچھی طرح تقسیم کرسکے، ضمیر بالکل مراا ہوا ہوا، جملہ بازی اور اچھی تقریرکرسکتا ہو، ایمانداری اُس کے لئے پرائی چیز ہو۔ پاسپورٹ سائز فوٹوکے بجائے ہاتھ جوڑ کر فوٹو کچھوایا ہونا چاہئے۔ پرموشن کے لئے یہ اہلیت ہے کہ منشیات یادیگر جرائم کے ذریعہ اچھی خاصی کمائی کی ہویا ایسا کرنے کا اچھا ہنر ہو، بے ایمانی، جھوٹ فریبی، مکاری کی ماسٹری ہو،کبھی نیکی نہ کی ہوئی اور رشتے اس کے لئے معنی نہ رکھیں“۔545آسامیوں کو پرکرنے کے لئے اِس وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ، سماج میںمہذب مرتبہ رکھنے والے افراد بھی اپلائی کر رہے ہیں، لیکن متذکرہ اہلیت کے حساب سے شاہد وہ موزوں امیدوار نہ قرار پائیں۔
ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت عام اور غریب لوگوں کی ہوتی ہے۔ کبھی بھی آپ کو سرکاری ملازمین، بڑے تاجر، صنعتکاراور امیرطبقہ کے لوگ قطار میں کھڑے نظر نہیں آئیں گے۔ عام لوگوں کے ووٹوں سے بننے والی حکومت بعد میں صرف خاص لوگوں کے لئے کام کرتی ہے۔ فیصلہ سازی، منصوبہ سازی میں صرف سماج کے چار سے پانچ افراد کا عمل دخل زیادہ رہتا ہے۔ اثر رسوخ افراد کے اشاروں پر ہی حکومت چلتی ہے۔ الیکشن عام ووٹر کے پاس ایک نادر موقع ہے کہ وہ ہرپہلوو¿ں کو نظر میں رکھ کر اپنے ووٹ کا استعمال اس طرح سے کرے کہ آئندہ پانچ برس اُس کا استحصال نہ ہوبلکہ مفادات کا تحفظ ہو۔
٭٭٭٭٭٭
نوٹ:مضمون نگارپیشہ سے صحافی اور وکیل ہیں
ای میل:[email protected]