آئی جی پی ٹریفک جموںبسنت کمار رتھ نے شہر جموں کے بگڑے ٹریفک نظام کو پٹری پر لایا اب شاز ونادر ہی کوئی بغیر ہلمٹ پہنے موٹرسائیکل واسکوٹر چلاتے دکھائی دیتاہے، جام میں نمایاں کمی!

نیوزڈیسک
جموں//پچھلے ایک ہفتہ سے صوبہ جموں بالخصوص سرمائی دار الحکومت جموں میںٹریفک نظم ونسق میں نمایاں بہتری نظر آئی ہے۔ ایک ہفتہ کے اندر یکا یک تبدیلی حال ہی میں آئی جی پی ٹریفک کا عہدہ سنبھالنے والے بسنت کمار رتھ کی وجہ سے ہوا۔ جموں شہر میں ٹریفک کا بگڑے نظام پر اراکین قانون سازیہ کی کئی کمیٹیوں نے تجاویز، سفارشات ہدایات دیں، عدالت عالیہ میں مفادعامہ عرضیاں(پی آئی ایل) دائر ہوئیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا لیکن بسنت رتھ نے ایک ہفتہ کے اندر ایمانداری، بہادری، شجاعت اور منفرد انداز میں اس نظام کو کافی حد تک پٹری پر لا دیا ہے۔ اب جموں شہر میں شاز ونادر ہی کوئی بغیر ہلمٹ موٹرسائیکل، سکوٹی چلاتے دکھائی دیتاہے ۔90فیصد سے زائدموٹرسائیکل واسکوٹی چلانے والے ہلمٹ پہنے نظر آتے ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ اب دو دو ہلمٹ پہنے بھی نظر آرہے ہیں۔سماجی رابطہ سائٹوں پر ٹریفک نظم ونسق کو بنائے رکھنے کے لئے انتباہات کے لئے چند سخت وتلخ گیر الفاظ استعمال کر نے پر چوطرفہ تنقید کی ذد میں آئے بسنت رتھ کے حمایتوں کی تعداد اب کئی گناہ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ان کے کام کرنے کے انداز کو کافی پسند کیاجارہاہے۔انہوں نے انگریزی کی بجائے اردو اور ہندی میں حکومت کی طرف سے مقرر کردہ کرایوں کی عمل آوری کے لئے بھی احکامات صادر کئے۔جموں وکشمیر میں حال ہی میں انسپکٹر جنرل آف پولیس ٹریک کا عہدہ سنبھالنے والے بسنت کمار رتھ نے سڑکوں پر اپنی ڈیوٹی اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بالخصوص فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی پیار بھری دھمکیوں سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے عادی افراد کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ محض بارہ روز قبل یعنی 9 فروری کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے والے آئی پی ایس افسر بسنت رتھ نے اس قلیل عرصہ کے دوران ہزاروں لوگوں کو اپنا مداح اور درجنوں بااثر افراد بشمول سیاستدانوں اور اعلیٰ پولیس افسروں کو ناراض کردیا ہے۔ انہوں نے گذشتہ روز ایک آئی پی ایس افسر کے بیٹے جوکہ ٹیریٹوریل آرمی میں لیفٹیننٹ اور ایک آئی پی ایس افسر کا داماد ہیں، کی گاڑی ضبط کی۔ بات ضبطی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ طرفین نے ایک دوسرے کے خلاف پولیس تھانہ میں ایف آئی آر بھی درج کرائی۔ اس کے بعد رتھ نے ایک مکان مالک کے خلاف پولیس تھانہ میں شکایت درج کی جس نے اپنے گھر میں منائی جانے والی شادی کی تقریب کے لئے سڑک کو بلاک کردیا تھا۔ اپنے دبنگ سٹائل کی وجہ سے سنگھم کے نام سے مشہور بسنت رتھ فیس بک اور ٹویٹر پر اپنی پیار بھری دھمکیوں سے تعریفیں بٹورنے کے ساتھ ساتھ تنقیدوں کی زد میں بھی آگئے ہیں۔ انہیں جموں کی سڑکوں پر ایک عام ٹریفک پولیس کانسٹیبل کی طرح ٹریفک کو ریگولیٹ اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکبین سے نمٹتے ہوئے دیکھا جارہا ہے۔ جموں کی ایک مصروف ترین سڑک پر منگل کے روز لوگوں نے اس وقت ’بسنت رتھ زندہ باد‘ کے نعرے لگائے جب ٹریفک پولیس سربراہ نے پولیس کی ایک جپسی کو ضبط کرلیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق مسٹر رتھ جو بذات خود بکرم چوک میں ٹریفک کو ریگولیٹ کررہے تھے، نے ایک پولیس جپسی کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا۔ مذکورہ جپسی بغیر نمبر پلیٹ سڑک پر چل رہی تھی۔ رتھ نے چالان کاٹنے کے بعدجپسی کو ضبط کرنے کے احکامات جاری کئے۔ وہاں موجود لوگوں نے یہ دیکھ کر ’بسنت رتھ زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ بسنت رتھ نے وی وی آئی پی کلچر کے حوالے سے اپنی ایک فیس بک پوسٹ اور ٹویٹ میں اپنا ارادہ صاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ میری کتاب میں وی وی آئی پی مریض کو اسپتال لے جانے والی ایمبولنس ہے۔ ہر ایک کو میرے اس وی وی آئی پی کو جگہ دینے ہوگی۔ انہوں نے ٹرانسفر کے خوہشمند ٹریفک پولیس اہلکاروں سے کہا ہے کہ وہ کسی سیاستدان کی سفارش کے بجائے انہیں بذات خود ٹیکسٹ میسیج بھیجیں۔ آئی جی پی ٹریفک نے بدھ کے روز اپنے فیس بک کھاتے پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں انہیں پولیس اہلکاروں کو ٹریفک قوانین پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ انہیں ویڈیو میں پولیس اہلکاروں سے یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے ’آپ میرے بھائی ہو۔ آپ کو سڑک پر تکلیف دینے سے مجھ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر آپ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تو اس سے یہ میسیج جائے گا کہ آپ مجھے سنجیدگی سے نہیں لیتے ہو۔ میری ناک نہیں کٹنی چاہیے کیونکہ بال پہلے سے ہی نہیں ہیں‘۔ رتھ نے اہلیان جموں وکشمیر کو پہلے ہی اپنا ذاتی موبائیل نمبر دیا ہے اور اس پر ٹریفک خلاف ورزیوں سے متعلق ویڈیوز اور پیغامات بھیجنے کے لئے کہا ہے۔ مبصرین کے مطابق بسنت رتھ کے آئی جی ٹریفک کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جموںکے ٹریفک نظام میں غیرمعمولی بہتری آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے’قریب 90 فیصد موٹر سائیکل چلانے والے سیفٹی ہیلمنٹ کا استعمال نہیں کرتے تھے۔ مسافر گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات کی من مانیاں عروج پر تھیں۔ غلط پارکنگ کی وجہ سے عوام پریشان تھا۔ لیکن جب سے بسنت صاحب آئے ہیں، سب کچھ بدل گیا ہے۔ آپ کو کوئی موٹر سائیکل والا بغیر ہیلمنٹ نہیں ملے گا۔ مسافر گاڑیوں کے ڈرائیو حضرات اچانک بدلنے لگے اور غلط پارکنگ کا مسئلہ بہت حد تک حل ہوگیا ہے۔ گذشتہ دو ہفتوں سے جموں کی سڑکوں پر ٹریفک جام بھی کم ہوگیا ہے‘۔ اگرچہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد آئی پی ایس افسر بسنت رتھ کے ڈیوٹی انجام دینے کے طریقے سے بہت خوش نظر آرہے ہیں، تاہم مبینہ طور پر کچھ بااثر افراد رتھ کی ڈیوٹی کے طریقے سے ناخوش ہیں اور وہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، ریاستی پولیس سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید اور وزیر اعلیٰ کی شکایتی سیل میں اپنی شکایتی درج کررہے ہیں۔ ان ناخوش افراد کا الزام ہے کہ رتھ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکبین کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر زدوکوب بھی کرتے ہیں۔ نیتن بخشی نامی وکیل کی قیادت والے ایک گروپ نے وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو بھیجی گئی اپنی شکایت میں کہا ہے کہ آئی جی پی ٹریفک نہ صرف خلاف ورزی کے مرتکبین کے خلاف نازیبا زبان بلکہ لاتھوں اور مکوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شکایتی خط میںلکھا ہے کہ مسٹر رتھ بغیر وردی پہنے سڑکوں پر ڈیوٹی دیتے ہیں اور ان کے اٹیچمنٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ رتھ پر یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے حال میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے میڈیا انالسٹ جاوید ترالی اور ان کے افراد خانہ کے خلاف نازیبا زبان کا استعمال کیا۔ تاہم آئی جی پی ٹریفک سڑکوں پر اپنی ڈیوٹی سے زیادہ سوشل میڈیا پر اپنی پیار بھری دھمکیوں سے مشہوری حاصل کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین جہاں رتھ کی سراہنا کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہاں کشمیر سے تعلق رکھنے والے بیشتر صارفین مطالبہ کرتے نظر آرہے ہیں کہ بسنت رتھ کو ریاست کا پولیس سربراہ بنایا جائے۔ آئی پی ایس افسر کو تاہم کئی ایک فیس بک پوسٹس کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ انہوں نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں ہیلمنٹ کا کنڈوم کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا ’دوستو۔ ہیلمنٹ ایک کنڈوم جیسا ہے۔ جب آپ اس کو صحیح سے پہنتے ہو تو یہ آپ اور آپ کے عزیز کو تحفظ فراہم کرتا ہے‘۔ کانگریسی ممبر اسمبلی عثمان مجید نے رتھ کے اس فیس بک پوسٹ پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا ’یہ ایک بیہودہ بیان ہے۔ ایک پاگل آدمی ہی ایسا بیان دے سکتا ہے۔ وہ ہیلمنٹ کو کنڈوم بول رہا ہے۔ سرکار نے کس پاگل کو آئی جی ٹریفک بنایا ہے۔ اسے فی الفور ہٹایا جانا چاہیے۔ اس کے خلاف کاروائی کرکے اسے پاگل خانے بھیجا جانا چاہیے۔ یہ خواتین کی اسکوٹیز اور گاڑیوں پر لاتیں مارتا ہے‘۔ اگرچہ کچھ افراد بسنت رتھ کے ڈیوٹی دینے کے طریقے سے خوش نہیں ہیں، تاہم 95 فیصد آبادی کا کہنا ہے کہ ریاست کو بسنت رتھ جیسے مزید افسروں کی ضرورت ہے۔ مسٹر رتھ کی جانب سے فیس بک اور ٹویٹر پر لکھی جانے والی تحریریں سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی جارہی ہیں اور بیشتر صارفین ان کی ڈیوٹی انجام دینے کے طریقے سے خوش نظر آرئے ہیں۔ آئی جی پی ٹریفک اپنی ایک فیس بک و ٹویٹر تحریر میں ایمبولنس کو اپنے لئے وی وی آئی پی قرار دیتے ہوئے لکھا ’ڈیئر جموں، میری کتاب میں وی وی آئی پی مریض کو اسپتال لے جانے والی ایمبولنس ہے۔ ہر ایک کو میرے وی وی آئی پی کو جگہ دینے ہوگی۔ کوئی بحث نہیں۔ کوئی رعایت نہیں‘۔ انہوں نے اپنی ایک سوشل میڈیا تحریر میں ٹریفک پولیس اہلکاروں سے مخاطب ہوکر لکھا ’ڈیئر ٹریفک پولیس اہلکاروں۔ اگر آپ ٹرانسفر چاہتے ہو تو مجھے ٹیکسٹ میسیج کردو۔ آپ سیاست اور سیاستدانوں کو اس میں نہ لائیں‘۔ رتھ نے اسکوٹی چلانے والی خواتین کو ہیلمنٹ کا استعمال کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا ’جموں میں دو پہیہ چلانے والی خواتین کے لئے پیغام۔ جب تک میں یہاں ہوں، آپ کو ہیلمنٹ پہننا ہوگا۔ آپ کے پاس صرف دو آپشن ہیں۔ صرف دو۔ آپ ایک معیاری ہیلمنٹ خریدیے یا میری ٹرانسفر کے لئے دعا کیجئے۔ ٹریفک قوانین کے حوالے سے کس کے لئے کوئی رعایت نہیں ہے‘۔ انہوں نے ہیلمنٹ کا استعمال نہ کرنے والوں کو سخت وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ’ان سینئر دوستوں کے لئے جو سمجھتے ہیں کہ میں فیس بک اور ٹویٹر پر فضول ہوں اور سڑکوں پر کوئی ہمت نہیں رکھتا ہوں۔ آپ اپنے ذاتی محافظین سے کہئے کہ وہ اپنے موٹر سائیکل بغیر ہیلمنٹ چلائیں۔ میں ان کا دن خراب کردوں گا‘۔ رتھ نے اپنی ایک سوشل میڈیا تحریر میں آئی پی ایس افسر کے بیٹے کی گاڑی ضبط کرنے کے واقعہ کے بارے میں لکھا ’فرنڈس۔ میں نے آج ایک آڈی کار ضبط کی۔ اس کا ڈرائیو ایک نوجوان دوست ہے جس کے ساتھ میں ٹینس کھیلتا تھا۔ اس کا والد میرا ساتھی اور آئی پی ایس افسر ہیں۔ میں دکھی ہوں۔ میں خوش ہوں‘۔ انہوں نے رشوت لینے والے ایک ٹریفک پولیس اہلکار کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’دوستو۔ مہربانی کرکے اس ٹریفک پولیس اہلکار کی شناخت کرو۔ میں آپ کو دس ہزار روپے دوں گا۔ وہ بھی اپنی محنت کی کامیابی میں سے‘۔ آئی جی پی نے اہلیان جموں کو دیکھتے رہنے کی صلاح دیتے ہوئے لکھا ’ڈیئر جموں۔ تبدیلی لانے کے حوالے سے میری اہلیت پر شک مت کریے۔ رفتار میری اپنی ہوگی۔ یہ شعیب اختر جیسی ہوگی نہ کہ ونکٹیش پرساد‘۔ بسنت رتھ جو نیوز پورٹل دی وائر کے لئے باقاعدگی سے لکھتے ہیں، کا تعلق ریاست اڑیسہ سے ہے۔ وہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ دی وائر اور انڈین ایکسپریس کے لئے کالم لکھنے کے علاوہ انگریزی زبان میں شاعری بھی لکھتے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ بسنت رتھ نے مشہور کشمیری شاعر مرحوم آغا شاہد علی سے متاثر ہوکر شاعری لکھنا شروع کی تھی۔ انہوں نے کشمیر میں پائی جانے والی گمنام قبروں اور نوے کی دہائی میں پیش آنے والے سانحات پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ کشمیر پر لکھنے کی وجہ سے انہیں ماضی میں ’اینٹی نیشنل‘، ’آزادی حامی‘ اور ’کشمیر حامی‘ بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ’نظام‘ میں پائی جانے والی خامیوں پر دی وائر اور انڈین ایکسپریس میں لکھنے کے تناظر میں مرکزی حکومت بسنت رتھ کے خلاف کاروائی چاہتی تھی، لیکن ریاست حکومت نے انہیں ترقی دیکر ڈی آئی جی سے آئی جی پی ٹریفک بنادیا(بشمولات یو این آئی)