کشمیر میںچوٹی کاٹنے کے واقعات بی جے پی کا ہائی کورٹ جج سے تحقیقات کا مطالبہ

اڑان نیوز
جموں//گیسو تراشی کی تحقیقات ہائی کورٹ جج سے کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھارتیہ جنتاپارٹی کے ترجمان نے کہاکہ علیحدگی پسند اور سماج دشمن عناصر ایسی کارروائی کر سکتے ہیں۔ پارٹی کے ترجمان ایڈوکیٹ سنیل سیٹھی نے کہا ہے کہ سچ کو سامنے لانے کیلئے حکومت کو تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینی چاہئے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو سکے۔ انہوں نے کہاکہ سماج دشمن عناصر خواتین کے بال کاٹ کر لوگوں کو تشدد کیلئے اکسا رہے ہیں جس پر فوری طور پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ سنیل سیٹھی نے بڑھتے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست خاص کرو ادی کشمیر میں امن و امان کو درہم برہم کرنے کیلئے سماج دشمن عناصر اور علیحدگی پسند سوچ رکھنے والے افراد ایسی کارروائی انجام دے سکتے ہیں۔ ترجمان نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کیلئے ہائی کورٹ جج سے تحقیقات کرانے کی ضرورت ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو سکے۔ انہوں نے کہاکہ راجستھان میں سب سے پہلے خواتین کے بال کاٹے گئے اور اُس کے بعد پنجاب ہریانہ اور بعد میں ریاست جموںوکشمیر میں بھی خواتین اور دوشیزاؤں کے بال کاٹے گئے ۔ انہوںنے کہاکہ امن و امان کو درہم برہم کرنے کیلئے شیطانی دماغ نے منصوبہ بنایا تاکہ لوگوں کو سڑکوں پر آنے کیلئے مجبور کیا جاسکے۔ لوگوں کی جا نب سے فوج اور دوسرے اداروں پر الزامات عائد کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں بی جے پی ترجمان نے کہاکہ ماضی میں بھی فوج پر الزامات لگائے گئے تاہم وہ آج تک ثابت ہی نہیں ہوئے ۔ انہوںنے کہاکہ کشمیر وادی میں جب کوئی ناخوشگوار واقع رونما ہوتا ہے تو سماج دشمن عناصر سیکورٹی ایجنسیوں کو ہی مورد الزام ٹہرا تے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ قومی تحقیقاتی ایجنسی اور سیکورٹی اداروں نے ریاست خاص کرو ادی کشمیر میں امن و امان کی بحالی کیلئے کارگر اقدامات کئے ہیں اور کئی افراد امن و امان کو درہم برہم کرنے کیلئے چوٹیاں کاٹ رہے ہیں۔ ترجمان کے مطابق سیکورٹی ایجنسیوں نے عسکریت پسندوں پر دباو بنائے رکھا ہے جس کی وجہ سے جنگجو جنگلوں میں گھوم پھیر رہے ہیں۔ بی جے پی ترجمان نے واضح کردیا کہ گیسو تراشی میں ملوث افراد کو بے نقاب کرکے انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے کیونکہ خواتین کے بال کاٹنا ناقابل برداشت ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہیں۔