بجلی بحران اور ریتلے پروجیکٹ معاہدے پر حکومتی وضاحت گمراہ کن اور ناقابل یقین: نیشنل کانفرنس

سری نگرنیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمان نے پیر کے روز کہا کہ جموں و کشمیر میں بجلی بحران اور ریتلے پاور پروجیکٹ معاہدے پر حکومت کی وضاحت، بجلی کی فراہمی اور تقسیم کی بدانتظامی اور متنازعہ ڈیل کے خلاف اٹھائے گئے بنیادی سوال کا جواب نہیں دیتی ہے۔پارٹی کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ سردیوں میں پیداوار میں کمی کی وجہ سے طلب اور رسد کے درمیان فرق کو پورا کرنے کے لئے جموں وکشمیر حکومت کی طرف سے بجلی کی خریداری اور گرمیوں کے دوران شمالی ریاستوں کو شدید گرمی کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں مدد کرنے کے لئے، اس کی فروخت ایک معمول کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ تشویش کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی بے حسی اور بے فکری لوگوں کو منفی درجہ حرارت میں طویل اور غیر طے شدہ شٹ ڈاون کے ساتھ کاپنے پر مجبور کر رہی ہیں کے ساتھ کانپنے پر مجبور کر رہی ہے۔اْن کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے گیس ٹربائن کو بروقت چلانے سمیت مناسب اقدامات کیوں نہیں کئے ،جیسا کہ ماضی میں ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ بیان میں سلال، سلال II، ڈول ہستی، اوڑی I، اوڑی II اور کشن گنگا کو جموں و کشمیر کو منتقل کرنے میں تاخیر کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔کافی وسائل کی کمی کی وجہ سے چند دہائیاں قبل NHPC کو سلال اور دیگر 6 پاور پروجیکٹس کی کو تعمیر کرنے، مقررہ مدت کیلئے چلانے اور منتقلی کے (BOT)معاہدے کے تحت کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔انہوں نے کہاکہ NHPCنے کئی دہائیوں کے تک ان ہائیڈل پروجیکٹوں سے پیدا ہونے والی بجلی سے کافی آمدنی حاصل کی ہے،جموں و کشمیر کو مذکورہ پروجیکٹ منتقل کرنے کی پابند ہے۔رکن پارلیمان نے کہا کہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ وضاحت یہ بات نوٹ کرنے میں ناکام رہی ہے کہ انتظامیہ کے پاس پالیسی فیصلے لینے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کو طویل مدتی وعدوں میں پابند کرنے کے لئے نمائندہ کردار کے مینڈیٹ حاصل نہیںہے۔ اور نہ ہی حکومت نے ریتلے پروجیکٹ معاہدے میں اتنی عجلت کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے اور ایسی صورتحال میں جب انتخابات جلد ہونے کی توقع ہو اور ایسے فیصلے کسی منتخب حکومت کیلئے ہی چھوڑ دینا بہتر تھا۔مسعودی نے کہاکہ حکومتی وضاحت میں مرکزی اور سرکاری محکموں کے علاوہ بڑے کاروباری و صنعتی گھرانوں سے 9321 کروڑ کے بجلی کے بقایا جات کے 80 فیصد کی وصولی کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کا بھی ذکر نہیں ہے۔اگر ان بقایا جات کی وصولی میں سنجیدگی دکھائی جائے تو اس سے نہ صرف کمزور طبقات کو اضافی بوجھ سے نجات ملے گی بلکہ حکومت کو قابل تجدید توانائی کے اضافی وسائل میں سرمایہ کاری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