بھارت کی پی ایل آئی اسکیم کی حصولیابیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کا تجزیہ

راجیش کمار سنگھ،
اگر بھارت کی قابل ذکر نمو کی داستان میں کوئی ایک منڈراتی ہوئی چنوتی ہے، تو بلاشبہ یہ چنوتی مینوفیکچرنگ شعبے کے اندر موجود ہے جس کا بھارت کے جی وی اے میں حصص تقریباً 17.4 فیصد کے بقدر کا ہے اور یہ حصص زراعت کے حصص کے مقابلے میں بھی کم ہے۔ حکومت کی جانب سے اس اہم عنصر کو تقویت بہم پہنچانے کی پیہم کوششوں کے نتیجے میں مختلف النوع پہل قدمیاں متعارف کرائی گئی ہیں اور ان میں سے سرفہرست پہل قدمی پیداوار سے منسلک ترغیبات (پی ایل آئی) اسکیم ہے جو آتم نربھر بھارت ابھیان کی سرپرستی کے تحت کام کرتی ہے۔
پی ایل آئی اسکیم، جس کا تصور گھریلو مینوفیکچرنگ کی حالت بہتر بنانے کے مقصد کے ساتھ کیا گیا تھا، اس کے تحت صلاحیت میں اضافے اور مسابقت کو فروغ دینے اور عالمی پیمانے کے معروف اداروں کی تخلیق ہے۔ اس کے وسیع تر اہداف میں، روزگار بہم رسانی، خاطر خواہ سرمایہ کاری کوراغب کرنا، برآمدات میں اضافہ اور بھارت کو ایک عالمی مینوفیکچرنگ مرکز کے طو رپر حیثیت دلانا جیسی باتیں شامل ہیں۔ اس کے کثیر پہلوئی اثرات کے نتیجے میں مینوفیکچرنگ کے شعبے کے ذریعہ جی ڈی پی میں دیے جانے والے تعاون میں مضمراتی اضافہ رونما ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ گھریلو فرمیں علاقائی اور عالمی پیداواری نیٹ ورکوں سے بلارکاوٹ مربوط ہو سکتی ہیں۔
اس کے آغاز سے لے کر پی ایل آئی اسکیم نے اہم حصولیابیاں اپنے کھاتے میں درج کی ہیں، منظور شدہ 746 درخواستوں کے ساتھ اس نے 1.07 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کی سرمایہ کاریاں بہم پہنچائی ہیں۔ روزگار بہم رسانی کے معاملے میں اس کے اثرات خاطر خواہ طور پر بہتر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر 7 لاکھ کے بقدر دونوں قسم کے یعنی براہِ راست اور بالواسطہ روزگار بہم پہنچائے گئے ہیں۔ مزید برآں پیداوار اور فروخت میں اضافہ ہوکر یہ 8.70 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی 4415 کروڑ روپئے کے بقدر کی متاثر کن ترغیبات بھی تقسیم کی گئی ہیں۔ براہِ راست استفادہ کنندگان میں 176 ایم ایس ایم ای ادارے شامل ہیں جو 8 پی ایل آئی شعبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
2021-22 کے مالی سال سے لےکر 2028-29 کے مالی سال کے دوران کی سات سالہ مدت میں، پی ایل آئی اسکیم پہلے ہی 14 کلیدی شعبوں میں 3 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر کی خطیر سرمایہ کاری عہد بندگیاں راغب کر چکی ہے، اس سے دونوں یعنی گھریلو اور بین الاقوامی صنعت کے معاملے میں سرکردہ بھارتی اور بین الاقوامی کمپنیوں ، مثلاً فاکس کان، سیم سنگ، وپرو، ٹاٹا ریلائنس، آئی ٹی سی، جے ایس ڈبلیو، ڈابر وغیرہ کے صنعتی قائدین کی سرگرم شراکت داری کا اظہار ہوتا ہے۔
