پہاڑی اور گوجری زبانوں کو اسکولوں میں بطور ’مضمون پڑھاناہنوز دیرینہ خواب

پہاڑی اور گوجری زبانوں کو اسکولوں میں بطور ’مضمون پڑھاناہنوز دیرینہ خواب
13برس بعد بھی سرکاری حکم نامہ پر عمل ہونا باقی، ذمہ دار کون….؟
کمیٹیوں کی تشکیل اور طباعت پرلاکھوں خرچ ،تیار شدہ نصابی کتابیں گودام میں گرد آلودہ پڑی ہیں
الطاف حسین جنجوعہ
جموں//’پہاڑی‘ اور گوجری زبانوںکو بطور مضمون سرکاری ونجی اسکولوں میں متعارف کرنے کے لئے سال 2006کو جاری سرکاری حکم نامہ پر 13برس گذر جانے کے بعد بھی عملدرآمد نہ ہوسکا ہے۔حکم نامہ کے تحت فی الحال کمیٹیوں کی تشکیل، نصاب کی تیاری، کتابوں کی طباعت تک لاکھوں روپے خزانہ عامرہ سے خرچ کئے جاچکے ہیں لیکن جس مقصد کے لئے یہ اخراجات ہوئے، وہ ابھی پورا ہونا باقی ہے۔10اکتوبر2006کو محکمہ اسکول تعلیم حکومتِ جموں وکشمیر نے حکم نامہ زیر نمبر222-Educ/2006جاری کیاتھا جس کے تحت علاقائی زبانوں کشمیری، ڈوگری، پہاڑی، گوجری، پنجابی اور بودھی/لداخی کوبطور مضامین اسکولوں میں متعارف کرنے کی بات کی گئی تھی،کشمیری اور ڈوگری کو مکمل طور پڑھایاجارہاہے لیکن دیگر زبانوں خاص طور سے پہاڑی اور گوجری مضامین ابھی شروع نہیں کئے گئے۔ ۔ذرائع کے مطابق دونوںزبانوں میں اب آٹھویں تک نصاب تیار کیاجاچکا ہے۔ جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی طرف سے نصابی کتابیں، طباعت کے عمل سے گذرکر اب گوداموں میں بھی آگئی ہیں، لیکن اسکولوں تک نہیں پہنچ پائیں۔اس کے لئے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن اور محکمہ اسکول تعلیم ایکدوسرے پر ذمہ داری تھوپ رہے ہیں۔اپریل 2018کوکارگذار چیف جسٹس راما لنگم اور جسٹس سنجیو کمار پر مشتمل جموں وکشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے ایک مفاد عامہ عرضی میں جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کو ہدایت دی تھی کہ تمام علاقائی زبانوں کو بلاکسی امتیاز رواں تعلیمی سیشن سے تمام سرکاری اور نجی اسکولوں میں پڑھایاجائے۔ مفاد عامہ عرضی کو عدالت عالیہ نے بورڈ اور محکمہ اسکول حکام کی یقین دہانی کے بعدمذکورہ ہدایت کے ساتھ نپٹایاتھا۔ ایک برس ہوچکا ہے کہ عدالت عالیہ کے احکامات کو بھی بورڈ حکام نے سنجیدگی سے نہ لیا ہے۔ ذرائع نے اڑان کو بتایاکہ2006 پرائمری سطح تک اسکولوں میں مادری زبانیں پڑھانے کا حکم جاری ہوا تھا جس میں پہاڑی اور گوجری زبانیں بھی شامل تھیں،ان کے لئے جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے مادری زبانوں کے نامور دانشوروں، ادیب، مصنفوں اور ماہرین تعلیم کی کمیٹیاں تشکیل دیں جن سے نصابی کتابیں تیار کروائی گئیں ۔ پہاڑی کو بطور مادری زبان پرائمری سطح تک اسکولوں میں پڑھانے کی غرض سے دو کمیٹیاں تشکیل دی گئیں تھیں، ایک کمیٹی کلچرل اکیڈمی اوردوسری بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے قائم کی۔ جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن نے سال 2008کوکمیٹی بنائی جس میں پہاڑی طبقہ کے دانشوروں اور ماہرین تعلیم کو شامل کیاگیا۔ ڈاکٹر فاروق انور مرزا جوکہ اس وقت ریاستی اکیڈمی برائے فن وتمدن اور لسانیات میں شعبہ پہاڑی کے مدیر اعلیٰ ہیں، اس کمیٹی کے کنوئنر تھے جس میں دوسروں کے علاوہ خرشید بسمل، راجہ نذر بونیاری، ڈاکٹر جہانگیر دانش، نثار راہی، سید اقبال ملنگامی اور فدا راجوری وغیرہ بھی شامل تھے۔ کمیٹی نے سال 2008سے سال2011تک انتھک محنت ولگن ، عرق ریزی اور جانفشانی کے بعد کلاس فسٹ سے لیکر پانچویں تک پہاڑی زبان میں نصابی کتابیں آج تیار کیں۔ کتابوں کا مسودہ تیار کرنے کے بعد ان کی طباعت، و اشاعت بھی ہوئی ۔ اس عمل پر لاکھوں روپے خرچ کئے گئے مگر یہ کتابیں اسکولوں تک پہنچنے کے بجائے گودام میں ہی گرد آلودہ پڑی ہیںذرائع کے مطابق کلچرل اکیڈمی کی طرف سے تشکیل دی گئی کمیٹی کے چیرمین پی این پش تھے، اس کمیٹی کا مقصد وادی کشمیر میں بولی جانے والی پہاڑی(کاغانی) اور خطہ پیر پنچال وصوبہ جموں کے دیگر علاقوں میں بولی جانے والی پہاڑی کے مابین ہم آہنگی پیدا کر کے ایک یکجا نصاب تیار کرنا تھا، ان دونوں کمیٹیوںنے جانفشاری سے کام کیا۔یہی حال گوجری زبان کا ہے۔ گوجری کی کتابیں کنوئنر ڈاکٹر جاوید راہی کی سربراہی میں تیار کی گئیں لیکن اسکولوں تک نہیں پہنچ پائیں۔گذشتہ برسی یعنی2018کو پھر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن /محکمہ اسکول تعلیم نے پہاڑی اور گوجری زبانوں میں چھٹی سے آٹھویں تک نصاب تیار کرنے کے لئے ورکشاپیں منعقد کیں۔ اب آٹھویں تک کتابیں تیار ہوچکی ہیں۔لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد’پہاڑی زبان‘کو پڑھانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی اور تیار کردہ کتابیں بورڈ ، چیف ایجوکیشن افسر اور زونل ایجوکیشن دفاتر میں گرد آلودہ حالت میں پڑی ہیں۔
ڈیمانڈ نہیں ملتی
نظامت برائے اسکول تعلیم اور جموں وکشمیر بورڈ آف اسکول ایجوکیشن حکام کا کہنا ہے کہ انہیں متعلقہ چیف ایجوکیشن افسران، زونل ایجوکیشن افسران سے کوئی ڈیمانڈ موصول نہیں ہوئی، کتابیں تیار ہیں، گودام میں پڑی ہیں، انہیں تبھی سپلائی کیاجائے گا جب ڈیمانڈ آئے گی۔تاہم حکام اس بارے کوئی بھی وضاحت نہیں دے پارہے کہ آیا اس حوالہ سے کوئی باضابطہ آرڈرجاری کیاگیا ہے، کیا اُن علاقہ جات یا اسکولوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پر زیر تعلیم طلبا کی مادری زبان پہاڑی یا گوجری ہے ۔ذرائع کے مطابق بارہا بذریعہ حق اطلاعات قانون بھی محکمہ اسکول تعلیم اور بورڈ حکام سے یہ جانکاری حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ دونوں اداروں نے اسکول میں مضامین کو پڑھانے کے لئے عملی طور کیا اقدامات کئے ہیں، لیکن ایک مرتبہ بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ اس ضمن میں اسکول ایجوکیشن یا پھر بورڈ حکام کو حکم نامہ جاری کرنا ہے، کوئی بھی وضاحت نہیں۔ حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ افسران کو اس بارے زیادہ جانکاری ہی نہیں جس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہ مادری زبانوں کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں۔رابطہ قائم کرنے پر ناظم تعلیم جموںانورادھا گپتا کا کہناتھا”مجھے اس بارے کچھ زیادہ جانکاری نہیں، اس میں زیادہ رول جے کے بورڈ کا بنتا ہے، علاوہ ازیں بچوں کی بھی دلچسپی ہونی چاہئے، اس میں کیا کچھ صورتحال ہے، وہ اس بارے جان کر بتاو¿ں گی“۔
والدین کی عدم دلچسپی
