لال چوک اسلام آباد چلو کال کا اعادہ

جمہوریت کے دعویداروں کیلئے لٹمس ٹیسٹ ہے:مشترکہ قیادت
سرینگر //اگر بھارتی حکمران اور ان کے کشمیری گماشتے کسی بھی قسم کی جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں اپنی جابرانہ پالیسیوں کو ترک کرکے مزاحمتی خیمے کو پرامن سرگرمیاں کرنے کی اجازت فراہم کرنی چاہئے۔ لال چوک اسلام آباد میں مشترکہ مزاحمتی قیادت کا ۱۵؍ دسمبر کا مجوزہ جلسہ نام نہاد جمہوریت کے دعویداروں کیلئے لٹمس ٹیسٹ(آزمائش) ہے۔ ان باتوں کا اظہار مشترکہ مزاحمتی قیادت جناب سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ محمد عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے میڈیا کیلئے جاری کئے گئے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷؁ئ‘کو لال چوک اسلام آباد میں عوامی جلسے کی کال کا اعادہ کرتے ہوئے مزاحمتی قائدین نے کہا کہ حالانکہ بھارتی ریاست اور اس کے کشمیری مدد گاروں نے مزاحمتی قائدین کو یا تو جیلوں میں یا خانہ نظر بند کرکے پابند سلاسل کردیا ہے،لیکن ان ظالمانہ و جابرانہ حربوں اور پولیس و فوج کے طاقت کے استعمال کے باوجود ‘ مشترکہ قیادت اس جلسے کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائے گی۔انہوں نے کہا کہ فوجی طاقت کے بل پر قبرستان کی خاموشی کو امن اور جمہوریت قرار دینا عقل و دانش کا فقدان ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور اگر بھارت اور اس کے ریاستی طرف دار واقعتاکسی قسم کی جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی میں یقین رکھتے ہیں تو انہیں اپنے جابرانہ اقدامات کو ترک کرکے مشترکہ مزاحمتی قیادت کے مجوزہ جلسے اور دوسرے پروگراموں کو اجازت فراہم کرنی چاہئے۔ قائدین نے کہا کہ بھارت میں حکمران فسطائی طاقت ‘جوزف گوبلز کی بدنام پروپیگنڈ ا تکنیک کا استعمال کرکے عوامی مزاحمت کو کچلنے کو امن کا نام دے خوش فہمیوں میں جی رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی حکمران اس گمان میں ہیں کہ ان کی فوج اور ظلم و تعدی نے کشمیریوں کی مزاحمت کو کچل دیا ہے تو وہ مزاحمتی خیمے کی سیاسی کاوشوں پر لگی پابندی کو ہٹا کر سیاسی مکانیت فراہم کریں تاکہ ان کی خوش گمانیوں کی حقیقت کا بھی پتہ چل سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک متنازعہ خطے میں امن اور نارملسی کی باتیں کرناہر ذی ہوش کے لئے کسی مذاق سے کم نہیں ہوتا اور آج جبکہ پورے کشمیر خاص طور پر جنوبی کشمیر میں فوجی دبائو اور جمائو کو بڑھایا گیاہے‘ نوآبادیاتی طرز عمل کے حامل بھارتی حکمران ایسے ہی امن اور نارملسی کو فروغ دینے میں محو رہتے ہیں ۔قائدین نے کہا کہ بھارت کشمیریوں کی مزاحمت کو محض فوجی طاقت سے ہی کچلنے کا روادار ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ قبرستان کے جس امن کو قائم کرنے کی باتیں بھارتی کر رہے ہیں اسے‘ ان کی فوج ، فورسز اور پولیس نے ہزاروں افراد کو گولیوں اور پیلٹ سے قتل کرنے، ہزاروں کی بینائی چھین لینے ،ہزاروں کو جیلوں اور ٹارچر سینٹروں میں مقید کرنے ، اربوں روپے مالیت کے املاک کو تباہ کرنے کے بعد حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیںجبکہ عرصۂ دراز سے ہر قسم کی سیاسی کاوش پر مکمل پابندی،تعزیت پرسی اور عزاداری تک کی مجالس کو پابند کردینے اور جملہ سیاسی مکانیت کو مسدود کرکے نیز این آئی اے اور ای ڈی کی ہڑبھونگ کے ذریعے مزاحمتی قائدین و اراکین کو پابند کررکھا گیا ہے۔قائدین نے کہا کہ سید علی شاہ گیلانی اور میرواعظ محمد عمر فاروق کو خانہ نظر بند کردینے اور محمد یاسین ملک کو دوسرے کئی لوگوں سمیت سرینگر سینٹرل جیل میں قید کردینے کا عمل دراصل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ بھارت اور اسکے کشمیری مددگار کشمیر میں مزاحمتی قائدین کو سیاسی مکانیت دینے کی جرات نہیں رکھتے اور ان کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے یہ لوگ ظلم و جبر اور استبداد کا ہی سہارا لینے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور انکے نزدیک آواز خلق کو نام نہاد جموریت اور امن و امان کے نام پر دبانا ہی واحد حل ہے۔قائدین نے کہا کہ عوامی جلسہ جو ۱۵؍ دسمبر ۲۰۱۷؁ء کو لال چوک اسلام آباد میں بلایا گیا ہے کو منعقد کرنے کا مقصد پوری دنیا کے سامنے کشمیریوں کی آواز کو اُٹھانا ہے اور دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ کشمیری اپنے حق کی بازیابی کیلئے جدوجہد ہر حال میں جاری رکھیں گے۔ اس جلسے کا ایک اور مقصد کشمیر کے اطراف و اکناف میں جاری فوجی جبر و تشدد خاص طور پر جنوبی و شمالی کشمیر میں بپا بھارتی فوجی ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا ہے جبکہ اس جلسے کے ذریعے خاص طور پر جنوبی کشمیر کے عوا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار بھی مطلوب ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قائدین نے کہا کہ فوجی جبر اور ظلم و تعدی سے عوامی تحاریک اور جدوجہد کو دبانا ممکن نہیں ہوتا اسلئے بھارتی حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ان کا ظلم و جبر بھی کشمیریوںکی مزاحمت کو نہ ماضی میں کچل سکا ہے اور نا ہی مستقبل میں ایسا ہونے کی کوئی توقع و امید ہے۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کے نمائندہ ہونے کی حیثیت ہم بھارت اور سکے ریاستی گماشتوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ اپنے اندر کچھ عزم و ہمت پالیں اور جرات کرکے مزاحمتی خیمے کو اپنی سیاسی کاوشیں کرنے کی چھوٹ دیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کا ہوسکے۔