قابل ذکر طور پر پی ایل آئی اسکیم نے اسمارٹ فون مینوفیکچرنگ کے معاملے میں بطور خاص اپنی اثر انگیزی ثابت کی ہے۔ یہ مینوفیکچرنگ موبائل برآمدات کے معاملے میں تقریباً صفر کے مقابلے میں 2022-23 میں 11 بلین امریکی ڈالر کے بقدر کا قابل ذکر تعاون فراہم کر نے میں کامیاب رہی ہے۔ بقیہ 14 شعبوں پر مرتب ہونے والے دور رَس اثرات کے بارے میں بھی توقع ہے کہ آئندہ دو تین برسوں میں ایسا ہوگا۔ اکثر و بیشتر چند حلقوں میں اس طرح کے اندیشوں کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس اسکیم کو موبائل مینوفیکچرنگ (فی الحال 20 فیصد) جیسے شعبوں میں وافر مقامی قدرو قیمت اضافہ کے فقدان کا سامنا ہے۔ تاہم اس طرح کے اندیشے تقریباً بے بنیاد ہیں، خاص طور پر جب ہم اس شعبے میں مستحکم طریقے سے افزوں مقامی سرگرمی کے رجحان میں اضافہ ملاحظہ کرتے ہیں ساتھ ہی ساتھ ای۔موٹرگاڑیوں کے شعبے میں جہاں گھریلو قدرو قیمت اضافہ (ڈی وی اے) لازمی طور پر کم از کم پچاس فیصد یا وائٹ گڈس جہاں ڈی وی اے تقریباً 45 فیصد کی سطح پر ہے اور ہدف مقرر کیا گیا ہے کہ اسے 2028-29 تک 75 فیصد کے بقدر تک پہنچا دیا جائے۔
مزید برآں، پی ایل آئی اسکیم کی ساخ اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ یہ ترغیبات کے اجراء سے قبل فروخت میں اضافہ کے ساتھ اضافی (برآمدات سمیت)سرمایہ کاریاں لائے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خالص موجودہ قدرو قیمت (این پی وی) اس سے مشروط ہے کہ اسکیم ازخود اپنا جواز پیدا کرے اوراپنی لاگت ازخود برداشت کرے یعنی جب اسے مالیہ کا حصول (جی ایس ٹی اور براہِ راست ٹیکس کلکشن کی شکل میں) شروع ہوجائے تو تقسیم ہونے والی ترغیبات کے بالمقابل حسب دستور اس کا احتساب کیا جاسکے۔ یہ چیز اس امر کو بھی یقینی بناتی ہے کہ اس بات کے بہت کم یا تقریباً صفر امکانات ہیں کہ وہ اکائیاں جو سبسڈی ادائیگی کے بعد قائم ہوں اور حصولیابی کے بعد بند کر دی جائیں، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے یعنی دیگر سبسڈیوں سے وابستہ سرکاری اسکیمیں اکثر اس مسئلے کا سامنا کرتی ہیں، اس اسکیم کے معاملے میں ایسا نہیں ہوگا۔
حکومت نے پی ایل آئی اسکیم کے لیے اضافی اقدامات کی شکل میں امداد کا راستہ بھی بنایا ہے، اس میں کوالٹی کنٹرول ،مقامی مینوفیکچرنگ کو مضبوط کرنا شامل ہے۔ یہ کلیدی طریقہ کار ایسا ہے جس نے مثال کے طور پر کھلونے کے شعبے کو مہمیز کیا ہے یعنی کھلونا برآمدات 96 ملین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 2022-23 میں 326 ملین امریکی ڈالر کے بقدر تک پہنچ گئی ہیں۔ اسی طریقے سے دفاعی شعبہ مقامی حصولیابی اور دفاعی گلیاروں کے کھولے جانے کی پالیسیوں سے پروان چڑھا ہے او راس نے برآمدات کے معاملے میں 2014-15 کی 700 کروڑ روپئے کی برآمدات کے مقابلے میں 2022-23 میں 16000 کروڑ روپئے کے بقدر برآمدات ملاحظہ کی ہیں۔
یہ کامیابیاں ایک مضبوط اور ازخود اپنی بقاء کے ضامن ایکو نظام کے بتدریج وجود میں آنے کا اشارہ دیتی ہیں۔ جدید ترین تکنالوجی پر پی ایل آئی اسکیم کی توجہ موجودہ لیبر فورس کی ہنرمندیوں کو بہتر بنانے، تکنالوجی کے لحاظ سے فرسودہ مشینریوں کو بدلنے اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کو عالمی پیمانے پر مسابقت حامل بنانے کے لیے مستعد ہے۔ افزوں پیداواری مقدار فزوں تر صارفین طلب خصوصاً ٹیلی مواصلات اور نیٹ ورکنگ مصنوعات کے معاملے میں طلب کی تکمیل کر رہی ہیں جہاں اسکیم کی بروقت دخل اندازی کے نتیجے میں بھارت بھر میں نسبتاً تیز رفتار طریقے سے 4جی اور 5 جی مصنوعات اپنائی گئی ہیں۔