ذرائع کا کہنا ہے کہ آج تک اسکولوں میں گوجری اور پہاڑی بطور مضمون نہ متعارف ہونے کی بڑی وجہ والدین کی عدم دلچسپی بھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گوجر اور پہاڑی طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ مادری زبان کے غیر حساس ہیں،۔ انتہائی لاپرواہی کا مطاہرہ کیاجاتاہے۔گھروں سے پہاڑی کو تو پہلے ہی بے دخل کردیاگیاہے ۔ زیادہ تر توجہ انگریزی پڑھانے پر دی جاتی ہے۔ انگریزی بھی ضروری ہے لیکن مادری زبان کے تئیں بھی والدین کو اپنے بچوں کے اندر دلچسپی پیدا کرنی ہوگی۔ بچے تبھی اس زبان کو پڑھنے کی طرف راغب ہوں گے جب والدین مادری زبان کی اہمیت سے انہیں روشناس کرائیں گے۔پہاڑی اور گوجری زبانوں کے درس وتدریسی عمل کو یقینی بنانے کے لئے کوششیں کرنی چاہئے کیونکہ ان زبانوں کی ترویج وترقی کے لئے اسکول سطح پر اس کو متعارف کرنا لازمی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک لمبی جدوجہد کے بعد ریاستی سرکار نے جموں وکشمیر کے اندر مادری زبانوں جس میں کشمیری، ڈوگری، لداخی کے ساتھ ساتھ پہاڑی او رگوجری کو بھی شامل کیاگیاتھا، کو سکولی سطح پر پڑھانے کے لئے حکم نامہ جاری ہوا تھا ، لاکھوں روپے خرچ ہوئے مگر اس کازمینی سطح پر کچھ فائیدہ نہیں۔ اس حوالہ سے والدین اور سماج کے ذمہ داران افراد کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ والدین کو متعلقہ اسکولوں کے ہیڈماسٹر اور پرنسپلوں پردباو¿ ڈالنا ہوگا کہ وہ زیر تعلیم بچوں کے متعلق فہرست مرتب کر کے کتابوں کیلئے ڈیمانڈ بھیجیں۔ علاو ہ ازیں متعلقہ زونل ایجوکیشن افسران، چیف ایجوکیشن افسران کے ساتھ ساتھ کلسٹرہیڈ ہائر اسکینڈری اسکولوں کے پرنسپلوں کو متحرک کرنا ہوگا۔سب کچھ انتظامیہ پرچھوڑنے سے یہ زبانیں کبھی اسکولوں میں متعارف نہیں ہوسکیں گیں، اس کے لئے والدین اور سماج کے ذمہ دار اشخاص بالخصوص گوجری اور پہاڑی زبان وادب کی ترویج وترقی کے لئے کام رہی انجمنوں، تنظیموں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔
نجی اسکولوں کی صورتحال
مادری زبانوں کوبطورمضمون پڑھانے کیلئے جاری حکم نامہ گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ نجی اسکولوںکے لئے بھی تھا لیکن کوئی بھی پرائیویٹ اسکول اس پر عمل نہیں کر رہا۔ ذرائع نے بتایاکہ پونچھ اور راجوری ، ریاسی ، کپواڑہ جہاں پہاڑی اور گوجری زبان بولنے والے لوگوں کی اکثریت ہے، میں قائم کئی بڑ ے نامی گرامی نجی تعلیمی ادارے ہیں جن میں کرائس اسکول پونچھ، ہمالین مشن ایجوکیشن راجوری، نانک اکیڈمی، گڈول آرمی پبلک اسکول وغیرہ قابل ذکر ہیں، میں بھی گوجری اور پہاڑی زبانیں بطور مضمون نہیں پڑھائی جارہیں۔
پہل کب ہوئی تھی
سال 2000-2002کے دوران نیشنل کانفرنس قیادت والی سرکار میں اُس وقت کے وزیر محمد شفیع اوڑی نے ملک کی دیگر ریاستوں کے طرز پر جموں وکشمیر میں بھی مادری زبانوں کوبطور مضمون پڑھانے کی پہل کی تھی ، اس کے تحت12ویں تک پہاڑی زبان میں کتابیں تیار کرانا بھی تھا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل سیاست کی نظر ہوکر ٹھنڈے بستے میں چلاگیا۔اس حوالہ سے 19جون2017کوآرڈ نمبر 333-Edu/2017بتاریخ19جون2017اور 21جولائی2017کو سرکاری آرڈ نمبر464-Edu/2017بھی جاری ہوئے جن میں کشمیری، ڈوگری ، پنجابی اور بودھی زبانوں کو نویں سے دسویں تک لازمی چھٹا سبجیکٹ قرار دیا گیاہے۔