جموں سرینگر قومی شاہراہ :رام بن تابانہال سیکٹر میںغیر تکنیکی طریقے سے کھدائی مسافروں کیلئے وبال جان

دانش وانی
بانہال//جموں سرینگر قومی شاہراہ جو کہ19ویں صدی میں جموں کشمیر ڈوگرہ مہاراجہ دورمیں (BC)یعنی بانہال کارٹ روڑ کے نام سے تعمیر کی گئی ۔اس پر کاٹ گاڑی کے ذریعے اُس زمانے میں جموں سے سرینگر تک پانچ دن کا وقت لگتا تھا ۔سن 1947ء کے بعد اس کارٹ روڈ کی تعمیر نو کی گئی اور اسے جموں سرینگر شاہراہ کا درجہ دیا گیا ۔وقت گذر نے کے ساتھ ساتھ بڑھتی آبادی اور ٹریفک دباؤکے باوجود سڑک کی وسعت پر کوئی دھیان نہ دیا گیا ۔بہتری کے نام پر اسی روڈ کو باڈر رورڈ آرگنائزیشن(BRO) کی طرف سے وقفے وقفے سے مر مت کی گئی ۔ اس شاہراہ کو فورلین میں تبدیل کر نے کو لیکر 7نومبر 2014کو ملک کے وزیراعظم نریندرا موی نے سنگ بنیاد رکھا ۔اس پر تعمیری کام شروع کر دیا گیا ۔باوثوق ذرائع نے اڑان کو بتایاکہ اس شاہراہ کے سب سے پُر خطر اور مشکل ترین 36کلو میٹر رام بن بانہال سیکٹر میں تعمیراتی کمپنیوں نے پہلے پہل ریٹ کم ہونے کی وجہ سے ٹینڈر ڈالنے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا تاہم بعد میں نرخوںمیں نیشنل ہائی وے ارتھارٹی آف انڈیا کی طرف سے اضافہ کر نے پراس کا کام ہندوستان کنسٹریکشن کمپنی (HCC)نے حاصل کیا ۔ 28دسمبر 2915کو اس سیکٹر میںتعمیراتی کام شروع کر کے حکومت ہندنے اس کی تکمیل کیلئے ساڑے تین سال کا وقت یعنی 2019تک کا ہدف مقرر کیا ۔ بانہال رام بن کے اس سیکٹر میں شروع میں چھوٹے چھوٹے سات ٹنل تعمیر کئے جانے کی بات کہی گئی تھی ۔ تعمیراتی کام شروع کر نے کے بعد تعمیراتی کمپنی کی کچھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے یہ پروجیکٹ شروع سے ہی تاخیر کا شکار رہا ۔اب 2019شروع ہونے کے بعد بھی اس پروجیکٹ کی ابھی تک کھدائی مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ کارٹ گاڑی کے ذریعے پانچ دنوں کے اندر مکمل کر نے والے اس رورڈ کی حالت اُسی دور میں واپس آ گئی ہے ۔ مسافروں کو جموں سے سرینگر اور سرینگر سے جموں پہنچنے میں ہفتوں کا وقت لگ رہا ہے ۔ تعمیراتی ایجنسیوں کی طرف سے اس سیکٹر کی جغرافیائی صورتحال کو مد نظر رکھنے کے بغیر ہی چٹانوں اور پہاڑوں کو کاٹنے کا کام شروع کر دیا جس کی وجہ سے اب چٹانیں کھسکنے کا نام نہیں لے رہیں۔خراب موسم کے علاوہ اب خشک موسم میں بھی ان پہاڑوں سے چٹانوں اور پسیوں کے گر آنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ذرائع نے بتایاکہ کھدائی کا کام مکمل کر نے کے بعد بھی کیا ان پہاڑوں سے پتھر اور چٹانیں رُک پائیں گی یہ سوال کئی ذہنوں میں اُبھر رہا ہے ۔ماہر ارضیات (GEOLOGIST)کا کہنا ہے کہ غیر تکنیکی اور پُرانے طرز عمل پراس قومی پروجیکٹ کے مشکل سیکٹر جس میں موجودہ سڑک کو بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ تعمیری کام بھی انجام دینا ہوا شروع کرنا ایک بہت بڑی غلطی مانی جانی چاہئے ۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سیکٹر میں موجود چٹانوں کوبنا ’سمینٹ گروٹنگ ‘اور ’راک بولٹنگ ‘کے کام کرنا کسی بڑے رسک سے کم نہ تھا جو تعمیراتی کمپنیوں نے لیا ہے ۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چٹانوں کے بیچ دراڑوںکو سمنٹ گروٹنگ کر نے کے بعد ہی انہیں چھیڑا جا سکتا تھا ۔ یہ عمل ساتھ ساتھ میں جاری رکھناتھا جو کہ ان پہاڑوں کو گرنے سے کسی حد تک بچا سکتا تھا ۔ایک سیول انجینئر کا ماننا ہے کہ وادی کی سپلائی لائن مانی جانی والی اس شاہراہ کو فورلین میں تبدیل کر نے کے لئے تعمیری کام شروع کر نے سے قبل اس میں کئی تکنیکی نقطوں کومد نظر نہ رکھا گیا ہے جیسے کہ اس سیکٹر میں پائی جانی والی درجہ چہارم کی (ROCK)یعنی چٹان کو اس طرح سے بنا احتیاط برتے چھیڑنا ایک بڑی تکینکی غلطی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ سیکٹر کی جہاںتک جغرافیائی صورت حال کا سوال ہے اور دیکھنے کومل رہی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ ٹیکنکل انجینئرنگ ونگ کو اس سیکٹر میں زیادہ سے زیادہ ٹنلز تعمیر کئے جانے چاہئے تھے تاکہ کھدائی کی وجہ سے گر آ رہی چٹانوں سے بچا جا سکتا اور موجودہ شاہراہ کو بھی قابل آمد و رفت رکھا جا سکتا ۔ گذشتہ تین سال کے عرصے میں سردیوں کو چھوڑ کر گرمیوں کے موسم میں بھی اس سڑک پر دو طرفہ ٹریفک کو چلایا جانا ٹریفک حکام کے لئے ایک بڑا درد سر بنا ہوا ہے اور سردیوں کے موسم میں اسے یک طرفہ ٹریفک کے قابل آمد ورفت بنانے رکھنے میں بھی مشکلوں کا سامنا ہے ۔ تعمیراتی ایئجنسیوں کی اس غیر ذمہ دارانہ رویہ کی کی وجہ سے پہاڑوں کے گر آنے کے سلسلے کے علاوہ اب زمینیں بھی دھنس رہی ہیں ۔ رام بن قصبہ میں مسجد مارکیٹ کے متصل تعمیر کئے جا رہے فلائی اور کی فونڈیشن کی وجہ سے جہاں میترا لنک روڑ ڈھنس گیا ہے وہیں شاہراہ بھی اس جگہ پر دھنس گئی ہیں اور اگر اس کی فوری مر مت نہ کی گئی یہ پورا حصہ دریائے چناب میں پہنچ جائے گا ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ فوج کی انجینئر نگ ونگ بھی اس حصے کو دیکھنے کے لئے آرہی ہے ۔پورے متعلقہ حکام میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے ۔ شاہراہ کے اس سنگین مسئلہ پر اگر فوری طور پر کوئی اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو رام بانہال سیکٹر میں درماندہ مسافروں کا درماندہ ہونا اب ایک عام بات بن کر رہ گئی ہے ۔گذشتہ ایک ماہ سے بانہال رام بن را مسو ،دگڈول اور کل چندرکورٹ میں بھی مسافروں کے لئے لنگروں کا اہتمام کیا گیا ،انہیں مختلف مسافر خانوں کے علاوہ لوگوں نے اپنے گھروں میں ٹھہرایا جبکہ کئی مسافروں نے گاڑیوں میں ہی رات گذاری اور یہ عمل آئے روز جاری ہے ۔ مقامی جانکاروں کا کہنا ہے کہ اس سیکٹر پر معمور کام کر نے والی نجی کمپنی کے علاوہ اس کی کل ہُم دیکھ ریکھ کر رہی نیشنل ہائی وے ارتھارٹی آف انڈیا بھی اس غیر ذمہ دارانہ رویہ اور شاہراہ کی خستہ حالی کی ذمہ دار ہیں جنہوں نے کمپنیوں کوشاہراہ کی تعمیر پر تکینکی احکامات صادر کر نے کے علاوہ انہیں وقت وقت پر ڈائریکشنز فراہم نہ کئے ۔جانکاروں کا ماننا ہے غیر منسوبہ بند طریقے سے جاری اس کام کی وجہ سے پسیوں اور چٹانوں کے کھسک آنے کے سلسلے کو بند کرنا ایک مشکل ترین عمل دکھائی دے رہا ہے اور مستقبل میں بھی مسافروں کو درماندگی کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔شاہراہ کایہ سیکٹر خونین سیکٹر سے تصور کیا جاتا تھا اور اسے فورلین میں تبدیل کر نے کے لئے شروع کئے گئے کام کے بعد اس شاہراہپر سفر کر نے والے لوگوں اور مقامی عوام میں ایکنئی اُمید جاگ گئی تھی لیکن غیر تکینکی طریقے سے شروع کئے گئے کام نے مسافروں ،ڈرائیوروں اور عوامی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ جموں سے بانہال بچوں کے ہمراہ کنبے ہفتوں تک پلان بنانے کے باوجد نہیں جا پارہے ہیں ۔ گذشتہ ایک ہفتے کے زائید عرصے سے ہزاروں مسافروں نے اپنے بال بچوں سمیت سڑک پر رات گذاری ہے جبکہ کئی مسافر پیڑا رام بن سے واپس جموں کی طرف آنے کو مجبور ہو گئے ۔ لعل بازار سرینگر سے تعلق رکھنے والا ایک کنبہ جو سنچر وار شام کو شہیدی چوک جموں میںسامان سے لدھے بیگ ہلکی بارش میں کچھ پریشان نظر آ رہے تھے۔یہ میاں بیوی تین بچوں کے ہمراہ ایک دوکان کے سامنے رات ساڑے دس بجے کے قریب کچھ پریشان نظر آنے کے بعد پوچھے جانے پر اُنہوں نے اے ٹی اے کے بارے میں پوچھا ۔ اے ٹی ایم کا پتہ بتانے کے بعد اُن سے معلوم کر نے پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ جموں سے صبح ایک پرائیوٹ گاڑیلیکر نکلے تھے لیکن شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے بھاری ٹریفک جام کے بیچ و ہ بہ مشکل جموں واپس پہنچے ہیں اور اب گاڑی کا ڈرائیوربھی اُنہیں برابر سرینگر کا کرایہ مانگ رہا ہے ۔ شاہراہ کی اس خستہ حالی نے ریاست کے عوام اور شاہراہ پر سفر کر نے والے دیگر مسافروں کو بڑی پریشانیوں اور مشکلات میں دالے رکھا ہے ۔