اضافی طور پر، سبز تکنالوجیوں مثلاً ای۔موٹر گاڑی، شمسی پینلوں وغیرہ کے معاملے میں پی ایل آئی طلب سے وابستہ اقدامات مثلاً فیم اسکیم کے ساتھ مل کر اور افزوں طور پر قابل احیاء توانائی کی لازمیت نے بھارت کو قابل احیاء توانائی کے معاملے میں اپنے این ڈی سی اہداف سے تجاوز کرنے میں اعانت فراہم کی ہے۔ پی ایل آئی کے تحت افزوں فروخت بہتر لاجسٹکس کنکٹیویٹی کی ضرورت نمایاں کرے گی اور یہ ضرورت ہمارے بنیادی ڈھانچے میں بھارت بھر میں مینوفیکچرنگ زونوں کو کثیر پہلوئی کنکٹیویٹی فراہم کرنے کے لیے وضع کردہ پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان کا استعمال کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے ذریعہ پوری کی جائے گی۔ پلگ اینڈ پلے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ قائم کیے جانے والے کلسٹر پارک مختلف خطوں میں مینوفیکچرنگ کو مزید تعاون فراہم کریں گے۔
ایک مبنی بر شمولیت طریقہ کار جو ریاستوں کے ساتھ قریبی تال میل بناکر حاصل کیا گیا ہے وہ بھارت کے اندرونی حصوں میں صنعتوں اور صناعوں کو بااختیار بنا رہا ہے کہ وہ بھارت کی نمو کی داستان کا مربوط حصہ بن سکیں۔ ایک ضلع ایک پروڈکٹ اور ایس ایف یو آر ٹی آئی جیسی پہل قدمیاں روایتی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے کلسٹر پر مبنی اسکیم، تصور شدہ مسابقتی خساروں کو بھارت اور اس کی صنعتوں کے لیے مختصر مدت اور طویل مدت فوائد میں بدل رہی ہیں۔
وبائی مرض اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے عالمی پیمانے کے سماجی اقتصادی نشیب و فراز کے نتیجے میں درپیش چنوتیوں نے پی ایل آئی اسکیم کے بخوبی طور پر غور و فکر کے بعد طے کیے گئے مقاصد کی تصدیق کی ہے۔ اس سے وابستہ ایکو نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ بھارت گلوبل ویلیو چینوں کے ساتھ مربوط ہونے کے لیے کلیدی مقام حاصل کر سکے، سپلائی چین کو متنوع بنانے میں اپنا تعاون دے سکے اور ایک پریشان کن عالمی منظرنامے میں افزوں قومی سلامتی کے ساتھ تمام امور انجام دے سکے۔ بھارت کے مینوفیکچرر حضرات اب اپنے مخصوص آسائش کے حامل زونوں سے باہر آکر عالمی سرخیل کے طور پر ابھرنے کی ملک کی تصوریت کے ساتھ مربوط ہوکر ایک طرقی یافتہ ملک بن جانے کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے مستعد ہیں۔
حتمی طو رپر، پی ایل آئی اسکیم بھارت کے مینوفیکچرن پیش منظر کی تشکیل نو کی محوری قوت بن کر سامنے آئی ہے۔ اس کی حصولیابیاں کلیدی پہل قدمیوں کی تغیراتی قوت کو نمایاں کرتی ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان میں بھارت کو عالمی اقتصادی پاور ہاؤس بنانے کے مضمرات موجود ہیں۔ چونکہ یہ اسکیم بھارت کو اختراع، ہمہ گیری اور مبنی بر شمولیت نمو کے ذریعہ مستقبل کی ایک امتیازی حیثیت کے حصول کی جانب مہمیز کرتی ہے، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ اس کے طفیل ملک مینوفیکچرنگ عمدگی کے شعبے میں نئے عہد میں داخل ہونے کے دہانے پر کھڑا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگارسکریٹری؛ڈی پی آئی آئی ٹی ، حکومت ہند ہے